ہمایوں: اپنے بھائی کے قتل سے انکار کرنے والے مغل بادشاہ جن کی نرمی کا ان کے دشمنوں اور اپنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا

بی بی سی اردو  |  Jan 08, 2025

Getty Images

مغل بادشاہ نصیرالدین محمد ہمایوں ہندوستان کے اہم ترین قلعوں میں سے ایک چُنار کو فتح کر سکتے تھے لیکن اب انڈیا کے صوبے اترپردیش کے ضلع مرزا پورمیں واقع ملک کے شمال مغرب سے بنگال جاتی شاہراہ پر نگراں اس قلعے پر قابض شیر خان (شیر شاہ سوری) کو مکمل اطاعت گزار پایا۔

نہایت احترام سے شیر خان نے کہا کہ وہ قلعے میں تو رہنا چاہتے ہیں مگر صرف ہمایوں کے نام پر۔ اعتبار جمانے کو اپنے بیٹے کی سربراہی میں ایک گھڑ سوار دستہ بھی مغل فوج کے ساتھ بھیج دیا۔

ہمایوں، جنھوں نے 29 دسمبر 1530 کو اپنے والد ظہیرالدین محمد بابر کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا، خوشی سے سرشار تھے۔ سو انھوں نے چُنار شیر خان کے پاس رہنے دیا اور گجرات کے سلطان بہادر شاہ کی گوشمالی کرنے مغرب کی جانب بڑھ گئے۔

جیمز ٹالبوائس وہیلر اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف فرام دی ارلیئسٹ ایجز‘ (ابتدائی دور سے ہندوستان کی تاریخ) میں لکھتے ہیں کہ یہ شیر خان کی چال تھی کہ ہمایوں جس کا شکار ہو کر ہندوستان کے تخت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

جب ہمایوں گجرات سے لوٹے، شیر خان بنگال کے آقا بن چکے تھے اور بنگال سلطنت کے صدر مقام گاؤڑا کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔

ہمایوں نے بنگال جانا چاہا تو چُنار قلعہ رکاوٹ بنا۔ چھ مہینے اسی کو فتح کرنے میں لگ گئے۔ آگے بڑھے تو افغانوں نے گنگا اور راج محل پہاڑیوں کے درمیان تنگ گھاٹی کو بند کیا تھا۔ اچانک افغان غائب ہو گئے۔

اب سڑک صاف تھی، سو ہمایوں گاؤڑا کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے جانا کہ انھیں مات ہو چکی ہے۔

شیر خان نے مغل فوج کو اتنی دیر بنگال سے باہر رکھا تھا ’جتنی ان کے مقصد کے لیے ضروری تھا۔‘

گاؤڑا کو لوٹا جا چکا تھا، مالِ غنیمت کو محفوظ جگہ منتقل کیا جا چکا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمایوں کی پیش قدمی برسات کی آمد تک روکے رکھی۔

مغل بنگال میں داخل ہوئے تو تباہی ان کا مقدر تھی۔

’وہاں پانی ہی پانی تھا۔ حبس کے اس موسم میں کافی بڑی تعداد میں فوجی بخار اور پیچش سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔‘

جب بارشیں رکیں تو ہمایوں نے آگرہ واپسی کی کوشش کی۔ افغانوں نے حملہ کر دیا اور باقی فوج کو گنگا کی جانب دھکیل دیا۔

Getty Imagesہمایوں نے کابل میں اپنے بھائی کامران مرزا کو شکست دیبھائی کو قتل کرنے سے انکار

ہمایوں آگرہ کی جانب بچ نکلے لیکن فوج کے بغیر کمزوری کی اس حالت میں جو لڑائیاں لڑیں، شکست ہوئی۔

ہمایوں اور ان کے بھائیوں کے درمیان علاقوں کی تقسیم مغل سلطنت کی خاندانی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ ہمایوں نے تخت نشین ہونے کے بعد اپنے بھائیوں میں تقسیم علاقے ان ہی کے پاس رہنے دیے تھے۔

