یہ ایک معمول کا دن تھا۔ ٹریفک رسپانس یونٹ لاہور کے افسر رضوان پٹرولنگ کر رہے تھے جب اُن کی نظر ایک ادھیڑ عمر خاتون پر پڑی جن سے کچھ لوگ بات چیت کر رہے تھے اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہیں۔ رضوان نے یہ دیکھا تو اُن سے رہا نہیں گیا اور وہ اُن خاتون کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔خاتون کی نظر اُن پر پڑی تو اُن کے چہرے پر شناسائی کی چمک اُبھری گویا وہ رضوان کو جانتی ہوں۔ وہ اُن کو اپنا بیٹا سمجھ رہی تھیں تو رضوان نے بھی خاتون کے خاندان کی تلاش اپنا فرض جانا۔ٹریفک رسپانس یونٹ کے افسر رضوان نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ 18 نومبر کا دن تھا جب مجھے دورانِ پٹرولنگ عارف زار پولیس سٹیشن کے قریب سے ایک ادھیڑ عمر خاتون ملیں۔ وہ ڈیمنشیا کی مریضہ تھیں اور اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر تھیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’میں آگے بڑھا تو خاتون نے مجھے دیکھ کر کہا کہ میرا بیٹا اُن کی طرح ہی ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا بیٹا سمجھ لیا۔ میں انہیں سردی سے بچانے کے لیے اپنے ساتھ دفتر لے آیا اور ٹریفک رسپانس یونٹ کینٹ ڈویژن کے انچارج ہشام کو اس بارے میں اطلاع دی۔‘رضوان کے لیے اب سب سے اہم خاتون کے خاندان کی تلاش تھی۔ انہوں نے مقامی لوگوں سے مساجد میں اعلان کرنے کی درخواست کی جب کہ سی ٹی او لاہور کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے خاتون کے ساتھ متعدد فالو اَپ سیشن بھی کیے مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔رضوان نے اُس وقت ایدھی سے رابطہ کیا مگر اُن کی سروس بروقت میسر نہ آ سکی تو انہوں نے کیبل آپریٹرز سے خاتون کے بارے میں اشتہارات چلانے کی درخواست کی۔ اُن کی یہ کوشش بھی رنگ نہ لا سکی۔ وہ مگر مایوس نہیں ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ ’میں اسی دوران فیس بک پر سکرولنگ کر رہا تھا کہ مجھے انہی خاتون کی گمشدگی کا اشتہار نظر آیا جس کے بعد میں نے اشتہار میں دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا تو اِن کے گھر والے آگئے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’سٹی ٹریفک پولیس نے ہر طرح کی تصدیق کرنے کے بعد خاتون کو اُن کے خاندان کے حوالے کیا۔ جب نذیراں بی بی کے گھر والے آئے تو وہ خوشی سے سب کو دعائیں دیتی رہیں۔‘رضوان کے مطابق خاتون کے گھر والوں نے ٹریفک پولیس کو بتایا کہ نذیراں بی بی 17 نومبر کو دن کے ایک بجے لاپتا ہوئی تھیں جب وہ فیصل آباد کے قریب منڈاوا کے ایک گائوں لولو میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔خاتون کے اہلِ خانہ نے ناصرف رضوان کا شکریہ ادا کیا بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پولیس پنجاب اور سی ٹی او سے بھی اظہارِ تشکر کیا ہے۔