پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں نو تشکیل شدہ سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہو رہا ہے۔ اجلاس کے ایجنڈے میں جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹریٹ کا قیام، آئینی بینچز کے لیے ججز کی نامزدگی اور کسی بھی اضافی معاملے پر بحث کرنا شامل ہیں۔
اجلاس کے حوالے سے جاری ایجنڈے کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس میں سینیئر ججز، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور بار کونسل کے نمائندے اور پارلیمنٹ کے پانچ اراکین شریک ہوں گے۔
ایجنڈا کے مطابق کمیشن کے ارکان میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، سینیئر وکیل اختر حسین، سینیٹر فاروق نائیک، سینیٹر شبلی فراز، قومی اسمبلی کے رکن شیخ آفتاب احمد، عمر ایوب خان، اور خواتین نشست پر روشنی خورشید بروچہ شامل ہیں۔
اجلاس میں آئینی بینچز کے لیے ججز کی نامزدگی کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔ آئینی بینچز کے سربراہ کمیشن کے تیرھویں ممبر ہوں گے۔
قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سنیچر کو قومی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب جبکہ سینیٹ سے سینیٹر فاروق نائیک اور سینیٹر شبلی فراز کو جبکہ خواتین نشست پر روشنی خورشید بروچہ کو جوڈیشل کمیشن میں نامزد کیا۔
19 ویں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن دراصل سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، یا فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کی ہر اسامی کے لیے اپنی نامزدگیوں کو 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتا تھا جو یہ نام وزیراعظم کو اور پھر وہ صدر کو ارسال کرتے تھے تاہم 26ویں ترمیم کے بعد کمیشن اب اپنی نامزدگیوں کو براہ راست وزیراعظم کو بھیجے گا جو انہیں تقرر کے لیے صدر کو بھیجیں گے۔
وزارت قانون کے مطابق آرٹیکل 175 اے شق 2 اور شق 3D کے تحت جوڈیشل کمیشن کا کوئی فیصلہ کسی رکن کی عدم موجودگی یا کسی اسامی کے خالی ہونے کی صورت میں بھی باطل نہیں ہوگا۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کا یہ پہلا اجلاس ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
خیال رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا۔
دو سینیئر ججز کا چیف جسٹس کو خطسپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کو خط لکھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے فیصلے پر عمل نہ ہونے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی کے دو ارکان نے آپ سے اجلاس طلب کرنے کے لیے کہا جس پر عمل نہ ہوا تو کمیٹی کے دونوں ارکان نے 31 اکتوبر کو یہ فیصلہ کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو فُل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔‘سینیئر ججز کے خط کے مطابق ’پریکسٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اس فیصلے پر عمل نہ کیا گیا جس میں 4 نومبر کو درخواستیں فُل کورٹ کے سامنے لگانے کا انتظامی حکم دیا گیا تھا۔ یہ نہایت مایوس کن ہے۔‘