یہاں تک کہ ہمایوں کے سوتیلے بھائی کامران مرزا نے اپنے علاقے قندھار میں اپنے بھائی عسکری مرزا کو چھوڑ کر لاہور پر قبضہ کر لیا تو ہمایوں نے مصلحتاً فرمان جاری کردیا کہ ’کابل، قندھار اور پنجاب کامران کے حوالے ہیں۔‘

لیکن یہ تقسیم زیادہ دیر تک کارگر نہ رہی کیونکہ بھائیوں کے درمیان اعتماد کی کمی اور اقتدار کی خواہش نے تنازعات کو جنم دیا۔

اپنے ایک تحقیقی مضمون میں تاریخ دان سدھارتھ مکھرجی لکھتے ہیں کہ قنوج (اتر پردیش) کی لڑائی سے بچ کر آگرہ یا دلی میں زیادہ دیر نہ رکتے ہوئے، ایک بوڑھے اور زخمی ہاتھی پر سوار ہمایوں جب لاہور پہنچے تو وہاں انھیں کامران مرزا کے سرکش رویے اور کھلی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔

1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاجب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کیسمندر کی اتھاہ گہرائی اور آبدوز میں پھنسے دو افراد: ’تین دن بعد جب ہمیں ریسکیو کیا گیا تو صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی‘جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہوا

شیر خان کے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد، ہندال مرزا سمیت، چاروں بھائی لاہور میں جمع تھے۔ جبشیر خان، تقریباً 180 کلومیٹر (112 میل) دور سرہند پہنچے تو ہمایوں نے انھیں یہ پیغام بھیجا کہ ’میں نے پورا ہندوستان (یعنی پنجاب کے مشرق میں واقع گنگا کی وادی کے علاقے) آپ کے لیے چھوڑ دیا۔ لاہور کو چھوڑ دیں اور سرہند کو میرے اور اپنے درمیان سرحد رہنے دیں۔‘

شیر خان نے جواب دیا کہ ’میں نے آپ کے لیے کابل چھوڑ دیا، آپ وہاں چلے جائیں۔‘

کابل ہمایوں کے بھائی کامران مرزا کے پاس تھا، جو وہکسی بھی صورت میں اپنے بھائی کو دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کے برعکس، کامران نے شیر خان سے رابطہ کیا اور یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے بھائی کے خلاف بغاوت کر کے ان کے ساتھ مل جائیں گے، بشرطیکہ انھیں پنجاب کا بڑا حصہ دے دیا جائے۔

شیر خان نے کامران کی مدد کو مسترد کر دیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ انھیں اس کی ضرورت نہیں تاہم یہ خبر جلد ہی لاہور پہنچ گئی۔ ہمایوں پر زور دیا گیا کہ وہ کامران کو سبق سکھانے کے لیے انھیں قتل کر دیں۔

ہمایوں نے انکار کر دیا اور مورخ ابوالفضل کے مطابق اپنے والد بابر کے آخری الفاظ یاد کیے کہ ’اپنے بھائیوں کے خلاف کچھ نہ کرنا، چاہے وہ اس کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں۔‘

Getty Imagesہمایوں نے 22 سال کی عمر میں تخت سنبھالاافیون کے شوقین اور ’ناکام‘ بادشاہ

سدھارتھ مکھرجی کے مطابق تاریخ کے اس دور میں بادشاہوں کو اپنی خودمختاری اور فتوحات کو برقرار رکھنے کے لیے بے حد سفاک ہونا پڑتا تھا۔ ’گو کہ ہمایوں نے 23 سال کی عمر میں تخت سنبھالا تو نہ فتوحات کا ہنر رکھتے تھے اور نہ ہی تجربہ کار حکمرانوں کی دانائی۔‘

