المیہ سر زمینِ پاکستان کا ہے، اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  Dec 26, 2024

المیہ یہ نہیں کہ وطنِ عزیز میں سیاسی عدم استحکام ہے، یہ بھی نہیں کہ  طاقتور اور مقبول ترین دونوں ضدّی مزاج ہیں، شاید یہ بھی نہیں کہ ملکی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان کا غالب رجحان مقبول ترین کی جانب ہے۔ اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہ اس یوتھ کے لیے سرکاری جماعتوں کے پاس تاحال کوئی متبادل بیانیہ نہیں، ہو بھی تو شاید اب ان کا خریدار خال خال ہی نکلے۔ 

المیہ یہ نہیں کہ اب ہمارے ہاں برپا سیاسی منظر نامے پر دنیا بھر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ المیہ یہ بھی نہیں کہ تین بار کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور خطروں کے کھلاڑی آصف علی زرداری سیاسی کینوس سے یکسر غائب ہیں۔ اور یہ بھی نہیں کہ تازہ مذاکرات کی رام کہانی دباؤ کا نتیجہ ہے یا پھر خلوص کا اظہار۔

المیہ یہ نہیں کہ برطانیہ و امریکہ سے لے کر یورپی یونین تک ہماری حالتِ زار پر تشویش میں مبتلا ہے اورفوجی عدالتوں سے ہوئی سویلینز کی سزاؤں پر ہمیں جی ایس پی پلس کے معاملات پر اکھیاں وکھا رہے ہیں۔

المیہ شاید یہ بھی نہیں کہ نو منتخب امریکی صدر اور اس کی کابینہ کے ساتھ امریکہ بیٹھے کپتان کے حامیوں کے مؤثر تعلقات رنگ دِکھلا رہے ہیں۔ اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہ ٹرمپ سرکار کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل مسلسل عمران خان کی رہائی کی مانگ کر رہے ہیں۔ اور اس مانگ سے پہلے امریکہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر قدغن کا ارتکاب بھی کر چکا ہے۔

 المیہ درحقیقت کہیں زیادہ سنگین اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ المیہ سیاسی پسند ناپسند اور حقیقی و غیر حقیقی آزادی ایسے موضوعات سے بالا ہے۔ المیہ سر زمینِ پاکستان کا ہے، اس کے مستقبل کا ہے، مستقبل کی ضامن سکیورٹی کا ہے۔

اسی ضمن کا اہم مدعا ہے نیوکلئیر صلاحیت اور ہماری ڈیٹرنس پالیسی۔ بدقسمتی دیکھیے کہ ہماری رہنمائی پر معمور ہمارے رہنما اس مدعے کی سنجیدگی کا ادراک کرنے سے ہی قاصر ہیں، یہ تمام نامی گرامی لیڈرانِ قوم و ملّت اپنی سیاسی لڑائی میں  فقط جملے بازی کے کرافٹ میں  دن رات مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔

ٹرمپ سرکار کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل مسلسل عمران خان کی رہائی کی مانگ کر رہے ہیں (فوٹو: اے پی)المیہ درحقیقت ٹرمپ کے اس خصوصی ایلچی اور تحریک انصاف کے چاہنے والوں کی نئی محبت رچرڈ گرینل کے حالیہ ٹی وی انٹرویو کے پہلے حصّے میں عیاں ہے۔ مگر توجہ ہماری محض کپتان بارے رچرڈ کی گفتگو تک ہی محدود رہی۔

موصوف بارے گذشتہ کالم میں تفصیلاً عرض کی تھی، یہ بھی تحقیق تحریر کا حصہ تھی کہ ان کا ٹویٹر اصلی اور مستند ہے اور لیگی متوالے اسے جعلی ثابت کرنے کے بجائے اس کی حرکات و سکنات نیز بیانات پر توجہ دیں۔

