سندھ کے شہر جیکب آباد کی پولیس معمول سے ہٹ کر گشت پر تھی۔ کچھ مقامات پر سادہ لباس میں بھی اہلکار تعینات تھے، جو آنے جانے والوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔پولیس کو خفیہ ذرائع سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ملک میں غیرقانونی طور پر موبائل فونز کی خرید و فروخت کرنے والا گروہ سرگرم ہو گیا ہے، اور اس بار اس گروہ نے سندھ کے چھوٹے بڑے علاقوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔پولیس کو یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ لاکھوں روپے مالیت کے موبائل فونز کی جیکب آباد اور گرد و نواح کے علاقے میں ڈلیوری ہونے والی ہے۔
پولیس نے شہر کی مصروف شاہراہ قائد اعظم روڈ پر ناکہ لگایا ہوا تھا کہ ایک گاڑی نے پولیس کا ناکہ دیکھ کر اپنا راستہ بدلنے کی کوشش کی۔
پولیس کو شک ہوا کہ گاڑی کا اچانک رکنا اور راستہ تبدیل کرنا کچھ مشکوک ہے جس پر ناکے پر موجود پولیس کی نفری نے گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔کار سوار نے پہلے تو مزاحمت کی کوشش کی لیکن چاروں طرف پولیس کا احساس ہونے پر گاڑی روک لی۔پولیس اہلکار گاڑی رکنے پر ڈرائیور کے پاس پہنچے، اور نہ رکنے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ ڈرائیور سے ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ اچانک ایک اہلکار کی نظر گاڑی میں رکھے سامان پر پڑی۔ پولیس اہلکار نے سامان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو ڈرائیور ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔پولیس کا شک بڑھتا جا رہا تھا۔ ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے اپنے سینیئر افسروں کو اطلاع دی کہ ایک مشکوک گاڑی کو قائد اعظم روڈ پر روکا گیا ہے۔ گاڑی کے ڈرائیور کا تعلق بلوچستان کے شہر سبی سے ہے، اور گاڑی میں کچھ مشکوک سامان ہے۔پولیس کے سینیئر افسر موقع پر پہنچے اور گاڑی کی تلاشی لی گئی تو کار سے لاکھوں روپے مالیت کے موبائل فون برآمد ہوئے جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں فروخت کے لیے لائے گئے تھے۔ایس ایچ او تھانہ سٹی اکبر علی کھوکھر کے مطابق پاکستان میں فضائی طریقوں سے موبائل فونز لانے پر سختی کے بعد سمگلرز اب دیگر ذرائع سے موبائل فونز پاکستان میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ سمگلرز اب سندھ کے شہروں کی مارکیٹ کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے بروقت ناکہ بندی کی اور لاکھوں روپے مالیت کے آٹھ سو موبائل فون برآمد کر لیے ہیں۔‘پولیس نے تمام برآمد شدہ موبائل فونز اور گاڑی کو قانونی کارروائی کے بعد کسٹم حکام کے حوالے کر دیا۔ (فائل فوٹو: ایکس کسٹمز آف پاکستان)پولیس کے مطابق ان موبائل فونز میں نوکیا 105 ماڈل کے 234 موبائل فونز، نوکیا 106 ماڈل کے 225 موبائل فونز اور نوکیا گولڈن ماڈل کے 291 موبائل فونز ہیں جبکہ 50 دیگر برانڈز کے موبائل فونز شامل ہیں۔ یہ تمام موبائل فونز کسٹمز کی ڈیوٹی ادا کیے بغیر بلوچستان کے راستے سے پاکستان لائے گئے ہیں۔پولیس نے مزید بتایا کہ ’سمگلنگ میں ملوث مرکزی ملزم جاوید اقبال ولد محمد اقبال ابڑو کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو ریزیڈنسی روڈ، محلہ ایوان قلات، سبی بلوچستان کا رہائشی ہے۔‘پولیس نے تمام برآمد شدہ موبائل فونز اور گاڑی کو قانونی کارروائی کے بعد کسٹم حکام کے حوالے کر دیا۔آل پاکستان موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفہام نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے دائرہ کار میں آنے والی تمام مارکیٹوں کو ہم نے پابند کیا ہے کہ کسی بھی غیرقانونی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔ کوئی دکان دار اگر کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے تو قانون اس کے خلاف حرکت میں آئے گا اور ایسوسی ایشن غلط کام کا دفاع نہیں کرے گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح ہم اپنے اداروں سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ بلاجواز کسی دکان دار کو پریشان نہیں کریں گے۔‘منہاج گلفہام نے کہا کہ ’ہمارے دائرہ کار میں آنے والی تمام مارکیٹوں کو ہم نے پابند کیا ہے کہ کسی بھی غیرقانونی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔‘ (فائل فوٹو: ایکس)منہاج گلفہام نے جیکب آباد میں پیش آنے والے واقعہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ عرصہ قبل کراچی میں بھی اس طرح کے موبائل فونز لانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہم نے مارکیٹوں کو پابند کیا ہے کہ کسی کو بھی ملک کو نقصان پہنچا کر اپنا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، لٰہذا تمام دکان دار قانونی طریقوں سے ہی موبائل فونز اور برقی مصنوعات کی خرید و فروخت کریں۔‘آل پاکستان موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر نے مزید کہا کہ ’اس وقت پاکستان میں مقامی سطح پر جو موبائل فونز تیار ہورہے ہیں وہ قیمت میں مناسب ہیں، اور معیار میں بھی بہتر ہیں۔ اس کے علاوہ ان فونز میں پی ٹی اے کی اپروول کا بھی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے مارکیٹ میں دکان دار ان فونز کی خرید و فروخت کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