’تخت نشینی کے فوراً بعد وہ ان مسائل میں الجھ گئے جنھوں نے ان کی توانائی ختم کر دی۔ تخت کے ساتھ اپنے والد سے ورثے میں پائے حل طلب مسائل ان کے علاوہ تھے۔ لیکن ہمایوںایک طویل عرصے تک، اور بارہا ناکام، کوشش کرتے رہے کہ خطاکاروں، خاص طور پر اپنے بھائیوں کی اصلاح، رحم دلی اور معافی سے کریں۔‘

’ان کی فطرت میں ظلم نہیں تھا اوربھائیوں سے متعلق تو انھیں اپنے والد بابر سے کیے وعدے کا پاس تھا۔‘

کامران مرزا، جن کی بنائی بارہ دری لاہور میں ان کی یادگار ہے، بار بار ہمایوں کے مخالف ہوئے۔ موت کی سزا تجویز ہوئی لیکن ہمایوں نے انھیں نابینا کرنے پر اکتفا کیا اور بعد میں انھیں حج پر بھیج دیا۔

مکہ میں ان کا اور عسکری مرزا کا انتقال ہوا۔ ہندال اس سے پہلے کابل میں کامران مرزا کی فوجوں سے لڑتے ہوئے جان سے گئے تھے۔

اپنی سوتیلی بہن گل بدن بیگم اور بیٹے اکبر کے درباری مؤرخ ابو الفضل کے مطابق ہمایوں ایک بہادر، شجاع اور مہربان انسان تھے۔

لیکن تاریخ دان آر وی سمتھ لکھتے ہیں کہ ہمایوں کو افیون کا بھی شوق تھا۔ وہ زیادہ تر مَعجون استعمال کرتے تھے۔

افیون کے استعمال، جس کا تذکرہ گل بدن بیگم نے بھی بارہا ہمایوں نامہ میں کیا، نے ہمایوں کے دماغ کو ’سست کر دیا تھا اور اس وجہ سے ان کے کچھ ادوار سستی اور زیادہ سرگرمی کے ہوتے تھے، جب وہ کاہلی کو جھٹک کر نئے علاقوں کو فتح کرنے یا اپنے مخالفین کے ہاتھوں چھینے گئے علاقوں کو واپس لینے کے لیے اپنی مہمات شروع کر دیتے۔‘

ہمایوں جب جوان ہو رہے تھے تو ممکنہ طور پر اپنے جنگجو والد کی تقلید کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان کی کئی خصوصیات بھی وراثت میں حاصل کیں، بشمول افیون کی محبت کے۔

مورخ لین پول نے لکھا کہ ’نوجوان شہزادہ واقعی ایک بہادر اور پیار کرنے والا شخص تھا، تہذیب و تمدن میں ماہر، حاضر دماغ اور اپنے والد (بابر) کی طرح قابل، دل سے محبت کرنے والا اور جذباتی، عزت و توقیر کے معاملے میں تقریباً خیالی تصور رکھنے والا، جرات مند اور موقع آنے پر پر بڑی توانائی دکھانے کی صلاحیت رکھنے والا تھا لیکن ایک بادشاہ کے طور پر وہ ناکام ثابت ہوئے۔‘

Getty Imagesہمایوں نے 15 سال جلا وطنی میں گزارے۔ اس دوران ہندوستان اور پنجاب شیر خان کے تھے، شیر شاہ سوری کے طور پرجلا وطنی، صفوی سلطنت میں پناہ اور قتل کی سازش

ڈاکٹر ایس کے بینرجی اپنی کتاب ’ہمایوں پادشاہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمایوں کو اندرونی طور پر جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا، وہ ان کے دربار کے امرا کی نخوت اور تکبر تھا، خاص طور پر ان کے بلند نسب رشتہ داروں کی جانب سے۔

