سال 1969 کئی اعتبار سے دنیا کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ 20 جولائی سنہ 1969 کو نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بنے۔ بوئنگ 747 نے اپنی پہلی اڑان بھری۔ پہلی اے ٹی ایم مشین نیویارک کے راک ویل میں لگائی گئی۔
اسی سال عوامی طور پر بیٹلز بینڈ نے اپنا آخری پروگرام کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب لمبے بالوں اور رنگین جینز پہننے والی ہپی نسل دنیا کے انداز کو بدل رہی تھی۔
یہ وہی سال تھا جب راجیش کھنہ، کشور کمار اور راہل دیو برمن (آر ڈی برمن)کی تکڑی انڈین فلمی موسیقی کی نئی تعریف وضع کرنے میں لگی تھی۔
فلم ’کٹی پتنگ‘ میں راہل دیو برمن کی موسیقی نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی۔ پہلی بار کسی فلم کی موسیقی میں سامبا، کیلیپسو، جاز اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا طاقتور امتزاج استعمال کیا گیا۔
’کٹی پتنگ‘ کی کامیابی سے متاثر ہو کر شکتی سامنت نے برمن جونیئر کو اپنی ایک اور فلم ’امر پریم‘ کے لیے سائن کیا جس میں انھوں نے بہترین موسیقی دی۔
’ہزاروں آئیں گے لیکن کوئی اور رفیع نہیں ہو گا‘نصرت فتح علی خان کی البم کی ریلیز: 34 برس قبل ریکارڈ کی گئی قوالیاں لندن کے ویئرہاؤس سے کیسے ملیں؟جب گلوکار مکیش نے گانے کی ریکارڈنگ کے لیے جانے کے بجائے بار میں شراب پینا شروع کر دیاستاد راشد خان: وہ ’جادوگر‘ جو کلاسیکی موسیقی کو عام عوام کی دسترس میں لایا
انیرودھ بھٹاچاریہ اور بالاجی وٹل اپنی کتاب ’آر ڈی برمن دی مین، دی میوزک‘ میں لکھتے ہیں: ’پنچم (آر ڈی برمن) نے بتایا کہ انھوں نے ایک بار اپنے والد (ایس ڈی برمن) کو ’بیلا بوئے جائے‘ گاتے سنا تھا۔ وہ دھن ان کے ذہن میں بس گئی تھی۔ اسی خطوط پر جب مدن موہن نے لتا منگیشکر کو یہ گانا گاتے ہوئے سنا تو انھوں نے ایس ڈی برمن کو بلایا۔ جب ایس ڈی نے واضح کیا کہ یہ دھن ان کی نہیں بلکہ ان کے بیٹے پنچم نے بنائی ہے تو مدن موہن نے اس پر یقین نہیں کیا۔
’مشہور گلوکارہ آرتی مکھرجی نے کلاسیکی موسیقی کے لیجنڈ ملکارجن منصور کو دھارواڑ میں ’رینا بیتی جائے‘ گنگناتے ہوئے سنا تھا۔ منصور نے جب ان کے چہرے پر حیرت کے تاثرات دیکھے تو کہا، ایس ڈی کے بیٹے نے اس گانے کو کتنا اچھا میوزک دیا ہے۔‘
’دم مارو دم‘ نے آر ڈی برمن کو کامیابی دی
پنچم کا اگلا بڑا بریک دیوآنند کی فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ تھا۔ پہلے دیوآنند چاہتے تھے کہ اوشا اتھپ 'دم مارو دم' گانا گائیں۔
دیوآنند نے 1969 میں اوشا اتھپ کو دہلی کے اوبرائے ہوٹل میں گاتے ہوئے سنا تھا۔ بعد میں آر ڈی نے آشا بھوسلے کو وہ گانا گانے پر مجبور کیا۔ اس گانے کے کئی ورژن ریکارڈ کیے گئے اور فلم میں اسے ٹکڑوں میں استعمال کیا گیا۔ ہپی نسل نے اس گانے کو قبول کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم پہلے ایس ڈی برمن کو پیش کی گئی تھی لیکن وہ اس فلم کے موضوع سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ پھر دیوآنند نے اس فلم کی موسیقی دینے کے لیے پنچم کا انتخاب کیا۔
صرف دو ہفتوں میں انھوں نے فلم کا میوزک مکمل کیا اور یہاں سے پنچم کے کریئر نے بلندی کا سفر طے کرنا شروع کیا۔
