کینیڈا میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کی ہلاکت کے تین سال بعد دو افراد کے خلاف انسانی سمگلنگ کا مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ خاندان غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں سے بھرا ایک بیگ تھا جس نے سب سے پہلے امریکی بارڈر پیٹرول اہلکاروں کو پریشان کیا۔
جنوری سنہ 2022 میں موسم سرما کی اس صبح شدید برفانی طوفان کے بعد حکام نے امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے قریب وین چلانے والے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جس پر انھیں تارکین وطن کی سمگلنگ کا شبہ گُزرا تھا۔
ڈرائیور سمیت سرحدی محافظوں نے سات انڈین شہریوں کو حراست میں لیا۔ ان میں سے ایک نے چھوٹا بیگ کندھوں پر لٹکا رکھا تھا مگر اُن کے قریب یا اُن کے ساتھ کوئی بچہ نہیں تھا۔
بارڈر ایجنٹس کو بتایا گیا کہ ایک خاندان، جس میں دو بچے شامل تھے، رات کے وقت سرحد پار کرتے ہوئے الگ ہو گئے تھے۔
کینیڈین پولیس نے ویشالی پٹیل، ان کے شوہر جگدیش پٹیل اور ان کے دو چھوٹے بچوں، 11 سالہ وہانگی اور تین سالہ دھرمک کی لاشیں امریکی سرحد سے محض 12 میٹر (39 فٹ) دور ایک کھیت سے برآمد کیں۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ خاندان مغربی انڈیا کی ریاست گجرات میں گاندھی نگر کی کلول تحصیل کے ایک گاؤں سے سیاحتی ویزا پر کینیڈا کے شہر ٹورونٹو پہنچے تھے۔
وہ امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے جب وہ ہڈیوں کو جما دینے والی منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ کی ٹھنڈی ہواؤں اور سرد موسم میں پھنس گئے۔
انڈین گجرات کا کینیڈا میں لاپتہ ہونے والا خاندان اور اس کے خواببرطانیہ داخلے کی کوشش میں کتنے تارکینِ وطن ہلاک ہوئے؟تارکین وطن سے متعلق نئے معاہدے پر یورپی سربراہان منقسمکینیڈا: تارکین وطن کے لیے اولمپک سٹیڈیم کھول دیا گیا
ہرش کمار رمن لال پٹیل (جن کا ہلاک ہونے والے خاندان کے افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے) اور سٹیو انتھونی شینڈ دونوں پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے پٹیل خاندان کو اس جان لیوا سفر پر جانے کے لیے معاونت فراہم کی۔
ان دونوں کو امریکی ریاست منیسوٹا میں انسانی سمگلنگ، مجرمانہ سازش اور غیر ارادی قتل کے الزامات کا سامنا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ پیر کو شروع ہوگا۔ دونوں نے بے گناہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
اس کیس میں دائر کی گئی عدالتی دستاویزات سے انسانی سمگلنگ کی کارروائیوں کے پیچھے ایک مبینہ پیچیدہ اور عالمی سطح پر پھیلے ہوئے ایک ایسے جال کا انکشاف ہوتا ہے جو غیر ملکی شہریوں کو شمالی امریکہ میں لانے میں ملوث ہے۔
اس مبینہ معاملے کی شروعات انڈیا میں غیر قانونی امیگریشن ایجنٹس کو ہزاروں ڈالر کی ادائیگی سے ہوئی جنھوں نے پھر بیرون ملک منتقل ہونے کے خواہشمند افراد کا رابطہ امریکہ اور کینیڈا میں موجود سمگلروں کے ایک نیٹ ورک سے کروایا۔
اس سانحے کے بعد سے اب تک کم از کم دو اور خاندان امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کو غیر قانونی طور پر عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا چُکے ہیں۔
امیگریشن ماہرین کو خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی امریکی انتظامیہ اور بڑے پیمانے پر ملک بدری کے منصوبے کی روشنی میں آنے والے برسوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی جانب سے سمگلنگ کے خفیہ نیٹ ورکس کا زیادہ استعمال کیا جائے گا۔
شنڈ وین ڈرائیور تھے جنھیں پٹیل خاندان کی لاشیں ملنے کے دن ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں امریکہ میں منیسوٹا اور کینیڈا کی سرحد کے قریب 15 مسافروں والی وین کے ساتھ دو انڈین شہریوں کے ساتھ پایا گیا جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں موجود تھے۔
پانچ دیگر افراد، جن کا تعلق بھی انڈیا میں پٹیل خاندان کی آبائی ریاست گجرات سے ہی تھا، بھی وہیں موجود تھے جہاں سے شنڈ کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ان میں سے ایک، جن کی شناخت صرف وی ڈی کے طور پر کی گئی ہے، نے افسران کو بتایا کہ یہ گروپ رات کے وقت سرحد پار چلا گیا تھا۔ اس میں انھیں 11 گھنٹے لگے۔
وی ڈی نے حکام کو بتایا کہ انھوں نے انڈیا میں ایک تنظیم کو 87,000 امریکی ڈالر کی ’بڑی رقم‘ ادا کی جس نے دھوکہ دہی سے حاصل کردہ سٹوڈنٹ ویزا کی آڑ میں ان کے کینیڈا میں داخل ہونے کا انتظام کیا اور بعد میں انھیں غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے میں مدد کی۔
BBC
دریں اثنا پٹیل پر انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ کا ایک اہم منتظم ہونے کا الزام ہے۔
