ہمیں اپنے چہرے پر موجود مہاسے پھوڑتے ہوئے کراہت کیوں نہیں آتی

بی بی سی اردو  |  Sep 24, 2024

Getty Imagesمہاسے نوچنے کے ہمارے اس شوق کے پیچھے ارتقا کا کردار ہو سکتا ہے

بہت سے لوگ ایسا کام کرنے سے نہیں ہچکچاتے جو انھیں خود بھی ناگوار گزرتا ہے جیسا کہ چہرے پر نکلنے والے مہاسے پھوڑنا اور عجیب و غریب ویڈیوز دیکھنے میں گھنٹوں گزار دینا۔۔۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

لندن سکول آف ہائیجین سے منسلک ڈاکٹر ویل کرٹس وضاحت کرتی ہیں کہ اکثر لوگوں کو ناگوار گزرنے والی چیزیں پسند آنے کے پیچھے ارتقائی عوامل کار فرما ہیں۔

لیکن اگر آپ کو اس نوعیت کی تفصیلات زیادہ ناگوار گزرتی ہیں تو ہوشیار ہو جائیں کیونکہ اس رپورٹ میں آگے چل کر ہم ممکنہ طور پر ناگوار موضوعات پر بات کرنے جا رہے ہیں!

کراہت محسوس کرنے کی نوعیت

کسی بدصورت چیز کو دیکھ کر ہمیں کراہت کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

ڈاکٹر کرٹس کا کہنا ہے کہ ’کراہت محسوس کرنا ہمارے جینز کا حصہ ہے۔ اگر ہمارے آباؤ اجداد میں کراہت آنے کا احساس یا حِس نہ ہوتی تو وہ ایسی چیزیں کھا لیتے یا چُھو لیتے جو انھیں نہیں کھانی یا چھونی چاہییں تھیں۔‘

’یہ ایک جینیاتی عمل ہے۔ ہم سب میں ایک قدرتی قوت موجود ہے جس کی وجہ سے ہم خراب یا خوفناک چیزوں سے دور جاتے ہیں جبکہ ہمارے لیے جو اچھا ہے جیسا کہ کھانا، ہمیں ایسی چیزوں کی چاہت ہوتی ہے۔‘

’چیزوں کے ناگوار گزرنے کی وجہ سے ہمارے آباؤ اجداد سڑے ہوئے کھانوں میں موجود نقصان پہنچانے والے جراثیموں سمیت زہریلے پانی، کچرے اور مرے ہوئے جانور کھانے سے محفوظ رہے۔‘

ڈاکٹر کرٹس کے مطابق جن لوگوں میں ناگوار محسوس کرنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے ان کی صحت بھی قدرے بہتر ہوتی ہے اور وہ دلکش بھی لگتے ہیں۔ اپنی اولاد میں یہ ’ڈسگسٹ جینز‘ یعنی ناگوار محسوس کرنے کے جینز بھی منتقل کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر کرٹس کہتی ہیں کہ ’جو لوگ صحت کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتے تھے ان کے بچے بھی صفائی کا خیال رکھتے تھے۔‘

طبعیت پر کچھ گِراں گزرنے کی کیا علامات ہوتی ہیں؟Getty Images

ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہمیں ناگوار گزرتی ہیں لیکن ہم یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ کوئی چیز ہمیں محض ناپسند ہے یا واقعی ہماری طبیعت پر گراں گزرتی ہیں؟

ڈاکٹر کرٹس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں وہ چیزیں ناگوار لگتی ہیں جن سے ہم بیمار ہو سکتے ہیں۔‘

مثال کے طور پر ہو سکتا ہے آپ کو پنیر کا ذائقہ پسند نہیں ہو لیکن اسے کھا کر آپ کی طبعیت خراب نہیں ہو گی۔ لیکن اگر آپ اسی پنیر پر لال بیگ بیٹھا ہوا دیکھ لیں تو آپ کا دل خراب ہو جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے وہ لال بیگ ٹوائلٹ سے آیا ہو اور اس کے ساتھ بہت سے امراض پھیلانے والے جراثیم ہوں۔‘

ناگوار گزرنے والی چیزوں سے نفسیاتی ردعمل سامنے آتے ہیں۔

توجہ: جب آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے تو آپ اپنا کام روک دیتے ہیں اور اس چیز کو کچھ فاصلے پر رہ کر غور سے دیکھتے ہیں۔

کانپنا یا پسینہ چھوٹنا: بعض اوقات ایسا منظر دیکھ کر ہتھیلیاں گیلی ہو جاتی ہیں۔ آپ اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھا لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس چیز سے دور ہو جائیں۔ اس چیز کو چھوئیں نہیں یا اسے بغیر چھوئے پھینک دیں۔

