پاکستان میں بزرگ شہریوں، مزدورو اور گھر میں کام کرنے والی خواتین کی اُنگلیوں کے نشانات مٹ جاتے ہیں جس کے سبب ان کی فنگر پرنٹس کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسے افراد میں بوڑھے پنشنرز بھی شامل ہیں جن کو پنشن کی رقم نکالتے وقت شددید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایسے افراد کی سہولت کے لیے تصویر کی مدد سے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مری کی رہائشی ثریا خاتون (فرضی نام ) اپنے خاوند کے انتقال کے بعد ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی بیوہ ہونے کی حیثیت سے وفاقی حکومت سے پنشن وصول کر رہی ہیں۔ اُن کی عمر اب 90 سال کے قریب ہے۔
بڑھاپے نے اُنکی اُنگلیوں کے نشانات بھی مٹا دیے ہیں۔
وہ جب چھ ماہ بعد اپنے بیٹے کے ہمراہ متعلقہ بینک میں بائیو میٹرک تصدیق کروانے جاتی ہیں تو فنگر پرنٹس مٹ جانے کی وجہ سے اُنہیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔اُردد نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بائیو میٹرک کے لیے اُنہیں نادرا سینٹرز اور بینک کے بار بار چکر لگانے پڑتے ہیں اور پھر بہت مشکل سے اُن کی بائیو میٹرک تصدیق کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ثریا خاتون کے لیے زیادہ پریشان کن معاملہ یہ ہوتا ہے کہ کہ اکثر بائیو میٹرک کی تصدیق مکمل ہونے تک پنشن رک جاتا ہے جو اُن کے گھرانے کے لیے مالی مشکلات کا بھی سبب بنتا ہے۔تاہم جب ثریا خاتون کو یہ بتایا گیا کہ اب نادرا کی جانب سے بزرگ شہریوں اور پنشنرز کی سہولت کے لیے چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق ممکن بنائی جائے گی تو اُنہوں نے سُکھ کا سانس لیا۔اب انہیں اپنی بائیومیٹرک تصدیق کا مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے۔نادرا کے تصویر کی مدد سے بائیو میٹرک تصدیق کے نظام پر باقاعدہ عمل درآمد 15 جنوری سے ہو گا۔ماہرین کے خیال میں نادرا کی جانب سے شہریوں کی تصاویر کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم نادرا کو پہلے اس کی مکمل تیاری کرنی چاہیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ نادرا کو ہر عمر کے شہریوں کی شناخت کے لیے جدید اور آسان ترین ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے۔چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کیسے ممکن ہو گی؟نادرا کے ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ نادرا کو ایسی شکایات موصول ہو رہی تھیں جن میں بزرگ شہریوں، مزدوروں اور گھر میں کام کرنے والی خواتین کی اُنگلیوں کے نشانات کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔نادرا کے تصویر کی مدد سے بائیو میٹرک تصدیق کے نظام پر باقاعدہ عمل درآمد 15 جنوری سے ہو گا۔ (فوٹو: میٹا اے آئی)ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے نادرا نے اپنے سافٹ ویئر میں ایسے شہریوں کی تصاویر کو کراس میچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’یعنی جن شہریوں کے انگلیوں کے نشانات مدھم پڑ گئے ہیں اور اُن کی فنگر پرنٹس پر بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہو رہی تو ایسے شہریوں کی موجودہ تصویر کے نادرا کے سسٹم میں موجود پرانی تصویر کے ساتھ کراس میچ کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق ممکن بنا لی جائے گی۔‘اُردد نیوز نے نادرا حکام سے استفسار کیا کہ اگر کوئی شہری ایک لمبے عرصے بعد اپنی بائیو میٹرک تصدیق کروانے آتا ہے اور اب اُس کی داڑھی بھی بڑھ گئی ہے اور چہرے پر جھریاں بھی موجود ہیں جبکہ نادرا کے پاس موجود تصویر تو اُس کی جوانی کی ہے تو ایسی صورتحال میں شہریوں کے چہرے کی شناخت کیسے ممکن ہو گی؟نادرا حکام کا جواب تھا کہ اگر بائیو میٹرک تصدیق کے دوران ایسے مسائل پیش آتے ہیں کہ شہری کی موجودہ اور پرانی تصویر میں واضح فرق ہے جس کے امکانات بھی موجود ہیں تو اس صورت میں انگلیوں کے نشانات اور چہرے کی تصویر دونوں کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کا عمل مکمل کیا جائے گا۔اُن کا کہنا تھا چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام کا نفاذ نادرا کے ملک بھر میں موجود سینٹرز میں کیا جائے گا۔ جس کے بعد اگر کسی شہری کی بینک میں پنشن کے حصول یا کسی دوسرے مقصد کے لیے فنگر پرنٹس پر بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہوتی تو وہ نادرا کے قریبی سینٹر پر جا سکتے ہیں اور اپنے چہرے کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق ممکن بنائیں گے جو بینکوں کے لیے بھی قابل قبول ہو گی۔‘نادرا کے ایپ پر بھی چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک کی سہولت موجود ہوگینادرا کی جانب سے چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کے حوالے سے نادرا کے حکام نے اُردو نیوز کو مزید بتایا کہ ایسے شہری جو کسی وجہ سے نادرا کے سینٹرز پر نہیں جا سکتے تو اُن کے لیے نادرا کی ایپ ‘پاک آئیڈنٹٹی‘ پر اپنی تصویر اپلوڈ کر کے بائیو میٹرک تصدیق کی سہولت دستیاب ہو گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نادرا کو بھی اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ فیشل ریکگنیشن کا یہ نظام موثر اور پائیدار ہو۔ (فوٹو: ایکس)’ایسے شہریوں کے لیے نادرا کی موبائل رجسٹررجشن وین کی سہولت بھی موجود ہے جو گھروں یا ہسپتالوں میں جا کر بیمار جا معذور شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرتی ہے۔‘چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کے نظام کےحوالے سے سابق چیئرمین نادرا عثمان یوسف مبین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے بزرگ شہریوں، مزدوروں اور گھریلو خواتین کے لیے چہرے کی شناخت کے ذریعے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام لانا خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے شہری جن کی اُنگلیوں کے نشانات مٹ گئے اُنہیں پنشن کے حصول یا دیگر کام نبھانے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر اُنکی بائیو میٹرک تصدیق ہی مکمل نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں اُن کے لیے پنشن کا حصول یا دیگر ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’تاہم اب یہ لگ رہا ہے کہ ایسے شہریوں کو بائیو میٹرک تصدیق کے حوالے سے درپیش مسائل ختم ہو جائیں گے۔‘انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر احسان اللہ خان کا کہنا ہے کہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں بائیو میٹرک تصدیق کے دو سے تین ذرائع موجود ہیں اور اگرکوئی ایک کام نہ کرے تو دوسرے سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ان میں سے ایک ذریعہ فیشل ریکگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کا نظام ہے۔‘احسان اللہ کے مطابق چہرے کی شناخت کے لیے نادرا کے نظام میں پہلے سے موجود شہری کی ایک تصویر کو اُس کی نئی تصویر کے ساتھ کراس میچ کیا جائے گا اور بائیو میٹرک تصدیق ممکن ہوگا۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف نظام تو تشکیل دے دیے جاتے ہیں مگر جب اُن پر دباؤ زیادہ پڑتا ہے تو وہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے نادرا کو بھی اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ فیشل ریکگنیشن کا یہ نظام موثر اور پائیدار ہو۔