ناسا کے سسٹم میں خامی کی تلاش، پاکستانی سائبر سکیورٹی ماہر کی خدمات کا اعتراف

اردو نیوز  |  Sep 24, 2024

امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنے سسٹم میں خامی میں سکیورٹی خامی تلاش کرنے پر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی سائبر سکیورٹی ماہر محمد ابو بکر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اعزاز سے نوازا ہے۔

ناسا نے ایک خط کے ذریعے 23 سالہ وائٹ ہیٹ ہیکر کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

ابو بکر نے بتایا کہ انہوں نے یہ کارنامہ بگ کراؤڈ نامی پلیٹ فارم پر سرانجام دیا جہاں مختلف کمپنیوں اپنے سسٹمز اور سافٹ ویئرز میں سائبر سکیورٹی سے متعلق خطرات کا پتہ لگا کر ان کی اطلاع دیتے ہیں ان کے بدلے انہیں انعامی رقم یا پھر معروف اداروں کی جانب سے اعترافی خط ملتے ہیں۔

ابوبکر نے بتایا کہ ناسا نے بک گراؤڈ پر اپنے سسٹم کو ٹیسٹ کرنے کے لیے پیش کیا تھا جس میں دنیا بھر سے اب تک چالیس کے قریب افراد مختلف خامیوں کی نشاندہی کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی کئی مہینوں کی کوششوں کے نتیجے میں گوگل ڈورکنگ اور مختلف ٹولز کے ذریعے ناسا کے سسٹم میں ایسی خامیوں کی تلاشی کی جس کی مدد سے بلیک ہیٹ ہیکرز کو گیٹ وے مل سکتا تھا اور وہ غیر مجاز معلومات تک رسائی حاصل کرکے ناسا کو کوئی نقصان پہنچاسکتے تھے۔

محمد ابو بکر نے بتایاکہ ناسا نے اپنی اس خامی کو تسلیم کیا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تعریفی خط بھی دیا جس میں انہوں نے کہا کہ آپ کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ نے نامعلوم خطرات کے بارے میں آگاہی دی اور ناسا کی معلومات کو محفوظ بنانے میں ہماری مدد دی۔

بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ ابو بکر ایک آزاد سکیورٹی ریسرچر ہیں جو وائٹ ہیٹ ہیکنگ کے بھی ماہر ہیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی ہے اور کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔

محمد ابوبکر کا تھا کہ انہیں سکول کے دور سے ہی آئی ٹی میں دلچسپی تھی اس لیے اس شعبے میں مہارت حاصل کر کے فری لانسنگ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے وائٹ ہیٹ ہیکنگ کرتے ہیں جو اخلاقی ہیکنگ کہلاتی ہے۔ وائٹ ہیٹ ہیکرز ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں جو اخلاقی دائر ے کے اندر رہتے ہوئے اپنی مہارت کے ذریعے سائبر سکیورٹی کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہیٹ ہیکنگ کے ذریعے پاکستان کے آئی ٹی کے ماہرین دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More