حالانکہ راہل دیو برمن کی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ تھی لیکن اس سے کئی سال پہلے فلم ’پیاسا‘ میں اپنے والد کی معاونت کرتے ہوئے انھوں نے اس فلم کے مشہور نغمہ ’سر جو تیرا چکرائے‘ کی دھن بنائی تھی۔ اس گیت کو اس سال کے بناکا گیت مالا میں دوسری پوزیشن ملی تھی۔
طبلہ بجانا پنڈت سمتا پرساد سے اور سرود علی اکبر خان سے سیکھا
شروع میں ایس ڈی برمن نے اپنے بیٹے کا نام ’تبلو‘ رکھا۔ کئی سالوں کے بعد انھیں پنچم کہا جانے لگا۔
یہ قصہ مشہور تھا کہ جب بھی ان کے والد ’سا‘ کا حرف استعمال کرتے تھے تو پنچم ہمیشہ ’پا‘ کا حرف استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے مشہور اداکار اشوک کمار نے ان کا نام ’پنچم‘ رکھا۔
پنچم بچپن میں بہت پھرتیلے اور نڈر تھے۔
انیرودھ بھٹاچاریہ اور بالاجی وٹل لکھتے ہیں کہ ’ایک بار اڑیسہ کے گوپال پور کے دورے کے دوران، سمندر میں نہاتے ہوئے، ایک سانپ ان کی ٹانگ کے گرد لپٹ گیا تھا۔ بغیر کسی خوف کے، انھوں نے سانپ کو اپنی ٹانگ سے الگ کر کے مار ڈالا۔ صرف ایک چیز سے وہ بہت ڈرتے تھے اور وہ چھپکلی تھی جو گھر کی دیواروں پر چل رہی ہوتی تھی۔
'تیراکی ان کی پسندیدہ سرگرمی تھی۔ اس سے نہ صرف ان کے دمے کی بیماری ٹھیک ہوئی بلکہ اس سے انھیں سانس پر کنٹرول رکھنے میں مدد ملی۔ وہ پڑھائی میں اچھے نہیں تھے۔ وہ دو بار فیل ہوئے اور پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ جس دن وہ فیل ہوئے اس دن ان کے والد نے انھیں ایک ’ریلے‘ سائیکل تحفے میں دی، اس کے بعد انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا بیٹا موسیقی کے میدان میں جائے گا۔‘
طبلہ بجانا پنڈت سمتا پرساد سے اور سرود علی اکبر خان سے سیکھا جبکہ ماؤتھ آرگن بجانا خود سے سیکھا۔
صبح 4 بجے اٹھے اور دھن فائنل کی
1960 کی دہائی میں شروع ہونے والا راجیش کھنہ کا جنون 1970 کی دہائی کے وسط تک امیتابھ بچن کے عروج کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ جب پنچم نے پہلی بار راجیش کھنہ کی فلم ’میرے جیون ساتھی‘ کے لیے ’او میرے دل کے چین‘ گیت کی دھن بنائی تو اسے پروڈیوسر ہریش شاہ اور راجیش کھنہ دونوں نے ہی مسترد کر دیا۔
فلم فیئر کے سات ستمبر 1973 کے شمارے میں شائع ہونے والے ’آل فار اے سونگ‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں وی سریدھر نے لکھا کہ ’او میرے دل کے چین کی دھن آر ڈی کے دماغ میں اس قدر پیوست ہو گئی تھی کہ وہ صبح چار بجے بیدار ہوئے اور اس دھن کو اپنے کیسٹ ریکارڈر پر ریکارڈ کیا اور دھن کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنے میوزک روم میں گئے۔‘
سنہ 2008 میں پنچم کی سالگرہ کی تقریب میں جب ان کے ساتھی منوہری سنگھ سے ایک ایسا نغمہ بجانے کے لیے کہا گیا جو پنچم کی موسیقی کی مکمل نمائندگی کرتا ہو، تو انھوں نے اپنے سیکسوفون پر ’او میرے دل کے چین‘ بجایا۔
بیئر کی خالی بوتلوں سے بنائی موسیقی
پنچم کے ساتھی بھانو گپتا نے بھی ان کی موسیقی کے بارے میں ایک دلچسپ کہانی سنائی۔
