دلیپ کمار اور مدھوبالا کی بہترین اداکاری والی فلم ’امر‘ کامیاب کیوں نہ ہو سکی؟

اردو نیوز  |  Sep 19, 2024

اگر کسی سے پوچھا جائے کہ بالی وڈ کے کلاسیکی اداکار دلیپ کمار کی سب سے اچھی فلم کون سی ہے تو شاید ان کا جواب ’مغل اعظم‘ ہو یا ’دیوداس‘ یا پھر وہ ’رام اور شیام‘ کا نام لیں۔

کوئی ’مدھومتی‘ کہہ سکتا ہے تو کوئی ’شکتی‘ لیکن شاید ہی کوئی ہو جو کہ دلیپ کمار کی فلم ’امر‘ کا نام لے۔ لیکن اگر آپ اپنے زمانے کے زبردست اور بے مثال اداکار نصیر الدین شاہ سے پوچھیں تو وہ فلم ’امر‘ کا نام لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ دلیپ کمار کے مداح نہیں ہیں تاہم ان کے مطابق دلیپ کمار کی ’امر‘ میں اداکاری ان کی پسندیدہ ہے۔

یہ فلم آج سے پورے 70 سال قبل ستمبر کے مہینے ریلیز ہوئی تھی اور تمام تر اچھے ریویز کے بعد بھی وہ بہت اچھا بزنس نہ کرسکی جس کی وجہ اس فلم کی ’متنازعہ‘ کہانی بتائی جاتی ہے۔

اگر اس فلم کے ریویوز پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اس زمانے میں انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سینما کی تعریف پر پوری اترتی تھی جس میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ کچھ سبق بھی ہو۔

فلم میں ریپ

یہ شاید انڈیا کی پہلی فلم ہے جس میں ریپ کا سین ہے لیکن اسے اس خوبصورتی کے ساتھ فلمایا گیا ہے کہ اس میں کوئی برہنگی نہیں۔ اور اس کا سارا کریڈٹ فلم ساز اور ہدایتکار محبوب خان کو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے کیمرہ مین فریدون ایرانی نے بلیک اینڈ وائٹ میں اپنا بہترین ہنر پیش کیا ہے۔

دی ہندو اخبار کے فلم کریٹک دیپک مہان نے فلم میں مضبوط خواتین کے مرکزی کرداروں کی خصوصیت اور بغیر کسی عریانی کے عصمت دری کے مناظر کی فوٹو گرافی کی تعریف کی۔

دیپک مہان نے لکھا کہ ’بلیک اینڈ وائٹ کینوس نے کہانی کو ایک پرسکون وقار عطا کیا ہے جو سچائی اور نفسانی خواہش، اخلاقی پستی اور انصاف کے درمیان اخلاقی کشمکش کے لیے موزوں ہے۔‘

اس فلم کے ناکام ہونے کے بارے میں فلم کریٹک کو آج بھی حیرت ہے کیونکہ اس فلم میں وہ سب کچھ ہے جو ایک فلم کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ فلم کا پہلا نصف بہت ہی زندہ و جاوید اور دلچسپ ہے جس میں دلیپ کمار (امرناتھ وکیل) اور جج کی بیٹی انجو دیوی (مدھوبالا) کی کیمسٹری قابل ذکر ہے۔ وہ ایک دوسرے پر فدا نظر آتے ہیں۔

امر کا منفی کردار

کہانی کے علاوہ لوگوں کو امر میں دلیپ کمار کا منفی کردار بھی پسند نہیں آیا۔ ابھی دلیپ کمار کو فلم انڈسٹری میں آئے ہوئے کوئی ایک دہائی ہوئی تھی کہ انھوں ’امر‘ جیسا منفی کردار کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔

دی ہندو اخبار میں شائع ایک مضمون کے مطابق محبوب خان نے اس فلم میں مضبوط عورتوں کی کردار کشی کی تھی (فوٹو: آئ ایم بی ڈی)لیکن دلیپ کمار نے اس کا ذکر اپنی سوانح حیات ’دلیپ کمار: دی سبسٹینس اینڈ شیڈو‘ میں اپنی فلم ’گنگا جمنا‘ کے حوالے سے کیا ہے۔

’میں نے پہلے بھی ’اینٹی ہیرو‘ کے کردار کیے تھے۔ مثال کے طور پر محبوب خان کی امر (1954) میں جو کردار ادا کیا تھا، اس میں نے ایسا کام کیا جو لوگوں کے غصے کا موجوب تھا۔ اسی طرح ضیا سرحدی کی فلم فٹ پاتھ (1953) میں جو کردار میں نے ادا کیا وہ ایک بلیک مارکیٹیئر کا تھا اور اس لیے وہ بھی ایک داغدار ہیرو تھا۔ لیکن وہ فلمیں گنگا جمنا کی طرح کامیاب نہیں ہوئیں کیونکہ گنگا جمنا کے معاملے میں اگرچہ ہیرو قانون کے خلاف تھا لیکن اسے سامعین کی ہمدردی حاصل تھی کیونکہ اس کے خلاف ناانصافی ہوئی تھی۔ لیکن امر یا فٹ پاتھ میں ایسا نہیں تھا اور اس میں ہیرو اپنے ضمیر کی جنگ خود ہی لڑ رہا ہوتا ہے۔‘

