یوکرین کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ روس کی مسلح افواج کے ایک اعلیٰ عہدیدار جنرل اور ان کے اسسٹنٹ کو یوکرینی سکیورٹی سروس نے ماسکو میں ہلاک کر دیا ہے۔
روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے کہا ہے کہ نیوکلیئر، بائیولوجیکل، کیمیکل ڈیفینس افواج (این بی سی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایگور کیریلوف منگل کے روز ایک رہائشی عمارت کے باہر موجود تھے، جب ایک الیکٹرک سکوٹر میں نصب ایک دھماکہ خیز ڈیوائس پھٹ گئی۔
یوکرین کی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کے ذرائع نے ایگور کیریلوف پر جنگی جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایگور کیریلوف ہی اس کارروائی کا ’اصل ہدف‘ تھے۔
سوموار کے روز ایس بی یو نے ٹیلی گرام پر کہا تھا کہ کیریلوف ’ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر استعمال کے ذمہ دار ہیں۔‘
یوکرین کی حکومت کی جانب سے ابھی تک جنرل کیریلوف کی موت پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
جائے وقوعہ سے سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمارت کے داخلی راستے کو شدید نقصان پہنچا۔ ان تصاویر میں دیواروں پر جلنے کے نشانات کے علاوہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی کھڑکیاں بھی اڑ گئیں۔
اس کے علاوہ گلی میں بیگ میں لپٹی دو میتیوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اکتوبر میں برطانیہ نے کیریلوف پر یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کی تھیں کہ انھوں نے یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی کی تھی اور ’کریملن کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات میں اہم آلہ کار تھے۔‘
یوکرین کی سکیورٹی سروس کا دعویٰ ہے کہ جنرل کیریلوف کی قیادت میں روس نے 4800 سے زیادہ مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تاہم ماسکو ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے کہا ہے کہ انھوں نے اپنے ’دو اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ کھولا ہے جبکہ تفتیش کار، فرانزک ماہرین اور آپریشنل سروسز جائے وقوعہ پر کام کر رہے ہیں۔‘
’تفتیشی کارروائی اور تلاشی کا کام سر انجام دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس جرم کے حوالے سے تمام حالات کا تعین کرنا ہے۔‘
یوکرین جنگ میں روسی جنرل کیوں مارے جا رہے ہیں؟روس میں یوکرین جنگ کے دوران سینیئر جنرلز گرفتار کیوں کیے جا رہے ہیں؟جنرل زولوزنی: یوکرین کے کمانڈر ان چیف جو جنگ کے میدان میں بھی پرسکون رہتے ہیںپریگوزن: ’پوتن کے باورچی‘ جو جنگجوؤں کی فوج کی سربراہی کرتے ہوئے باغی ہو گئے
روس کی سرکاری نیوز ایجنسیوں کے مطابق جس دھماکہ خیز ڈیوائس سے 54 برس کے جنرل کیریلوف اور ان کے ساتھی کو مارا گیا، اس میں 300 گرام ٹی این ٹی کے برابر بارودی مواد نصب تھا۔
ان کے مطابق بم ماہرین اور کتوں کے ذریعے اردگرد کے علاقے کی تلاشی لی گئی اور کسی بھی قسم کا کوئی اور بارودی مواد نہیں ملا۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی جانب سے پابندیوں کے بعد جنرل کیریلوف کے اثاثے منجمند کر دیے گئے تھے جبکہ ان پر سفری پابندیاں بھی عائد تھیں۔
رواں برس مئی میں امریکہ نے روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کو ’جنگی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے مطابق روس نے یوکرین میں ’میدان جنگ میں کامیابیاں‘ سمیٹنے کے لیے دم گھٹنے والے ایجنٹ کلوروپکرین کا استعمال کیا۔
جنرل ایگور کیریلوف کون تھے؟
جنرل کریلوف نے روس کی فوج میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں اور وہ ریڈی ایشن، کیمیکل اور بائیولوجیکل دفاعی دستوں کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ رہے۔ سنہ 2017 میں وہ این بی سی کے سربراہ مقرر ہوئے۔
کریلوف کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک ہفتہ قبل ہی روس میں اسلحے کے ایک ماہر کو ماسکو میں ان کے گھر کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یوکرینی میڈیا کے مطابق میخائل شاسکی کا قتل یوکرین کی ملٹری انٹیلیجنس سروس نے سرانجام دیا۔