انیرودھ بھٹاچاریہ اور بالاجی وٹل لکھتے ہیں کہ ’بھانو گپتا نے ہمیں بتایا کہ ایک دن وہ پنچم کے میوزک روم میں بیٹھ کر اپنے گٹار کی تاریں کھینچ رہے تھے۔ اس وقت پنچم باتھ روم میں غسل کر رہے تھے۔ اچانک انھوں نے سر باہر نکالا اور کہا ’بجاتے تھاکو، تھمو نا‘ (بجاتے رہو، مت روکو) اور میں گیٹار بجاتا رہا۔‘
’جب وہ باتھ روم سے باہر آئے، تو وہ ایک دھن گنگنا رہے تھے جو میرے گٹار کی تاروں سے نکلنے والی آواز سے مماثل تھی۔ لائن تھی ’مجھے چلتے جانا ہے‘ بعد میں اس گانے کی پہلی دو سطروں کا میوزک دیا گیا۔ گانے کی پہلی لائن تھی ’مسافر ہوں یارو۔‘
Getty Imagesرندھیر کپور نے جب کسی کو بیئر کی بوتلیں اڑاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟
رندھیر کپور بھی ایک ایسی ہی کہانی سناتے ہیں کہ ’ایک دن جب میں پنچم کے گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ اور ان کے اسسٹنٹ آدھی بھری ہوئی بیئر کی بوتلوں میں پھونک مار رہے ہیں۔ ایک منٹ کے لیے میں نے سوچا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ ایک نئی قسم کی آواز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے آپ شعلے فلم کے گیت ’محبوبہ محبوبہ‘ کے آغاز میں سنتے ہیں۔ ریکارڈنگ کے دوران ایسی آواز پیدا کرنے کی ذمہ داری بسو چکر ورتی کو دی گئی تھی اور اس میں رباب اور الٹی ڈھولک کا استعمال کیا گیا تھا۔
میرا کچھ سامان تمہارے پاس۔۔۔
فلم ’اجازت‘ کے گیت ’میرا کچھ سامان‘ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔
گلزار اپنی سوانح عمری ’دھوپ آنے دو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب میں نے یہ گانا پنچم کو دیا تو اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد انھوں نے کہا، یہ اچھا سکرپٹ ہے۔ میں نے کہا، پنچم، یہ گیت ہے، فلم کا کوئی سین نہیں اور تمہیں اسے سننا پڑے گا۔
ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور انھوں نے جھک کر کہا، ’گلّو، تم کل میرے پاس اخبار لے کر آؤ گے اور مجھے دھن بنانے کو کہو گے۔ یہ کہہ کر انھوں نے گیت ایک طرف کو رکھ دیا۔‘
’آشا جی پنچم کے پاس بیٹھی تھیں۔ انھوں نے گانا اٹھایا اور اس کی پہلی لائن گنگنانے لگیں۔ پنچم نے اس کے الفاظ پکڑ لیے، کہا ’واپس دو۔‘ آشا کے گنگنانے کا انداز انھیں اچھا لگا، پھر انھوں نے آشا کے ہاتھ سے گانے کا کاغذ لے لیا اور دو منٹ بعد ’تمہارے پاس میرا کچھ سامان پڑا ہے‘ کی دھن تیار ہو گئی۔‘
ایس ڈی برمن کو اپنے بیٹے پر فخر تھا
بنگال کے کچھ حلقوں میں ایک عجیب و غریب لطیفہ عام تھا کہ ایس ڈی برمن فلم شعلے کے گیت محبوبہ محبوبہ کے شور سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ مفلوج ہو گئے، لیکن سچ یہ ہے کہ ایس ڈی کو اپنے بیٹے کی کامیابیوں پر فخر تھا۔
سنہ 1956 میں جب نوکیتن کی فلم ’فنٹوش‘ ریلیز ہوئی تو پنچم اسے دیکھنے ہال گئے۔ فلم کی موسیقی ان کے والد ایس ڈی برمن نے دی تھی۔ جب ’اے میری ٹوپی‘ گیت سکرین پر آیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس گانے کی دھن تو انھوں نے ہی بنائی تھی۔
