فواد ممتاز: درجنوں مقدمات کے باوجود 10 سال تک گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے والا ڈاکٹر کیسے پکڑا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 20, 2024

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان بالخصوص پنجاب کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر گردوں کا ٹراسپلانٹ کرنے اور ’آرگن ٹریڈ نیٹ ورک‘ چلانے والے ڈاکٹر فواد ممتاز کو راولپنڈی مجسٹریٹ کی عدالت نے سات سال قید کی سزا سنائی ہے اور ان پر دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر فواد ممتاز کو مارچ 2023 میں ٹیکسلا سے غیر قانونی طور پر گردوں کی پیوندکاری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر فواد کا نام 2020 میں اس وقت میڈیا پر سامنے آیا جب انھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اداکار عمر شریف کی بیٹی حرا شریف کے گردوں کی غیر قانونی طور پر پیوندکاری کی۔ حرا عمر گردے کی غیرقانونی پیوندکاری کے بعد پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں۔

ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی جواد شریف کی جانب سے ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی میں درخواست دی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے اپنی بہن کی سرجری کے لیے لاہور میں فواد ممتاز نامی ڈاکٹر کو 34 لاکھ روپے دیے، جس کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ان کی بہن کا آپریشن کیا لیکن ایک ہفتے بعد ہی ان کی صحت بگڑ گئی۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر فواد ممتاز کے خلاف گزشتہ دس سال میں درجنوں مقدمات درج ہونے کے باوجود بھی انھیں سزا نہ مل سکی تھی اور نہ ہی انھوں نے اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا اپنا کاروبار بند کیا تھا۔

لیکن ڈاکٹر فواد ممتاز اتنا عرصہ سزا سے کیسے بچتے رہے اور آخر کار قانون کی گرفت میں کیسے آئے؟

ڈاکٹر فواد ممتاز اتنا عرصہ سزا سے کیسے بچے رہے؟

پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عدنان احمد بھٹی کے مطابق انھوں نے ڈاکٹر فواد ممتاز کے خلاف فروری 2017 میں ایف آئی آر کروائی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے انھیں لاہور کی ایک نجی سوسائٹی میں غیر قانونی طور پر ایک غیر ملکی باشندے کے اعضا کی پیوند کاری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ جس کے بعد وہ ڈیڑھ سال جیل میں رہے تاہم تکنیکی بنیادوں پر انھیں ہائیکورٹ سے رہائی مل گئی تھی کیونکہ پراسیکیوشن ان کے خلاف چالان جمع کروانے میں ناکام رہے تھے۔‘

پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے اے ڈی لیگل محمد طارق نے ڈاکٹر فواد کے بارے میں بتایا کہ ان کے خلاف بارہ ایف آئی آر درج ہیں جو پنجاب کے مختلف شہروں جیسے لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں درج کرائی گئی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’جب پہلی مرتبہ ڈاکٹر فواد کو پکڑا گیا تھا تو اس وقت وہ لاہور کے ایک نجی میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے جبکہ لاہور جنرل ہسپتال میں خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ ان کا یہ نیٹ ورک سامنے آنے کے بعد ان کا لائسنس معطل کر کے انھیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ اس کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کاروائی کی گئی تھی۔‘

محمد طارق نے مزید بتایا کہ ’ڈاکٹر فواد نے مختلف شہروں میں اپنے ایجنٹ رکھے ہوئے تھے جو زیادہ تر بھٹہ مزدوروں کو سپلائی کرتے تھے۔ ان مزدوروں کے گردے نکال کر ڈاکٹر فواد انھیں لوگوں کو بیچتے اور ٹراسپلانٹ کرتے تھے۔ یہ تقریباً ایک گردہ ٹرانسپلانٹ کرنے کے چالیس سے پچاس لاکھ روپے وصول کرتے تھے۔‘

’ڈاکٹر فواد کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر ٹرانسپلانٹ کروانے والے تقریباً 30 لوگوں کی اموات واقع ہو چکی ہیں۔ جب یہ 2017 میں پکڑے گئے تو ان کے خلاف چالان اور شہادتیں مکمل نہیں تھیں، جس کی وجہ سے یہ رہا ہو گئے۔ پھر جب بھی کسی مریض کی موت واقع ہوتی تو ہمارے پاس شکایت موصول ہوئی اور اس کی ایف آئی آر درج کر لی جاتی لیکن یہ رنگے ہاتھوں نہیں پکڑے جاتے تھے۔‘

محمد طارق کے مطابق ڈاکٹر فواد زیادہ تر کیسز میں ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے بچ جاتے تھے تاہم 2017 سے اب تک انھیں چار مرتبہ پکڑا جا چکا تھا لیکن انوسٹیگیشن میں مسائل کی وجہ سے وہ رہا ہو جاتے۔ جب یہ گزشتہ سال رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو پولیس کی جانب سے شہادتیں ریکارڈ کر کے 20 دن کے اندر چالان جمع کروا دیا گیا اور اسی کیس میں انھیں سزا ہوئی۔‘

کشمیر اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا نیا مرکز؟جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟سؤر کا دل لگائے جانے والے شخص کی ٹرانسپلانٹ کے دو ماہ بعد موتہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیں’آپریشن آخری مرحلے میں تھے جب ہم نے ڈاکٹر کو رنگے ہاتھوں پکڑا‘

پنجاب کے شہر ٹیکسلا سے سنہ 2023 میں ڈاکٹر فواد کو گرفتار کرنے والی پنجاپ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی اور پنجاب پولیس کی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار محمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے تھانے کا ملازم جس علاقے میں رہتا تھا وہاں سے اسے مخبری ہوئی کہ علاقے کا ایک گھر کسی نے کرائے پر لیا ہے اور وہاں رات کے اوقات میں غیر معمولی نقل وحرکت ہوتی ہے۔‘