مغرب نے ایگور کیریلوف پر یوکرین جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نگرانی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
وہ روسی وزارت دفاع میں اپنی بے باک بریفنگز کی وجہ سے بدنام تھے، جس کی وجہ سے برطانیہ کے دفتر خارجہ نے انھیں ’غلط معلومات پھیلانے میں کریملن کا آلہ کار‘ قرار دیا۔
2017 میں روسی فوج میں این بی سی کی قیادت کرنے سے پہلے کیریلوف ایک آلہ کار سے بھی کہیں زیادہ تھے اور روس کی ’تیموشینکو ریڈی ایشن، کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل پروٹیکشن اکیڈمی‘ کے سربراہ تھے۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس فورس کے اہم کاموں میں خطرات کی نشاندہی کرنا اور یونٹس کو آلودگی سے بچانا شامل ہے۔
جنگ کے آغاز سے کریلوف نے یوکرین اور مغرب کے بارے میں متعدد دعوؤں کی وجہ سے بدنامی حاصل کی، جن میں سے کوئی بھی حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔
ان کے سب سے زیادہ اشتعال انگیز دعوؤں میں سے ایک یہ تھا کہ امریکہ یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی لیبارٹریز بنا رہا ہے۔
مارچ 2022 میں کریلوف نے اس بارے میں دستاویزات بھی تیار کیں جن کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے دن روس نے ان دستاویزات کو قبضے میں لے لیا تھا۔
کریملن کا حامی میڈیا ان دستاویزات کو سچ مانتا ہے جبکہ آزاد ماہرین ان میں درج تفیصلات کو مسترد کرتے ہیں۔
یوکرین کے بارے میں کریلوف کے الزامات اور دعوے رواں برس بھی جاری رہے۔
گزشتہ ماہ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ روس کے کرسک سرحدی علاقے میں یوکرین کی جوابی کارروائی کا اولین مقصد کرسک جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کرنا تھا۔
اس حوالے سے انھوں نے ایک سلائیڈ شو بھی پیش کیا جو مبینہ طور پر یوکرین کی ایک رپورٹ پر مبنی تھا۔ اس میں کریلوف نے الزام لگایا تھا کہ کسی حادثے کی صورت میں صرف روس کا علاقہ ہی تابکاری مواد سے متاثر ہو گا۔
کیریلوف کے دعوؤں میں ایک چیز بار بار دہرائی گئی کہ یوکرین ’ڈرٹی بم‘ تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دو برس پہلے انھوں نے الزام لگایا تھا کہ ’یوکرین میں دو اداروں کو ’ڈرٹی بم‘ تیار کرنے کے حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں اور اس حوالے سے کام اپنے آخری مرحلے میں ہے۔‘
کیریلوف کے ان دعوؤں کو مغربی ممالک نے ’شفاف جھوٹ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
لیکن کیریلوف کے ان دعوؤں کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے خبردار کیا تھا کہ اگر روس یہ کہہ رہا ہے کہ کیئو اس قسم کا کوئی ہتھیار تیار کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ دراصل روس ایسا ہتھیار تیار کر رہا ہے۔
کیریلوف رواں برس موسم گرما میں ’ڈرٹی بم‘ کے اپنے دعووں پر واپس آئے اور اس بار انھوں نے مشرقی یوکرین کے ایک شہر افدييفكا کے قریب کیمیائی ہتھیاروں کی لیبارٹری کا الزام عائد کیا۔
واضح رہے کہ اس شہر پر فروری کے مہینے میں روسی افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔
کیریلوف نے الزام عائد کیا کہ یوکرین مغربی ممالک کی مدد سے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
کریملن کے وفادار کیریلوف کی موت کو صرف ایک دھچکے کے طور پر نہیں بلکہ اس بات کے ثبوت کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین ماسکو میں اعلیٰ حکام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پریگوزن: ’پوتن کے باورچی‘ جو جنگجوؤں کی فوج کی سربراہی کرتے ہوئے باغی ہو گئےزہر اور قیدِ تنہائی سے اعصابی حملوں تک: پوتن کے سیاسی مخالفین کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے؟’شام کا قصائی‘ کہلائے جانے والے روسی جنرل اب یوکرین میں روسی فوج کی قیادت کریں گے’کیئو کا آسیب‘: 40 روسی طیارے ’مار گرانے‘ والا کردار جس نے یوکرینی فوج کا حوصلہ بڑھایایوکرین جنگ میں روسی جنرل کیوں مارے جا رہے ہیں؟