عجیب سا منھ بنانا: آپ اپنا منھ زور سے بند کر لیتے ہیں یا اپنی زبان باہر نکال لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ اپنی زبان سے کسی چیز کو پیچھے دھکیل رہے ہوں۔

اُبکائی آنا: اگر یہ چیز خاص طور پر کوئی کھانے کی چیز ہو تو آپ کا معدہ آپ کو وہ چیز کھانے سے روکتا ہے۔ ابکائی بھی اسی لیے آتی ہے کیونکہ آپ کا ذہن آپ کو اس کھانے کی چیز کی قے کرنے کے لیے تیار کر رہا ہوتا ہے۔

اب آپ کو کوئی چیز ناگوار گزرے تو اس کی علامات پتہ چل گئی ہیں۔ دیکھتے ہیں آپ باقی کا مضمون پڑھنا آپ کو ناگوار گزرتا ہے یا آپ برداشت کر جاتے ہیں۔

’والدہ نے کہا تم بہت بدصورت نظر آ رہی ہو، تمھاری شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا‘دُھوپ چہرے پرجھریوں، چھائیوں اور فائن لائنز کی وجہ: جِلد کو بوڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ’رنگ گورا کرنے والی کریم کے باعث والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے‘گوری رنگت کا جنون: ’مائیں آ کر کہتی ہیں کہ بیٹی کا رشتہ آ رہا ہے، بس جلدی سے اس کا رنگ گورا کر دیں‘ہم ناگوار گزرنے والی چیزوں کی جانب کیوں راغب ہوتے ہیں؟

وہ کیا وجوہات ہیں جن سے ہماری توجہ ناگوار گزرنے والی چیزوں کی جانب مبذول ہو جاتی ہے؟ ڈاکٹر کرٹس نے بتایا ’جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو یہ سیکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کس چیز سے ہمیں ڈر لگنا چاہیے اور کیا چیز ہمیں ناگوار گزرنی چاہیے۔‘

’ہم سب کچھ نیا سیکھنے کے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اسے ’سیکھنے کا کھیل‘ بھی کہتے ہیں۔‘

اسی طرح کا ایک اور نظریہ ہے جس کے مطابق ہمیں بُرے خواب، خاص طور پر جن میں ہم کسی چیز سے ڈر کر بھاگ رہے ہوتے ہیں، اس لیے آتے ہیں کیونکہ ہمارا ذہن اصل زندگی میں ایسی صورتحال کے لیے ہمیں تیار کر رہا ہوتا ہے۔

ممکن ہے کہ ہمارے اندر یہی رد عمل سامنے آتا ہو جب ہم کسی ناخوشگوار چیز کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر کرٹس نے کہا ’ایک طرح سے یہ ڈر والی کیفیت ہوتی ہے۔ مثلاً ہمیں رولر کوسٹرز پسند ہوتی ہیں کیونکہ یہ خوفناک ہوتی ہیں اور بے سکونی پیدا کرتی ہیں لیکن ان کی مدد سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خوفزدہ ہونے والی کیفیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم سب میں کچھ سیکھنے کی چاہت ہوتی ہے اور ہم سب کسی نئی چیز کو موقع دینا چاہتے ہیں بشرطیکہ کہ ہم اسے ایک محفوظ طریقے سے سیکھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس لیے آپ ایک پس یا پیپ سے بھرا مہاسہ نوچ لیتے ہیں یا کچرے دان کا ڈھکن اٹھا کر بدبو سونگھ لیتے ہیں جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ بُو کتنی بری ہو گی۔‘

انھوں نے بتایا ’آپ کا دماغ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا ہو گا بشرطیہ کہاس میں خطرہ نہ ہو۔ یہ تجربہ آپ کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ مستقبل میں جب اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہو تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا رد عمل کیا ہونا چاہیے۔‘

’آپ اپنے ذہن کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے اپنے پاخانے میں انگلی ڈال کر اسے چاٹ لیتے ہیں لیکن یہ غلطی وہ ایک بار کرنے کے بعد دہراتے نہیں ہیں!‘

Getty Images

ہم سب کو معلوم ہے کہ ’رونگٹے کھڑے ہو جانا‘ کسے کہتے ہیں، لیکن بات اگر کسی چیز کے گراں گزرنے کی ہو تو یہ محض الفاظ نہیں ہیں۔

