سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف دائر درخواست خارج کردی جب کہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمہ کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملہ کو دیکھا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
سپریم کورٹ آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار افس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی قرار دینے اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد مقدمات آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