اسلام اباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی اور رہنماؤں کو آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈر پر پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔انسداد دہشت گردی عدالت نے پراسکیوشن کی استدعا منظور کرتے ہوئے شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ و دیگر کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم منگل کو شام کو سامنے آیا۔ اس سے قبل دن میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد کو فوری طور پر گرفتار ارکان اسمبلی کی رہائی کا حکم دیا تھا۔سپیکر قومی اسمبلی کے طلب کرنے پر آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی ان کے چیمبر پہنچے تھے۔ ایاز صادق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس واقعے پر بہت رنجیدہ ہوں نہ آپ پارلیمنٹ ہاؤس سے کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں نہ پارلیمنٹ لاجز سے۔‘
انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممبران کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رہا ہوں۔ جو ممبران رہا ہو سکتے ہیں قانون کے مطابق ان کو فوراً رہا کیا جائے۔‘
ایاز صادق نے ارکان اسمبلی کی گرفتاری کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ بھی طلب کر لی تھی۔
منگل کے روز اسلام آباد سے گرفتار کیے گئے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔امکان یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ان رہنماؤں کو دوپہر کے وقت ضلع کچہری میں پیش کیا جائے گا لیکن ان کے خلاف درج مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کیے جانے کے باعث ان رہنماؤں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
رہنماؤں کی پیشی میں تاخیر کی ایک وجہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے نکتہ اعتراض اٹھائے جانے کے بعد سپیکر کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں آئی جی اسلام آباد اباد کی طلبی اور قانون کی روشنی میں گرفتار ارکان اسمبلی کی رہائی کے احکامات بھی تھے۔
اطلاعات کے مطابق اسلام آباد پولیس کی لیگل برانچ نے سپیکر کے احکامات اور ان رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو ڈسچارج کر دیا جبکہ دیگر کو عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔سب سے پہلے تحریک انصاف کے رہنما اور ترجمان شعیب شاہین کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جس کے اڑھائی گھنٹے بعد تقریبا ساڑھے چار بجے دیگر رہنماؤں بشمول شیر افضل مروت، زین قریشی، شیخ وقاص اکرم، احمد چٹھہ مولانا نسیم کو جوڈیشل کمپلیکس لایا گیا اور عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔شعیب شاہین کو ایک چھوٹی گاڑی میں جوڈیشل کمپلیکس پہنچایا گیا جب کہ دیگر رہنماؤں کو ایک ساتھ ہائی ایس میں جوڈیشل کمپلیکس کے دروازے سے داخل کیا گیا۔پیشی کے موقع پر سیاسی رہنماؤں نے نعرے بازی کی اور اسلام آباد انتظامیہ بالخصوص آئی جی اسلام آباد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔جج ابو الحسنات نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو پراسکیوٹر راجہ نوید کی جانب سے عدالت میں سنگجانی تھانے میں درج مقدمے کا متن پڑھ کر سنایا گیا جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جلسے کا مقررہ وقت ختم ہونے کے باوجود منتظمین نے جلسہ جاری رکھا اور سٹیج سے ریاست مخالف تقاریر کیں۔مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے پولیس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔پیشی کے موقع پر سیاسی رہنماؤں نے نعرے بازی کی اور اسلام اباد انتظامیہ بالخصوص آئی جی اسلام اباد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ (فوٹو: سکرین گریب)پراسیکیوٹر نے مزید دعویٰ کیا کہ علی امین گنڈاپور نے ڈی ایس پی کے سر پر پستول رکھی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ گولی مار دوں گا جبکہ خالد خورشید پر پولیس پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔پراسکیوٹر کے دلائل ختم ہونے کے ساتھ ہی شیر افضل مروت بول پڑے اور کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور پولیس نے بغیر کسی ثبوت کے کارروائی کی ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کے پاس کوئی گواہ موجود ہے جو ان الزامات کی تصدیق کر سکے؟ اگر پولیس ایک گواہ بھی پیش کرے تو وہ اپنے الزامات تسلیم کر لیں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ جلسے کے دوران پولیس جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھی، اور ان کے خلاف بنائے گئے الزامات میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں بھی ثابت نہیں ہوتے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ ان کے خاندان نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔عدالت میں سماعت کے دوران پراسکیوشن نے پانچ ایم این ایز کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی۔ جبکہ وکیل صفائی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس پر مقدمہ درج کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔انسداد دہشت گردی کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ دیگر رہنماؤں کے حوالے سے جج نے مزید احکامات جاری کرنے کا عندیہ دیا۔تاہم عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے پہلے ہی پولیس گرفتار رہنماؤں کو لے کر روانہ ہو گئی جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر رہائی کے بعد جوڈیشل کمپلیکس پہنچے جہاں وکلا نے ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو جسمانی ریمانڈ پر دینے کی پراسکیوشن کی درخواست منظور کی۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر، شعیب شاہین کو انسدادِ دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا۔صحافیوں کی جانب سے سوالات کے دوران شعیب شاہین نے بتایا کہ انہیں پہلے تھانہ رمنا میں رکھا گیا اور بعد ازاں سی آئی اے کی حراست میں منتقل کیا گیا۔ ’مجھے راتوں رات سی آئی اے لے جایا گیا کیونکہ میں زیادہ بڑا دہشت گرد ہوں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان سے تفتیش کے دوران موبائل کا پاسورڈ مانگا گیا، لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں کوئی ڈیجیٹل دہشت گرد نہیں ہوں۔سماعت کے آغاز پر پراسکیوٹر راجا نوید نے شعیب شاہین پر لگے الزامات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں اور وہ اپنے جرم کو بار بار دہرا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو پولیس نے مقدمے سے ڈسچارج کرکے رہا کر دیا تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)پراسکیوٹر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جلسے کی جگہ سے بارودی مواد برآمد ہوا ہے اور جلسہ میں اشتعال پھیلایا گیا تھا، جس کی قیادت تحریک انصاف کی جانب سے کی گئی تھی۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ شعیب شاہین کا 90 روزہ ریمانڈ مانگا جا سکتا ہے تاہم 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر رہے ہیں۔شعیب شاہین کے وکیل ریاست علی آزاد نے پراسکیوشن کے الزامات کو سختی سے مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو شعیب شاہین کو چور بنا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔شعیب شاہین اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر رہے ہیں، ایک معتبر وکیل ہیں اور انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ریاست علی آزاد نے طنزیہ انداز میں کہا یہ کس چیز کی تفتیش کر رہے ہیں؟ کیا شعیب شاہین سے ایٹم بم برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ یہاں ہر شخص کو بلا وجہ مقدمات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔عدالت میں وکیل صفائی کی جانب سے یہ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ شعیب شاہین کو ان کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا، جبکہ وکیل کے چیمبر کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس دوران شعیب شاہین کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج جج کو دکھائی گئی۔جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سماعت کے دوران کہا کہ امن و امان قائم رکھنا انتظامیہ اور کارکنان دونوں کی ذمہ داری ہے اور شعیب شاہین کو ایک معزز اور قابل احترام شخصیت قرار دیا۔ جج نے شعیب شاہین کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور اس بات پر زور دیا کہ امن و امان کے قیام کے لیے تمام فریقین کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔تحریک انصاف کے رہنماؤں کی عدالت میں پیشی کے موقع پر کچھ کارکنان عدالت کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کی جنہیں پولیس نے موقع سے گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیا۔