’ہمارے تھانے کے ملازم نے پتا لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ وہاں رات کے وقت آپریشن کیے جاتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس گھر میں کس قسم کے آپریشن ہوتے ہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ تم وہاں ہی رکو اور دیکھو کہ لوگ کس وقت آتے اور کب جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ لوگ آئے تو اس نے ہمیں کال کر دی۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق ان تمام تر معلومات کے بعد ہم نے مارچ 2023 میں اس گھر پر چھاپہ مارا۔

’صبح چار بجے کا وقت تھا۔ ہماری ٹیم پوری تیاری کے ساتھ اندر گئی تو اس وقت ڈاکٹر فواد آپریشن کے آخری مرحلے میں مصروف تھے۔ ہم نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ یہ وہی ڈاکٹر فواد ممتاز ہیں جو غیر قانونی اعضا کی پیوندکاری کرتے ہیں اور پہلے سے کئی مقدمات میں نامزد بھی ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر فواد اور ان کے سہولت کار عملے کو بھی گرفتار کر لیا۔‘

تاہممریض اور اسے گردہ عطیہ کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور انھیں راولپنڈی کے ہسپتال میں شفٹ کر دیا گیا، جس کے بعد ان کا علاج اسی ہسپتال میں ہوتا رہا۔

پنجاب پولس کے اہلکار نے مزید بتایا کہ دونوں مریضوں کو بھی اس کیس میں تین تین سال قید کی سزا ہوئی ہے۔

’غیر قانونی پیوندکاری والے گروہ دھمکا کر شکایت واپس کروا دیتے تھے‘

ڈپٹی ڈائریکٹر پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی عدنان احمد بھٹی نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے آئے روز ہمیں یہی شکایات موصول ہوتی تھیں کہ غیر قانونی طور پر گردوں کی پیوندکاری کروانے کے بعد مریض حالت خراب ہونے پر ہسپتال میں داخل ہوا۔ یہی نہیں بلکہ اموات کی شکایات بھی موصول ہوتی تھیں۔‘

عدنان احمد بھٹی کے مطابق مگر ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے نگران سیل کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے صوبے میں اتنا فرق ضرور پڑا کہ غیر قانونی طور پر ایسے کام کرنے والے گروہ شہروں سے نکل کر دور دراز علاقوں میں چلے گئےیا پھر وہ کوشش کرتے ہیں کہ پنجاب سے نکل کر پاکستان کے دیگرعلاقوں میں ایسے آپریشن کیے جائیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارا ادارہ پنجاب پولیس اور ایف آئی اے کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتا ہے جبکہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ شکایات میں کمی آنے کے باوجود بھی یہ غیر قانونی کام مکمل طور پر رکا نہیں تاہم ہم بڑے گروہوں کو پکڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘

قانونی پہلووں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد طارق کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے کیسز کا ٹرائل مجسٹریٹ کی عدالت کی بجائے سیشن کورٹ میں ہونا چاہیے۔

’اسی کی وجہ یہ ہے کہ مجسٹریٹٹرائل میں سزا زیادہ سے زیادہ دس سال تک ہوتی ہے جبکہ سیشن ٹرائل میں یہ سزا زیادہ ہے۔ سیشن ٹرائل میں کیس بھی تیزی سے چلتا ہے۔‘

انھوں نے اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے تو ایسا تھا کہ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی ان مقدمات میں شکایت کنندہ نہیں بن سکتا تھا اس لیے ایسے گروہ زیادہ کام کر رہے تھے کیونکہ جب اس گروہ کا شکار ہونے والا شخص شکایت کنندہ بنتا تھا تو یہ لوگ اسے دھمکا کر شکایت واپس کروا دیتے تھے لیکن اس قانون میں پھر تبدیلی کی گئی۔‘

اعضا کی پیوندکاری کا قانونی طریقہ

عدنان احمد بھٹی نے اعضا کی پیوند کاری کا قانونی طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں سرکاری اور نجی تقریباً 50 ہسپتالوں کو ٹرانسپلانٹ کی اجازت ہے۔

’جب بھی کوئی مریض ان ہسپتالوں میں جاتا ہے تو وہاں جا کر اپنا کیس رجسٹر کرواتا ہے۔ جس کے بعد ہسپتال کی کمیٹی مریض اور ڈونر کا انٹرویو کرتی اور پھر فائل مکمل کر کے ہمیں بھجوائی جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہم ایک دن بعد دونوں پارٹیوں کو بلا لیتے ہیں اور ان کا انٹرویو کرتے ہیں۔ جس میں ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیس میں غیر قانونی طور پر اعضا عطیہ تو نہیں کیے جا رہے۔ ہم اسی وقت انھیں اجازت نامہ دے دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی آسان طریقہ کار ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں یہ علاج تقریباً مفت کیا جاتا ہے تاہم اگر کوئی بھی اس کام کو غیر قانونی طور پر کرتا ہے تو اسے سیکشن 9 اور 10 کے تحت سزا دی جاتی ہے۔‘

ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیں’سؤر کے اعضا کی انسانوں میں پیوندکاری ہزاروں زندگیاں بچا سکتی ہے‘چھ اعضا جو اب ہمارے ’کسی کام کے نہیں‘کشمیر اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا نیا مرکز؟میڈیکل سائنس میں ترقی کے باوجود دماغ ٹرانسپلانٹ کرنا اب تک ممکن کیوں نہیں ہو سکا؟بچہ دانی کی پیوندکاری کے بارے میں سنا ہے کبھی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More