اسی لیے اب حالات ان کے مخالف تھے اور اگلے 15 سال کے لیے جلا وطنی ہمایوں کا مقدر تھی۔ ہندوستان اور پنجاب اب شیر خان کے تھے، شیر شاہ سوری کے طور پر۔

انھیں کہیں پناہ نہ ملی۔ سندھ کے صحرا میں مشقت، پیاس اور گرمی جھیلی۔ یہیں اکبر کی پیدائش ہوئی۔ یہاں تک کہ وہ ایران پہنچے۔

اینیٹ ایس بیوررج ، جنھوں نے ’ہمایوں نامہ‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا، انیسویں صدی کے اوائل میں لکھتی ہیں کہ سندھ اور راجستھان کے تھر کے خشک اور گرم صحرا میں سرگرداں، سڑک پر زندگی گزارنے کی سی حالت میں، بے فائدہ اپنی فوج کو دوبارہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے، جب وہ ایران کے لیے روانہ ہوئے تو یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ صرف 40 یا اس سے بھی کم افراد باقی تھے۔

تاریخ دان ارسلا سمز ولیمز کے مطابق اسی دوران قندھار جانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ہمایوں نے 1543 کے آخر میں صفوی بادشاہ شاہ طہماسپ کی پناہ لینے کا فیصلہ کیا اور 15 ماہ کے بچے اکبر کو اپنے رشتہ داروں کے پاس چھوڑ دیا۔

ہمایوں کے صفوی ایران میں قیام کی ابو الفضل نے بہت زیادہ تعریف کی۔ ہمایوں کی شاہ سے ملاقات جولائی 1544 میں ہوئی۔ شاہی جشن روزانہ ہوتے اور تحائف کا تبادلہ ہوتا۔ اس کے بعد ہمایوں کو واپس روانہ کر دیا گیا، شاہ کے بیٹے شہزادہ مراد، 12,000 گھڑ سواروں اور 300 اسلحہ برداروں کے ساتھ۔

حافظ شیرازی جن کی ’مسلمانوں کے قبرستان‘ میں تدفین پر تنازع ہوا مگر ان کے کلام سے آج بھی فال نکالی جاتی ہےقسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولاہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑاقدیم روم کی وہ انتہائی بدنام زمانہ رانی جو ’جنسی بے راہ روی‘ کی مثال بنی

ابو الفضل کے مطابق، ایک آدھ تناؤ کے موقع کے علاوہ دونوں حکمرانوں کے درمیان تعلقات انتہائی اچھے تھے۔

تاہم جوہر آفتابجی کی ’تذکرۃ الوقائع‘ میں ایک مختلف تاثر ملتا ہے۔ وہ ہمایوں کی جلاوطنی اور تخت کی دوبارہ بازیابی کی جدوجہد کے دوران میں ان کے ساتھ تھے۔

این میری شمل نے آفتابجی ہی کے حوالے سے لکھا کہ ہمایوں نے شاہ سے اپنے نام کی رعایت سے ایک شعر کی صورت میں بات کی جس کا مفہوم تھا کہ ’ہر شخص ہمُا (اقتدارکی علامت پرندے) کے سائے میں پناہ لیتا ہے اور آپ کے سامنے ہمُا ہے جو آپ کے سائے میں آتا ہے!‘

جوہر کے مطابق طہماسپ نے ہمایوں سے پہلی بات یہ کی تھی کہ آیا وہ صفوی تاج پہننے کو تیار ہیں۔ ہمایوں نے اس پر خوشی سے رضامندی ظاہر کی لیکن اگلے دن انھیں مسلک بدلنے کا حکم دیا گیا۔

وہیلر تھیکسٹن کی ترجمہ کردہ ’ہمایوں کی تین یادداشتیں‘ میں لکھا ہے کہ ’جلانے کی لکڑیاں اکٹھی کی گئیں۔ شاہ نے پیغام بھیجا کہ اگر تم ہمارے مسلک کو اپناؤ گے تو ہم تمہاری مدد کریں گے ورنہ ہم تمہیں نہیں بچائیں گے۔ ہم تمہارے لوگوں کو اس لکڑی سے جلا دیں گے اور تمہیں جلا کر ختم کر دیں گے۔‘