ڈاکٹر کرٹس نے کہا ’سوچیں اگر آپ کے پورے سر میں جوئیں پڑ جائیں۔ آپ بہت زیادہ سر کھجانے لگیں گے۔ یہ ایک اور طریقے کا کسی چیز کے ناگوار گزرنے کا ردعمل ہوتا ہے۔ آپ اپنے سر میں اپنے ناخن گھساتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جوؤں کو پکڑ کے نکال لیں۔‘

یہ ردعمل بھی ارتقائی طریقوں کی باقیات میں سے ایک ہو سکتا ہے جس میں ہم خود کو پسوؤں کے کاٹنے سے بچانا چاہتے ہوں مثلاً جوئیں، کھٹمل اور دیگر خون چوسنے والے کیڑے۔

’مہاسوں کو نوچنے کی ایک وجہ ارتقائی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی میں اس طرح کے کئی کیڑے مکوڑے تھے جو ہماری جلد کے اندر گھس جاتے تھے۔ اس لیے جب آپ کے چہرے پر مہاسے نکلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پسّو ہو گا۔ تو قدرتی طور پر آپ کا یہی رد عمل ہوتا ہے کہ آپ مہاسے کو نوچیں اور اس میں جو بھی ہے اسے نچوڑ کر باہر نکال لیں۔‘

یہ سب پڑھ کے آپ کو کھجلی محسوس ہوئی؟ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ جب ہم کوئی ناگوار چیز دیکھیں یا سُنیں تو ہمیں اسے کھجانے یا نوچنے کا دل کرے۔ تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ جب آپ مہاسے نوچتے ہیں تو آپ کے دماغ میں ڈوپامیں (خوشی کا ہارمون) نکلتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہاسے کی وجہ سے اس کے ارد گرد کی جلد پر جو دباؤ محسوس ہوتا ہے وہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر کرٹس نے بتایا کہ ’یہ صرف ایک کھیل نہیں ہے۔ ایسا کرنے میں ہمیں مزا اس لیے آتا ہے کیونکہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس پسو کو نکال کر پھینک رہے ہیں جوہمیں اندر سے کھانے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

’ایگرا فوبیا اور کئی بار ایک ہی کام کرنے کا مرض‘

ارتقائی طور پر ہمارے دماغ کو لگتا ہے کہ اگر ہم مہاسے کو نوچیں گے تو ہمیں اچھا محسوس ہو گا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے دماغ سے ملنے والے اس پیغام کی پیروی کریں۔

جلد کے ماہر ڈاکٹر بھی آپ کو یہی مشورہ دیں گے کہ آپ اپنے مہاسوں کی جان چھوڑ دیں۔

مہاسوں کو نوچنا مسئلہ بن سکتا ہے اگر اس کا جنون چڑھ جائے یا اس کی وجہ سے جنونی حد تک کوئی شخص اپنے چہرے کی صفائی کرنے لگے۔

اس کی ایک مثال حد سے زیادہ پریشانی میں اپنے بال نوچنا یا پھر انھیں بار بار دھونا ہے۔

اگر مہاسوں کو بہت زیادہ نوچا جائے تو جلد پر گہرے زخم پڑ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کرٹس کے مطابق ناگوار چیزوں کی طرف لوگوں کا ردعمل ایک گھنٹی کی مانند ہے۔ ’کچھ لوگوں کا سخت ردعمل آتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم زیادہ تر لوگوں کو کسی نہ کسی درجے کی کراہت ضرور محسوس ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ بیچ میں ہیں۔‘

جن لوگوں کو چیزیں شدید ناگوار گزرتی ہیں انھیں روز مرّہ کی زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو صفائی کی اتنی زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ انھیں نہ کسی اور کا ان کو چھونا پسند ہوتا ہے نہ وہ خود کسی کے قریب جا پاتے ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ بیمار نہ پڑ جائیں۔

اس طرح کے شدید ذہنی عارضے کا شکار ہونے والے لوگوں کو 'ایگرا فوبیا' ہوتا ہے جس میں انسان کو کھلی جگہوں سے خوف آتا ہے۔

تاہم اس کا الٹ بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

اگر لوگوں میں کسی چیز کی جانب ناگوار گزرنے کا رد عمل بہت کم ہو تو انھیں گندگی میں رہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ جو لوگ ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ بھی ان سے دور بھاگتے ہیں۔

دُھوپ چہرے پرجھریوں، چھائیوں اور فائن لائنز کی وجہ: جِلد کو بوڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ’والدہ نے کہا تم بہت بدصورت نظر آ رہی ہو، تمھاری شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا‘’رنگ گورا کرنے والی کریم کے باعث والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے‘گوری رنگت کا جنون: ’مائیں آ کر کہتی ہیں کہ بیٹی کا رشتہ آ رہا ہے، بس جلدی سے اس کا رنگ گورا کر دیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More