گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اس کشیدگی میں اضافہ طالبان کے سنہ 2021 میں ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوا ہے۔
جب سنہ 2021 میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی اور امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں افغان طالبان اقتدار میں آئے تو پاکستان میں بیشتر سفارتی اور عسکری امور کے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہو جائے گی۔
اگست 2021 میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے پانچ ستمبر 2021 کو کابل کا اچانک دورہ کیا تھا جس کی تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنی تھیں۔
ان تصاویر اور ویڈیوز میں انھیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے اور انھوں نے اس موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے ’پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا‘ کے الفاظ ادا کیے تھے۔
لیکن پچھلے چار سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔
اب بظاہر پاکستان اور طالبان آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان اس دورانیے میں بارہا کابل سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے جو ’افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔‘ طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس دسمبر کے اواخر میں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن کیا تھا۔ جبکہ افغان طالبان حکومت نے اس ’فضائی کارروائی‘ پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس کا جواب دے گا، جس کے بعد پاکستان کی حدود میں واقع سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔
جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستانی حکومت حالات میں بہتری کا سوچ رہی تھی وہیں یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ اس پیش رفت سے انڈیا کو سفارتی اور خطے میں اثر و رسوخ کے اعتبار سے دھچکا پہنچا ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں اب ایک بار پھر انڈیا اور أفغان طالبان ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔
انڈیا اور افغانستان کی بڑھتی قربت
افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا رخصت ہونا انڈیا کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انڈیا نے غنی دور حکومت میں افغانستان میں جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہو جائے گی۔
لیکن گذشتہ چند مہینوں میں انڈیا کے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اور ایک بار پھر افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں گرمجوشی نظر آ رہی ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے آٹھ جنوری کو دبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان انڈیاکو ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ اُن کی انتظامیہ کی انڈیا کے ساتھ اب تک کی اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے انڈیا کے ساتھ تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوئی ہے۔ انڈیا ایران میں چابہار بندرگاہ بنا رہا ہے تاکہ پاکستان کی کراچی اور گوادر پورٹ کو بائی پاس کر کے افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کی جا سکے۔
کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟پاکستان کی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ’عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی‘ کی تصدیق’کابل میں انڈیا کی دلچسپی سے پاک افغان تعلقات متاثر نہیں‘مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘
افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں مزید کہا ہے کہ ’ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اور معیشت کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے۔ ہمارا مقصد انڈیا کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے۔‘
دوسری جانب اس ملاقات کے بعد انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور تجارت بڑھانے پر بھی بات ہوئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور انڈیا بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے انڈیا نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں حالیہ ’فضائی کارروائی‘ کی بھی مذمت کی تھی۔
Getty Images'دریائے کابل پر بننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے‘ (فائل فوٹو)پاکستان سے اس پر کیا ردعمل ہے؟
دبئی میں طالبان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی ملاقات پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم خارجہ امور کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اس پیش رفت کو پاکستان کے لیے ایک اہم پیغام کے طور پر دیکھا ہے۔
انڈیا کے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں پاکستان کے لیے نامہ نگار نروپما سبرامنیم نے لکھا ہےکہ ’دریائے کابل پر بننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔ انڈیا اور افغانستان کے درمیان سنہ 2020 میں اس ضمن میں 250 ملین ڈالر کے ایک منصوبے پر معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن طالبان کے آنے کے بعد معاملات ٹھپ ہو گئے تھے۔ طالبان اب انڈیا سے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔‘
امریکہمیں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری کی طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے ایک سبق ہے، جو یہ سوچ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی آمد سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور انڈیاکا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔‘
اس سے قبل حقانی نے پاکستان کے مقامی نیوز چینل سما ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستانی حکام سوچ رہے تھے کہ کابل فتح کرنے کے بعد طالبان وہاں آ جائیں گے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا، لیکن وہ ہمارے گلے میں پڑ گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی کو سمجھنے والوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے۔ اگر آپ کبھی بریگیڈ کے کمانڈر تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے۔‘
امریکہ کی یونیورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے لکھا ہے کہ ’کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی ساز پاکستان کو کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی حمایت کرنا حکمت عملی کے لحاظ سے شاید ہی فائدہ مند ہو گا۔ اب چیزیں واضح ہو کر سامنے آ رہی ہیں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سکیورٹی کے مطابق سنہ 2024 میں نومبر کے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں 240 افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70 سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے انڈیا اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں پر لکھا ہے کہ ’کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ طالبان کے ساتھ انڈیا کی بڑھتی ہوئی قربت افغانستان میں پاکستان کو شکست دینے کی کوشش ہے۔ لیکن اس کا ایک عملی پہلو بھی ہے کہ انڈیا نہیں چاہتا کہ افغانستان کی سرزمین انڈیا میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال ہو۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ انڈیا ایران کے چابہار کے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانا بھی چاہتا ہے۔ انڈیا بھی یہاں سے وسطی ایشیا پہنچ جائے گا۔ انڈیا کی اس کوشش کی بنیاد پر وہاں کے لوگوں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان میں اپنے مخالفین پر قابو پا لیں لیکن طالبان ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اور اس کا فائدہ انڈیا کو مل رہا ہے۔ لیکن انڈیا اور طالبان کے تعلقات کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔‘
انڈیا کے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے بین الاقوامی ایڈیٹر سٹینلے جانی نے لکھا ہے کہ ’انڈیا اور طالبان 2021 میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے دہشت گردی پر بھی تحفظات ہیں۔ پاکستان فیکٹر بھی اہم ہے۔ طالبان پاکستان کی مداخلت سے آزاد رہنا چاہتے ہیں اور یہ انڈیا کے لیے ایک موقع ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انڈیا طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جلدی میں ہے۔ یہ بین الاقوامی معاہدے کے بعد ہی ہو گا۔ لیکن انڈیا اور طالبان رابطے برقرار رکھیں گے اور آہستہ آہستہ نئے مواقع تلاش کریں گے۔‘
’پاکستان کی افغانستان پر کوئی واضح پالیسی نہیں‘
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بُری طرح ناکام ہو چکی ہے اور بظاہر اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور تعلقات بڑھانے کی بات ہو رہی ہے اور ساتھ ہی حملے بھی ہو رہے ہیں۔
عبدالباسط کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان کے ساتھ بگڑتے تعلقات کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ اس طرح یہ سارا معاملہ بہت حساس ہو جاتا ہے۔
عبدالباسط نے پاکستانی نیوز چینل اے بی این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ اس کے کابل کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائیاں بھی اس کی مجبوری بن چکی ہیں کیونکہ افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔‘
ادھر افغانستان کے سابق سفارتکاروں نے انڈیا اور افغانستان کے درمیان بڑھتے روابط پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سری لنکا، انڈیا اور امریکہ میں افغانستان کے سابق سفیر ایم اشرف حیدری نے وکرم مصری اور طالبان کے درمیان ملاقات پر سخت الفاظ میں لکھا ہے کہ ’یہ افغانستان کے عوام کے ساتھ غداری ہے کیونکہ یہ افغان جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کی صورتحال کے لیے تشویشناک ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیا بھی جلد یا بدیر اپنی اقدار اور مفادات سے غداری پر پچھتائے گا۔‘
اشرف حیدری نے لکھا کہ ’یہ مت بھولیں کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہندوؤں نے اس کے بھائیوں اور بہنوں کے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑیں گے۔ آپ کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بامیان میں بدھا کے مجسموں کو طالبان نے تباہ کر دیا تھا اور یہ مجسمے ہماری ثقافت کا اثاثہ تھے۔‘
انڈیا میں افغانستان کے سابق سفیر فرید ماموندزئی نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو نظر انداز کیے بغیر طالبان حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جا سکتے جو وہاں مسلسل مظالم کا شکار ہو رہے ہیں۔
’کسی بھی مذاکرات میں افغان خواتین اور بچوں کے مفادات کو ترجیح دینی ہو گی۔ وہاں کے انسانی بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا وہاں طالبان کے مظالم کو جائز نہ بنائے۔‘
پاکستان کی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ’عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی‘ کی تصدیقکیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