’دو دہائیوں کا انتظار بھی کیپ ٹاؤن سے مایوس پلٹ آیا‘

بی بی سی اردو  |  Jan 07, 2025

Getty Images

ٹیسٹ کرکٹ کی روایت اور جنوبی افریقہ میں پاکستان کا سابقہ ریکارڈ ملحوظ رکھا جائے تو حالیہ ٹیسٹ سیریز کا حتمی نتیجہ بھی حیران کن ہرگز نہیں کہ تین دہائیوں پر محیط دو طرفہ ٹیسٹ روابط میں پاکستان فقط دو ہی ٹیسٹ میچز اس سرزمین پہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔

کیپ ٹاؤن میں اگر کچھ حیران کن تھا تو پاکستانی بیٹنگ کا وہ جواب تھا جو جنوبی افریقہ کی طرف سے فالو آن کی ندامت مسلط کیے جانے کے ردِعمل میں اس نے دیا۔ شان مسعود کا یہ جواب اگر ایسا شاندار نہ ہوتا تو شاید یہ میچ تیسری شام کا سورج ڈھلنے سے پہلے ہی تمام ہو چکا ہوتا۔

Getty Imagesشان مسعود

زندگی شان مسعود کے لیے کبھی آسان نہیں رہی۔ اپنے کرئیر کا بہترین وقت انھوں نے ڈومیسٹک سرکٹ اور کاؤنٹی کرکٹ میں محض اس وجہ سے گزار دیا کہ تب کی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کچھ الگ ترجیحات رکھتی تھی۔

اور پھر جب انھیں ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بھی تھمائی گئی تو شائقین کی اکثریت ان کی ناقد محض اس سبب ہو رہی کہ یہ قیادت کی چھڑی انھیں کسی اور سے نہیں، بلکہ ان کے ہر دلعزیز بابر اعظم سے لے کر دی گئی تھی۔

پاکستان کی قیادت تھامنے کے بعد شان مسعود کا پہلا دورہ ہی ان آسٹریلوی کنڈیشنز کا تھا جہاں سے خالی پلٹنے والے کپتان عموماً کپتان رہا نہیں کرتے۔ حسبِ توقع اس دورے سے شان بھی بے ثمر واپس لوٹے مگر سابقہ تین دوروں کے برعکس وہاں پاکستان نے ایسی سخت جان کرکٹ کھیلی کہ مائیکل کلارک کے بقول، وہ دو میچز میں جیت کے عین قریب تک آ گئے۔

بنگلہ دیش کے ہاتھوں تاریخی کلین سویپ کے بعد انگلش دورہِ پاکستان بھی اسی سمت گامزن تھا کہ ’عاقب بال‘ کی آمد نے نتائج پلٹ دیے اور بالآخر دو فتوحات شان مسعود کی قیادت کے بھی نام ہوئیں۔

دورہِ جنوبی افریقہ پہ اگرچہ پاکستان سے بہت زیادہ توقعات تو نہ تھیں مگر سینچورین میں محمد عباس کا جادو پاکستان کو فتح کے اس قدر قریب لے آیا کہ جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کا اضطراب بھی کیمروں کی نظر سے اوجھل نہ رہ پایا۔

Getty Imagesعامر جمال

مگر نیولینڈز میں جہاں ٹیم سلیکشن پاکستان کے لیے دردِ سر بنی، وہیں صائم ایوب کی انجری بھی الگ خسارہ دے گئی۔ اور پھر جو بولنگ اٹیک شان مسعود کو میسر تھا، اس میں بھی تیز ترین بولر عامر جمال تھے جن کے سوا کوئی دوسرا بولر 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کا وہ ہندسہ چھونے سے قاصر تھا جو اس پچ پہ نہایت ضروری تھا۔

سو، جب تیسری شام ٹیمبا باوومہ نے فالو آن کروانے کا فیصلہ کیا تو توقع انھیں یہی تھی کہ پہلی اننگز میں رینگ رینگ کر بھی 200 کا مجموعہ نہ بنا پانے والی بیٹنگ لائن اگر بہت مزاحمت بھی کر گئی تو بھی 300 تک تھوڑا ہی جا پائے گی۔

مگر جو جواب پاکستان نے واپس انھیں دیا، وہ فالو آن کے جواب میں دہائیوں پرانے ریکارڈ بھی توڑ گیا۔

’بابر اعظم لیجنڈ بنتے بنتے رہ گئے‘'شان مسعود نیولینڈز کی پچ سے دھوکہ کھا گئے'’کِنگ ایڈیشن‘: بابر اعظم کے لیے سیالکوٹ میں تیار کردہ نئے بیٹ میں خاص کیا ہے؟سعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےGetty Imagesبابر اعظم