راجو بھارتن اپنی کتاب ’جرنی ڈاؤن میموری لین‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پنچم حیران پریشان اپنے گھر واپس آئے۔ ان کے والد دروازے پر کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو کہ میں نے تمہاری ایک دھن چرا لی ہے۔ ہاں، میں مانتا ہوں۔ لیکن اگر آپ کی دھن میری فلم میں شامل ہونے کے لائق ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اچھا کام کر رہے ہیں ویسے بھی ’اے میری ٹوپی‘ ایک ہلکی سی دھن ہے۔ جب میں آپ کی کسی سنجیدہ دھن کو اپنی فلم میں استعمال کرنے کے قابل سمجھوں گا تو میں آپ کو واقعی ایک عظیم موسیقار سمجھوں گا۔‘
کھگیش دیو برمن نے ایس ڈی برمن کی سوانح عمری ’ایس ڈی برمن، دی ورلڈ آف ہز میوزک‘ میں لکھا کہ ’ایک بار ایس ڈی صبح کی سیر کے لیے نکلے، پھر انھوں نے کچھ لوگوں کو سرگوشی کرتے ہوئے سنا، ’دیکھو، آر ڈی برمن کے والد۔‘ اس موقع ہر انھوں نے اپنی چہل قدمی کو درمیان میں چھوڑا اور اپنی بیوی سے کہا کہ ’اب تک لوگ مجھے ایس ڈی برمن کے نام سے پہچانتے تھے، اب آر ڈی کے والد کے نام سے جان رہے ہیں۔‘
جاوید اختر بھی پنچم کے مداح تھے
جاوید اختر نے پہلی بار پنچم کے ساتھ فلم ’ساگر‘ میں کام کیا۔ وہ کھنڈالہ کے ایک ہوٹل میں ساگر کے مکالمے لکھ رہے تھے۔ وہاں سے انھیں فلم کی موسیقی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے بمبئی آنا پڑا۔ پنچم نے انھیں ایک دھن دی تھی اور اس پر گانا لکھنے کو کہا تھا۔
Getty Imagesجیسے ہی جاوید اختر نے گانے کے بول لکھے، آر ڈی نے اس کی دھن ترتیب دی
جاوید اختر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اس دھن پر جو گانا لکھا تھا، اس کا میٹر میچ نہیں کر رہا تھا، اس لیے میں نے دھن کو ایک طرف رکھا اور اپنے دماغ سے گانا لکھا۔ آر ڈی نے مجھے کہا، ’ٹھیک ہے، آپ مجھے گانا لکھوا دیجیے۔‘ انھوں نے قلم اور کاغذ اٹھایا اور میں گیت ڈکٹیٹ کرانے لگا۔
’جب وہ لکھنا ختم کر چکے تھے تب تک ان کے ذہن میں گانے کی دھن بننا شروع ہو چکی تھی۔ گانے کا آخری لفظ لکھنے کے بعد انھوں نے ہارمونیم نکالا اور گانا شروع کر دیا۔ وہ گیت اس طرح تھا ’چہرہ ہے یا چاند کھلا ہے۔‘
پنچم گرم چائے میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے تھے
آشا بھوسلے نے 23 مئی 2009 کو آنند بازار پتریکا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’پنچم کا مین مینجمنٹ حیرت انگیز تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح کسی بھی گلوکار اور موسیقار سے ان پر دباؤ ڈالے بغیر بہترین کام لیا جا سکتا ہے۔ وہ کشور کمار کے ساتھ بہت مذاق کرتے تھے۔ منا ڈے کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آتے۔ لتا منگیشکر کے ساتھ بہت گرمجوشی تھی۔ اور میں نے لتا کے ساتھ انھیں بنگالی زبان میں اپنے خاندانی معاملات پر گفتگو کرتے دیکھا۔‘
پنچم اپنی عجیب و غریب حرکتوں کے لیے بھی مشہور تھے۔ گلزار لکھتے ہیں کہ ’پنچم ہمیشہ جلدی میں رہتے تھے، وہ چائے مانگتے جو گرما گرم ان کے پاس لائی جاتی تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے کا صبر نہیں تھا۔ وہ اس میں پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کر لیتے تھے۔ اور خوشی خوشی اسے پی لیتے۔ وہ جلتی سگریٹ پر لونگ رکھ کر گہرے کش لیتے تھے۔ ان کا خیال تھا ایسا کرنے سے گلا صاف ہوتا ہے۔‘
