کراچی: جزیروں پر رہنے والے سمندری طوفان کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

اردو نیوز  |  Aug 30, 2024

کراچی کے علاقے کیماڑی سے کچھ فاصلے پر واقع جزیرہ بابا بھٹ کے رہائشیوں نے اپنی زندگی میں کئی بار طوفانی بارشوں اور سمندری خطرات کا سامنا کیا ہے۔

اس جزیرے کی رہائشی 72 برس کی فاطمہ بی بی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال جون اور جولائی کے موسم میں جب سمندر کی لہریں تیز ہوتی ہیں تو انتظامیہ سمندری طوفان آنے کے خدشات کا اظہار کرتی ہے مگر ان کا اور ان کے اہلِ خانہ کا جینا مرنا اسی سمندر سے جڑا ہے۔ ان کی زندگیاں صدیوں سے اس سمندر سے جڑی ہوئی ہیں، اور وہ ان حالات کا سامنا کرنے کے عادی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے لوگ ماہی گیری کے ذریعے اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ سمندر کی تیز لہریں ان کے لیے ایک طرح کی آزمائش ہوتی ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کو بچپن سے ہی سمندر کی تیز لہروں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان جزیروں میں بسنے والے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہ تیراکی میں ماہر ہوتے ہیں، اور وہ چاہے لڑکی ہی کیوں نہ ہو، اور یہ تربیت ایک نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی آ رہی ہے۔

فاطمہ بی بی نے مزید کہا کہ ’حکومت کو ہمارا خیال صرف طوفانی صورتِ حال میں ہی نہیں آنا چاہیے، سال کے 365 دن ان جزیروں پر رہنے والے کس حال میں ہوتے ہیں، اس بارے میں بھی آگاہ رہنا چاہیے۔ ماہی گیر جب احتجاج کر رہے تھے تو کوئی ہمارا حال پوچھنے نہیں آیا، یہ دو مہینے یہاں کے لوگوں نے کیسے گزارے یہ یہاں کے رہنے والے ہی جانتے ہیں۔‘

دنیا بھر میں سمندری جزیرے دنیا بنانے والے کی عظمت اور وحدانیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہر جزیرہ اپنے فطری حسن کے ساتھ ایک الگ ہی سناتا ہے۔ پاکستانی جزائر بھی اسی طرح جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔

پاکستان کے سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں تقریباً 12 جزائر ہیں، جن میں سے استولا جزیرہ بلوچستان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، جب کہ میلان اور زلزلہ کوہ بھی اپنی وسعت کے لحاظ سے نمایاں ہیں۔ کراچی کی سمندری حدود میں بھی کئی جزیرے ہیں، جن میں بابا آئی لینڈ، بابا بھٹ، پیر شمس، منوڑہ، ہاکس بے، چرنا آئی لینڈ اور کیرا والا شامل ہیں۔

بابا بھٹ نامی جزیرہ ایک اور دلچسپ کہانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ماضی میں یہ جزیرہ صرف ایک بڑی چٹان جیسا تھا، جس کی وجہ سے اسے ’بھٹ‘ کہا گیا۔ ’بھٹ‘ کا لفظ سندھی اور کچھی زبانوں میں چٹان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

سمندر کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے یہ جزیرہ وقت کے ساتھ بڑا ہوتا گیا۔ آج یہ ایک وسیع جزیرہ بن چکا ہے، جہاں نہ صرف بزرگانِ دین کی قبریں ہیں، بلکہ مقامی مچھیرے بھی یہاں کچے اور پکے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ 

اس جزیرے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں صدیوں پرانے آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں، جن میں لکڑی کے تختوں سے بنا ایک قدیم ہوٹل بھی شامل ہے۔ یہ ہوٹل آج بھی اسی انداز میں موجود ہے، جو اس جزیرے کی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔ اور ہر جزیرہ کچھ یوں ہی ایک طویل تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

محکمۂ موسمیات نے سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو 31 اگست اور یکم ستمبر تک گہرے سمندر میں جانے سے منع کیا ہے (فوٹو اے ایف پی)واضح رہے کہ محکمۂ موسمیات نے حال ہی میں ٹروپیکل سائیکلون کا دوسرا الرٹ جاری کیا ہے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق ڈیپ ڈپریشن جو کہ رن آف کچھ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں موجود ہے، آہستہ آہستہ مغرب اور جنوب مغرب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ سسٹم گذشتہ 12 گھنٹوں کے دوران بہت سست رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور اب کراچی کے مشرق اور جنوب مشرق سے 250 کلومیٹر دور ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق یہ سسٹم مزید مغرب اور جنوب مغرب کی جانب حرکت کرتا رہے گا اور کل صبح تک شمال مشرقی بحیرہ عرب میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس سسٹم کے باعث سمندر میں شدید طغیانی رہنے کی توقع ہے اور ہوائیں 50 سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں۔

محکمۂ موسمیات نے سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو 31 اگست اور یکم ستمبر تک گہرے سمندر میں جانے سے منع کیا ہے۔

بابا بھٹ جزیرے کے سماجی رہنما حسن علی بھٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جزیرہ بابا بھٹ اور شمس پیر سمیت دیگر قریبی جزیرے طوفانی حالات سے بچنے کے لیے تیار ہیں۔ انتظامیہ اور مختلف اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کراچی کے قریب ان جزیروں کے تحفظ کے لیے ایک بڑی دیوار کی طرح مینگروف کے جنگلات قائم ہیں جو سمندری لہروں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کے الرٹ کے بعد، کھلے سمندر میں موجود ماہی گیروں کو واپس بلا لیا گیا ہے، اور شکار پر جانے والی لانچوں کو بھی جیٹیوں پر روک دیا گیا ہے۔‘

حسن علی  نے بتایا کہ ’علاقے میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بھی انتظامات کیے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’تیز ہوا اور بارش کے باعث جزیروں کے سمندر سے ملنے والے کناروں پر پانی کا بہائو زیادہ ہے، کنارے پر کھڑی لانچوں کو باندھ کر محفوظ کرلیا گیا ہے، اس کے علاوہ جزیروں میں رہنے والوں کو پانی میں جانے سے بھی روکا جارہا ہے۔‘

حسن علی بھٹی نے کہا کہ ’روز شکار کرکے روزی کمانے والوں کے لیے مشکلات تو ہیں لیکن سمندری طوفان کا رسک نہیں لیا جاسکتا، کئی بار ماہر تیراک بھی ایک ذرا سی غلطی سے اپنی جان کھو گنوا دیتا ہے، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’علاقے میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بھی انتظامات کیے ہیں، کچے مکانوں میں رہنے والوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More