شان مسعود نہ صرف اپنی ٹیم کی اس خفت کے جواب میں بطور قائد ڈٹ کر کھڑے ہوئے بلکہ ایسی رفتار سے رنز پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے گئے کہ دیکھتے دیکھتے وہ ضخیم خسارہ گھٹنے لگا اور اننگز سے بھی بڑی شکست کا خطرہ ٹلنے لگا۔

جس نہج پہ شان کی اننگز پاکستان کو لے آئی تھی، وہاں ایک متبادل منظرنامہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جو لڑائی انھوں نے لڑی، ویسی ہی شدت سے کوئی ایک اور بلے باز بھی لڑ جاتا اور میچ کو پانچویں دن تک دھکیل پاتا تو شاید معاملات دلچسپ ہو جاتے۔

مگر باوومہ نے پہلی گیند کی معیاد پوری ہونے کے بعد اٹھتی ریورس سوئنگ کو بھی اہمیت نہ دی اور نئی گیند لینے کا بجا فیصلہ کیا۔ اور پھر کوینا مپھاکا کے برق رفتار ہاتھوں میں نئی گیند پاکستان کے سبھی مزاحمانہ عزائم پاش پاش کر گئی۔

Getty Imagesکوینا مپھاکا

بائیں ہاتھ کے دونوں بلے باز اوپر تلے گنوانے کے بعد پاکستانی بیٹنگ اس تزویراتی برتری سے بھی محروم ہو گئی جو سٹرائیک روٹیشن کے ساتھ بولرز کی لائن و لینتھ کو بھی متاثر کر سکتی تھی۔ محمد رضوان اور سلمان آغا نے بہرحال نئی گیند کا بھرپور مقابلہ کیا اور باوومہ کے صبر کا امتحان طویل تر کر دیا۔

دونوں نے چائے کے وقفے تک پاکستان کی پوزیشن اس قدر مستحکم رکھی کہ میچ بآسانی پانچویں دن کی طرف بڑھ سکتا تھا۔

مگر چار روز تک فاسٹ بولرز کے قدموں کی تھاپ سہنے والی اس بے جان پچ میں بھی کئی ایسے گرد آلود گوشے نمودار ہو چکے تھے جہاں سے کیشو مہاراج بلے بازوں کے اعتماد میں دراڑ ڈال سکتے تھے۔

اگرچہ اننگز سے بھاری شکست کے خواب دیکھتی میزبان ٹیم کو دوبارہ بیٹنگ پہ مجبور کر ڈالنا پاکستان کے لیے ایک چھوٹی سی اخلاقی فتح ضرور ہو سکتی ہے مگر زندگی کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریکارڈز کی کتابیں اخلاقیات پہ نہیں، اعدادوشمار پہ مرتب ہوتی ہیں۔

اگرچہ پاکستان کا یہ شاندار فائٹ بیک تمام اطراف سے تحسین کے انبار وصول کر سکتا ہے مگر یہ بھی غلط ٹیم سلیکشن، پیس بولنگ وسائل کی کمیابی اور پہلی اننگز کی بیٹنگ کوتاہیوں کا ازالہ نہ کر پایا۔

آخری بار پاکستان جب جنوبی افریقہ میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتا تھا، تب محمد آصف کا ہنر اپنے عروج پہ تھا۔ محمد آصف کو کرکٹ سے گئے ہوئے ڈیڑھ دہائی ہو چکی اور جنوبی افریقہ میں کسی نایاب ٹیسٹ فتح کو پاکستانی شائقین کا انتظار دو دہائیوں تک پہنچنے کو ہے۔

کیپ ٹاؤن کی اداس شام سے کلین سویپ کی خفت لیے مایوس پلٹتے پاکستان کے ساتھ ہی شائقین کا وہ دو دہائیوں کا انتظار بھی مایوس پلٹ آیا جسے اپنا پھل پانے کو اب کرکٹرز کی ایک نئی جنریشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔

’انڈیا کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو پاکستان اور بابر اعظم سے امیدیں‘’محمد عباس نے جنوبی افریقہ کا اعتماد ڈگمگا دیا‘میلبرن میں بابر اعظم کی آمدِ ثانی کا انتظار: سمیع چوہدری کا کالممحمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےجنوبی افریقہ کے خلاف سیریز وائٹ واش: ’سعید انور سنا تھا، صائم ایوب دیکھا ہے‘جیسن گلیسپی: ’بابر اعظم کو میں نے ڈراپ نہیں کیا، مُجھے پاکستانی ٹیم کے بہت سے معاملات میں اندھیرے میں رکھا گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More