پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے سمندر پار پاکستانیز نے ہمیشہ مشکل وقت میں ملک کا ساتھ دیا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیوں سے لے کر مشکل ترین معاشی حالات میں پاکستان سے باہر رہنے والے اس کے شہریوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں ا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔سمندر پار پاکستانیز کے بھیجے گئے ترسیلات زر میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں نے ایک بار پھر ریکارڈ پیسے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جولائی 2024 میں ترسیلات زر کی مد میں تین ارب ڈالر ملک کو موصول ہوئے ہیں، پاکستان آنے والے ان پیسوں میں سب سے زیادہ پیسے سعودی عرب سے پاکستان آئے ہیں، جن کی مالیت 760.1 ملین ڈالر ہے۔
سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ پیسے متحدہ عرب امارات سے پاکستان بھیجے گئے ہیں، جولائی 2024 میں 611.1 ملین ڈالر یو اے ای سے پاکستان آئے ہیں۔معاشی ماہرین پاکستان سے باہر رہنے والوں کو پاکستان کی بڑی قوت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندر پار پاکستانیز نے دن رات محنت کر کے اپنے ملک کے لیے وہ کچھ کیا ہے جو شاید پاکستان میں رہنے والے بھی نہیں کر سکے ہیں۔معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق سمندر پار پاکستانیز معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر مشکل دور میں سمندر پار پاکستانیز نے پاکستان کا ساتھ نبھایا ہے، چاہے کیسے بھی حالات ہوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پاکستان کے لیے کام کیا ہے۔معاشی ماہرین پاکستان سے باہر رہنے والوں کو پاکستان کی بڑی قوت قرار دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان دنوں بدترین معاشی صورتحال ہے، لیکن اس کے باوجود باہر رہنے والوں کی طرف سے بھیجے جانے والے پیسوں میں روز بہ روز اضافہ ہی ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی کے پہلے مہینے میں بھی جو نمبر سامنے آ رہے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔’ایک جانب ہم آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی سخت شرائط کے عوض قرض حاصل کر رہے ہیں تو دوسری جانب بنا کوئی سہولت حاصل کیے یہ اوورسیز پاکستانی ملک میں ڈالر بھیج کر ملک کی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔‘ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ حکومت پاکستان کو اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ باہر رہنے والوں کا اعتماد مزید بحال کیا جائے، انہیں ایسی سہولیات فراہم کی جائیں کہ وہ باآسانی پاکستان پیسے بھیج سکیں۔معاشی امور کے ماہر عبدالعظیم بھی ڈاکٹر شاہد حسن کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اووسیز پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، ان کی طرف سے بھیجے گئے پیسے معیشت کو سپورٹ کرتے ہیں۔سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ پیسے متحدہ عرب امارات سے پاکستان بھیجے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)انہوں نے کہا کہ ’بیرون ملکوں میں مقیم پاکستانی شہری پیسے تو اپنے رشتہ داروں کے لیے ہی بھیجتے ہیں لیکن بینکنگ چینل کے ذریعے آنے سے سسٹم میں یہ اس رقم کی سرکولیشن ہوتی ہے، اور ملکی خزانے پر اس کے مثبت نتائج پڑتے ہیں۔‘عبدالعظیم نے مزید کہا کہ پاکستان سے باہر رہنے والے محنت مزدوری کرتے ہیں، سخت حالات کا سامنا کرتے ہیں، جہاں وہ اپنے پیاروں کی خوشیوں کے بارے میں سوچتے ہیں وہیں وہ ملک کے بارے میں بھی فکر مند رہتے ہیں۔ پردیس میں رہنے والے چاہتے ہیں کہ ان کے ملک کے حالات بھی ایسے ہوں کہ لوگ روزگار کے لیے پاکستان آئیں۔