گرفتاری کے بعد شنڈ کی جانب سے حکام کو دیے جانے والے بیان کے مطابق وہ اورنج سٹی، فلوریڈا میں ایک کیسینو چلاتے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پٹیل کو ’ڈرٹی ہیری‘ کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کی امریکہ میں کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق انھیں پانچ مرتبہ امریکی ویزا دینے سے انکار کیا جا چکا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے شنڈ کو غیر قانونی طور پر لوگوں کو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے پار لے جانے کے لیے بھرتی کیا تھا اور اس کے ساتھ کرائے کی کار کے انتظامات، ہوٹل بکنگ اور انڈین شہریوں کے لیے پک اپ مقامات کے بارے میں باقاعدگی سے بات چیت کی تھی۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق جس دن پٹیل خاندان کی لاشیں ملی تھیں اس دن دونوں کی خراب موسم کے بارے میں ایک دوسرے سے بات بھی ہوئی تھی جس میں شنڈ نے پٹیل کو پیغام بھیجا تھا کہ ’اس بات کو یقینی بنا لیں کر سرحد پار کرنے والے ہر فرد نے برفانی طوفان اور اُس علاقے میں موجود شدید سردی کا مقاملہ کرنے کے لیے مناسب کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ پٹیل خاندان ٹورنٹو میں بھی دو افراد کے ساتھ رابطے میں تھا، جو انڈیا میں ایک تنظیم سے منسلک تھے اور جو لوگوں کو کینیڈا میں داخلے کی اجازت دینے اور پھر انھیں امریکہ سمگل کرنے کے لیے سٹوڈنٹ ویزا کا استعمال کرتے تھے۔
پٹیل کے وکیل نے بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں اور ہمیں یہ ثابت کرنے کا موقع بھی ملے گا کہ پٹیل کا اس المناک واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘
تاہم اس معاملے میں شامل کسی دوسرے وکیل نے تبصرہ نہیں کیا۔
پٹیل خاندان کی ہلاکت کے بعد اسی سلسلے میں گجرات میں دو انڈین شہریوں کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد ’غیر قانونی امیگریشن‘ ایجنٹ تھے۔
انڈیا میں جاری تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے کے بعد کچھ انڈین شہریوں کو شکاگو کے ایک ریستورینٹ میں لے جایا جاتا تھا جہاں وہ سمگلروں کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ’غیر معیاری اجرت‘ پر کام کرتے تھے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ پٹیل خاندان کی آخری منزل کیا تھی یا انھوں نے یہ غیر قانونی اور خطرناک سفر کیوں کیا تھا۔
ان کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد انڈیا میں ان کے آبائی گاؤں کے رہائشیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس خاندان کے سفر کے منصوبے کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ سیاحتی ویزے پر کینیڈا جا رہے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو اس وقت تشویش ہوئی جب ان کے جانے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد فیملی سے اُن کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
جگدیش اور ویشالی ایک زمانے میں ٹیچر کے طور پر کام کر رہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ انڈیا میں ان کی زندگی بہت اچھی گُزر رہی تھی۔ لیکن بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی بیرون ملک جانے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے باتوں میں آگئے۔
ڈنگوچا کے ایک کونسلر نے اس وقت بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں کا ہر بچہ بیرون ملک منتقل ہونے کے خواب کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔‘
ایک طرف پٹیل خاندان سفری منصوبوں کو حتمی شکل دے رہا تھا تو دوسری طرف امریکی بارڈر پٹرول ایجنٹس نے منیسوٹا میں امریکہ اور کینیڈا کی سرحد کے قریب ’تازہ قدموں‘ کا ایک نمونہ دیکھا، جو ہر ہفتے بدھ کو دکھائی دیتا تھا۔
یہ شک کرتے ہوئے کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ایجنٹس نے باقاعدگی سے علاقے کا سروے کرنا شروع کردیا۔
19 جنوری 2022 کی صبح برفانی طوفان کے باوجود نگرانی ہو رہی تھی جب انھوں نے ایک بار پھر قدموں کے نشانات دیکھے۔ ان کی وجہ سے ہی پولیس برف سے ڈھکے میدان میں پٹیل خاندان کی لاشیں تلاش کر سکی۔
رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر جین میک لاچی نے اس واقعے کے ایک دن بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’میں جو کچھ شیئر کرنے جا رہی ہوں وہ بہت سے لوگوں کے لیے سننا مشکل ہو گا۔‘
انڈین گجرات کا کینیڈا میں لاپتہ ہونے والا خاندان اور اس کے خواببرطانیہ داخلے کی کوشش میں کتنے تارکینِ وطن ہلاک ہوئے؟تارکین وطن سے متعلق نئے معاہدے پر یورپی سربراہان منقسمکینیڈا: تارکین وطن کے لیے اولمپک سٹیڈیم کھول دیا گیابیرون ملک قید پاکستانیوں کا غم: ’خدا کے نام پر دھوکہ دینے والے رحم نہیں کرتے'ایشیائی والدین کی بچوں سے توقعات: ’مجھے معلوم تھا کہ تم اسی طرح کا کوئی کام کرو گی‘