دی ہندو اخبار میں شائع ایک مضمون کے مطابق محبوب خان نے اس فلم میں مضبوط عورتوں کی کردار کشی کی تھی جس میں ایک جانب اگر اس زمانے کی کامیاب ترین اداکارہ مدھوبالا پڑھی لکھی خاتون کا کردار ادا کر رہی تھیں تو دوسری جانب نمی تھیں جو ایک گوالن اور گنوار خاتون کا کردار ادا کر رہی تھیں۔

مضمون کے مطابق ’عورت‘ سے لے کر ’سن آف انڈیا‘ اور ’مدر انڈیا‘ تک ان کی زیادہ تر فلمی کہانیوں کی طرح ’امر‘ بھی خاتون کے مرکزی کردار پر مبنی تھی۔

’ایک ایسے وقت میں جب بہت سے لوگ خواتین کے لب و لہجے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے محبوب کی عورتیں بے باک تھیں تاہم قابل ستائش بھی تھیں۔‘

اس زمانے کی کامیاب ترین اداکارہ مدھوبالا پڑھی لکھی خاتون کا کردار ادا کر رہی تھیں (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)محبوب خان کی عورتیں انڈین خواتین تھیں جو مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ اور بے مثال ہمت کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔ یہ خواتین نعرے نہیں لگاتی تھیں اور نہ ہی وہ قانونی گڑبڑ کو سمجھتی تھیں، لیکن ان میں اخلاقی جرأت تھی کہ وہ جس چیز کو بھی غیر منصفانہ اور ناقابل قبول سمجھیں اس کا مقابلہ کرتیں۔ اگر راج کپور زنانہ روپ کے مداح تھے تو محبوب عورت کی روح کے بے حد عقیدت مند تھے!

فلم میں ایک ہنستا ہنساتا وکیل امرناتھ جو لوگوں کو انصاف دلاتا ہے وہ اچانک ایک رات رونما ہونے والے ایک واقعے سے اپنے ہی ضمیر کے مقدمے میں پھنس جاتا ہے۔ دلیپ کمار نے اس اندرونی کشمکش کو جس بہترین انداز میں پیش کیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے۔

ہیرو سے لوگ جرم کی امید نہیں کرتے ہیں لیکن اس میں ہیرو سے ایک ایسے جرم کا ارتکاب ہوتا ہے جو کسی صورت مہذب سماج میں قابل قبول نہیں۔

اگرچہ فلم میں بے مثال اور یادگار گیت ہیں اور اداکاروں نے اپنے اپنے کردار بخوبی ادا کیے ہیں لیکن یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی اور اس نے 70 لاکھ کا بزنس کیا جو کہ اس وقت کے حساب سے بہت کم بھی نہیں۔

اگر نصیر الدین شاہ نے اس فلم کو دلیپ کمار کی اپنی پسندیدہ فلم کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دلیپ کمار ایک انسان کے اندر کی اچھائی اور برائی کی جنگ کی کشمکش کو پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ایک ہی ہفتے میں یہ اندازہ ہو گیا کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا کے مداحوں کے علاوہ عوام نے اسے پسند نہیں کیا (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)آج سے 70 سال قبل اس طرح کی فلم بنانا اپنے آپ میں کسی انقلابی منصوبے سے کم نہیں تھا۔ جس ذہنی اور روحانی کشمکش میں امرناتھ وکیل ہوتے ہیں اس کا اندازہ فلم کے گیت ’انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اس فلم کو ہدایت کار محبوب خان نے بہت سنبھالنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کہ اس وقت تک لوگ دلیپ کمار اور مدھوبالا کو علیحدہ دیکھنے کو تیار نہ تھے اور یہ حقیقی زندگی میں ان کی محبتوں کے عروج کا زمانہ تھا۔

یہ فلم دس ستمبر کو ریلیز ہوئی تھی اور ایک ہی ہفتے میں یہ اندازہ ہو گیا کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا کے مداحوں کے علاوہ عوام نے اسے پسند نہیں کیا کیونکہ اس کا موضوع ہی کچھ ایسا تھا۔ تاہم فلم انڈیا کے مدیر بابو راؤ پٹیل نے اسے ’ایک شاندار فلم‘ قرار دیا اس کی کہانی کے ساتھ بہتریں ہدایت اور بے عیب اور باکمال اداکاری کو سراہا تھا۔ انھوں نے اسے فلم میکنگ کے شاہکار سے تعبیر کیاتھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More