ہمایوں نے ابتدا میں انکار کیا لیکن آخرکار وہ دباؤ میں آ کر عارضی طور پر مان گئے اور اپنے میزبان کی سخاوت کا لطف اٹھایا۔

تاہم طہماسپ نے ہمایوں کو قتل کرنے کے اپنے منصوبے کو نہیں چھوڑا تھا۔ جب ان کی سازش کے بارے میں طہماسپ کی بہن نے سنا تو وہ روتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہا کہ ان کو نقصان پہنچانے سے کیا حاصل ہو گا؟ اگر تم ان پر رحم نہیں کر سکتے اور ان کی مدد نہیں کر سکتے، تو کم از کم انھیں جانے دو۔‘

شاہ نے یہ سنا اور فوراً خوش ہو کر کہا ’میرے تمام امیروں نے بے وقوفانہ مشورے دیے ہیں لیکن جو تم نے کہا وہ سب سے بہتر ہے۔‘

Getty Images47 سالہ ہمایوں کی موت سیڑھیوں سے گرنے سے ہوئی۔ ان کا مقبرہ دلی میں واقع ہےلاہور، دلی اور آگرہ پر دوبارہ قبضہ

ہمُایُوں کو شاہ طہماسپ کی جانب سے فوجی امداد فراہم کی گئی اور اس کے بعد انھوں نے 1545 میں قندھار (جو اب افغانستان میں ہے) کو فتح کیا اور اپنے غیر وفادار بھائی کامران سے تین بار کابل کو چھینا، آخری بار 1550 میں۔

شیر شاہ تب تک نہیں رہے تھے۔

ان کے بعد آنے والوں کے درمیان خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمایوں نے فروری 1555 میں لاہور (جو اب پاکستان میں ہے) کو فتح کیا اور پنجاب کے باغی افغان گورنر سکندر سُور کو سرہند میں شکست دینے کے بعد انھوں نے جولائی میں دلی اور آگرہ کو دوبارہ قبضے میں لیا۔

مکھرجی کے مطابق ہمایوں ’بابر کے تمام بیٹوں میں سب سے فرض شناس، طاقتور اور اہل، علم دوست انسان اور جنگجو شہنشاہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کے اختتام تک مغل سلطنت، جو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں تباہ ہونے کے عمل سے گزری تھی، ایک بار پھر ہندوستان کی سرزمین میں مضبوطی سے جڑ پکڑ چکی تھی۔‘

’اپنی مختصر زندگی میں، جو ان کے پسندیدہ مطالعے کے برج کی سیڑھیوں سے گرنے کے نتیجے میں صرف 47 سال کی عمر میں اچانک ختم ہو گئی، انھوں نے امرا کو خوش رکھنے کی مشکل کا سامنا کیا، حملوں کو روکا، بغاوتوں کو دبایا اور انتہائی نازک لمحات میں غیر متوقع غداریوں کا سامنا کیا۔‘

سدھارتھ مکھرجی لکھتے ہیں کہ جلاوطنی میں ہمایوں نے غیر معمولی ہمت اور صبر کا مظاہرہ کیا۔

’انھوں نے مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنا وقار قائم رکھا بلکہ اپنے بدترین حالات پر افسوس کیے بغیر، کبھی مایوس نہیں ہوئے، چاہے ان کی راہ کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو مغل بادشاہت ان کی جلاوطنی کے ساتھ ہی تمام ہو چکی ہوتی۔‘

1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑاحمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہواسمندر کی اتھاہ گہرائی اور آبدوز میں پھنسے دو افراد: ’تین دن بعد جب ہمیں ریسکیو کیا گیا تو صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی‘جب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More