’ان کے پاس دنیا کی بہترین فلموں کی ویڈیو کیسٹوں کا ایک اچھا ذخیرہ تھا، اگر ان کا کوئی دوست ان سے دیکھنے کے لیے ویڈیو کیسٹ مانگتا وہ اس کے سرورق پر اپنا نام لکھ کر خالی کور اپنے پاس رکھ لیتے اور جب تک ویڈیو کیسٹ ان کے پاس واپس نہ آ جائے وہ ان کا جینا دو بھر کیے رکھتے تھے۔‘
چلتی گاڑی میں بات کرنے کا انوکھا انداز
گلزار پنچم سے متعلق ایک اور کہانی بیان کرتے ہیں کہ ’ایک بار میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا چلا رہا تھا۔ جب میری گاڑی ٹریفک لائٹ پر رکی تو مجھے اچانک پنچم کی آواز سنائی دی، ’گُلّو، گُلّو۔‘ اس کی گاڑی میری گاڑی کے پاس رکی جسے وہ خود چلا رہے تھے
'انھوں نے اپنے ساتھ والی کار کے ڈرائیور کو شیشہ نیچے کرنے کو کہا، یہ منظر دیکھنے کے لائق تھا جب پنچم نے چیخنا اور مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیا۔ درمیانی کار کا ڈرائیور کبھی میری طرف اور کبھی پنچم کی طرف دیکھتا۔ اس نے دو لوگوں کو شاید پہلی بار اپنی زندگی میں اس طرح بات کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جیسے ہی ٹریفک لائٹ ہری ہوئی، پنچم کی گاڑی میری گاڑی کے پاس آئی اور ہم اس طرح بات کرتے ہوئے کافی دور تک گئے۔‘
آشا بھوسلے کے ساتھ شادی
1966 میں پنچم نے ریٹا پٹیل سے شادی کی لیکن یہ شادی زیادہ دن نہ چل سکی۔ دونوں صرف پانچ سال بعد الگ ہو گئے۔ اسی دوران پنچم کی آشا بھوسلے کے ساتھ قربتیں بڑھنے لگیں۔
دونوں کی شادی سات مارچ 1979 کو ہوئی۔ اس موقع پر لتا منگیشکر، کشور کمار، ہردے ناتھ منگیشکر کی اہلیہ بھارتی منگیشکر اور ان کے ایک دوست بابو بھائی دیسائی موجود تھے۔
پنچم کی والدہ میرا کو یہ خبر اس خوف سے نہیں دی گئی کہ شاید وہ چونک جائیں کہ اس کے بیٹے نے خود سے چھ سال بڑی اور بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے۔ اس موقع پر کوئی تصویر نہیں لی گئی۔
صرف 54 سال کی عمر میں فوت ہو گئے
تین جنوری سنہ 1994 کو رات 2:30 بجے پنچم ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے کہ انھیں اچانک پسینہ آنے لگا اور ان کے سینے میں شدید درد ہوا۔ فوراً ایمبولینس بلائی گئی۔
جب 3.40 بجے ایمبولینس ان کے گھر پہنچی، آر ڈی برمن بے ہوش ہو چکے تھے۔ ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔
اس وقت ان کی عمر صرف 54 سال تھی۔ ان کی والدہ میرا دیو برمن اس وقت الزائمر میں مبتلا تھیں۔ سنہ 2007 میں اپنی زندگی کے آخری ایام تک وہ یہ مانتی رہیں کہ ان کا بیٹا ’تبلو‘ لندن میں رہ رہا ہے اور موسیقی کمپوز کر رہا ہے۔
’ہزاروں آئیں گے لیکن کوئی اور رفیع نہیں ہو گا‘ہیروں اور کرکٹ کی دلدادہ لتا منگیشکر جن کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھااستاد راشد خان: وہ ’جادوگر‘ جو کلاسیکی موسیقی کو عام عوام کی دسترس میں لایا’استادوں کے استاد‘ حسین بخش گلو جن کی محفل لتا منگیشکر نو گھنٹے تک سنتی رہیںجب گلوکار مکیش نے گانے کی ریکارڈنگ کے لیے جانے کے بجائے بار میں شراب پینا شروع کر دینصرت فتح علی خان کی البم کی ریلیز: 34 برس قبل ریکارڈ کی گئی قوالیاں لندن کے ویئرہاؤس سے کیسے ملیں؟