 موصوف خصوصی مندوب کے عہدے پر نامزدگی کے بعد پہلی بار کسی ٹی وی شو پر جلوہ گر ہوئے ہیں۔ نیوز میکس نامی کیبل نیٹ ورک جو کہ 100 ملین گھروں تک پھیل چکا ہے، کے معروف پروگرام نیوز لائن میں خاتون میزبان ڈی لا گارزا سے مخاطب تھے۔ محترمہ بھلے وقتوں میں اے بی سی اور فوکس نیوز کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔ فیشن انڈسٹری سے لے کر ذاتی ویب سائٹ اور پھر حالاتِ حاضرہ تک جیسے موضوعات پر بدرجہ اتم مہارت رکھتی ہیں۔

اس مختصر انٹرویو کو نشر کرنے سے پہلے ہی ’گارزا‘ایکس (ٹویٹر) کے ذریعے دنیا بھر کو اطلاع دے چکی تھیں کہ وہ گریننل کے ساتھ خصوصی نشست برپا کرنے جا رہی ہیں اور اس میں اہم چرچا پاکستان کے مقبول رہنما عمران خان بارے ہوگی۔

ظاہر ہے امریکہ بیٹھا کوئی بھی صحافی گرینل کے حالیہ افکار سے غافل تو نہیں ہوگا۔ انٹرویو شروع ہوتے ہی محترمہ کی جانب سے اُٹھایا پہلا مدعا وہ موضوع ہے جسے یہ خاکسار تشویش میں مبتلا ہو کر المیے سے تعبیر کررہا ہے۔

موصوفہ نے وال سٹریٹ جرنل کی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کے لانگ رینج میزائل پروگرام اور اس سے جڑی امریکی تشویش کا ذکر کیا اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ایسے حساس مدعے پر بھی ڈیبیٹ اوپن کی۔

رچرڈ گرینل نے بتایا کہ نامزد وزیر خارجہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)المیہ یہاں اُس وقت برپا ہوتا ہے جب رچرڈ گرینل اس کا جواب دیتے ہوئے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’وزیر خارجہ یقیناً اس مدعے پر شاندار خدمات انجام دیں گے اور انہوں نے اس (پاکستان کے میزائل پروگرام ) پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک کے ساتھ مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ قدرے بہتر تعلقات رہے ہیں۔‘

اور پھر یہاں سے مزید آگے گرینل کپتان کی رہائی اور ان کی تعریف میں تفصیلاً گفتگو کرتے ہوئے انہیں ایک غیر روایتی اور ’بہتر کامن سینس‘ والے سیاستدان قرار دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے جذباتی ورکر کے لیے شاید یہ ایک معمولی بیان ہو کیونکہ اصل بیان تو حقیقی آزادی سے لے کر عمران کی رہائی والا مطالبہ تھا۔ سرکاری جماعتوں اور ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی شاید اس قدر کُھل کر کپتان کے حق میں بولنا ہی اصل دردِ سر ہو لیکن میزائل پروگرام اور ایٹمی صلاحیت بارے دبے لفظوں میں ہوئی مختصر چرچا فریقین کے لیے تشویش کا باعث آخر کیوں نہیں؟

خاکسار کو قوّی اُمید ہے کہ جیل بیٹھا کپتان اس کھیل میں اپنے نام کی وجہ سے ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہاں! ہماری وزارتِ خارجہ اور سفارت کاری کی نالائقی پر البتہ ماتم کو جی چاہتا ہے کہ یہ امریکہ میں آنے والی تبدیلی کو بروقت کیوں نہ بھانپ سکے، ٹرمپ کے متعمد ترین افراد بشمول گرینل کی میل ملاقاتوں اور دیگر ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ڈپلومیٹک انگیجمنٹ کیوں نہ کر سکے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ذمہ دار نومبر دسمبر میں لگنے والی سالانہ سیل میں محض جوتا کپڑا اور دیگر لوازمات خریدنے میں مصروف تھے؟ ویسے کہاں امریکہ و چین میں سفیر رہنے والا 40 برس کا تجربہ رکھنے والا پی ایچ ڈی ڈاکٹر انڈین وزیر خارجہ اور کہاں ہماری قسمت۔ سفارت کاری ستّو نہ پیتی تو کیا چمتکار کرتی؟

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More