وہ ممالک جہاں جانے کیلئے پاکستانیوں کو ویزے کی ضرورت نہیں

سچ ٹی وی  |  Jan 10, 2025

پاکستانی پاسپورٹ اکثر دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شامل ہوتا ہے مگر پھر بھی اسے چند ممالک کی جانب سے ویزا فری قیام کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

ہینلے اینڈ پارٹنرز کی جنوری سے جون 2025 کے لیے دنیا بھر کے ممالک کے پاسپورٹس کی طاقت کے حوالے سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ کو 33 ممالک میں ویزا فری رسائی حاصل ہے۔

مگر فہرست میں ویزا فری رسائی کو 3 کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا، ایک کیٹیگری حقیقی ویزا فری سفر کی ہے، یعنی کسی قسم کے انتظام کی ضرورت نہیں۔

دوسری ویزا آن ارائیول (یعنی اس ملک میں پہنچ کر ویزا لینے) کی ہے جبکہ تیسری الیکٹرونک ٹریول اتھارٹی (ای ٹی اے) پر مشتمل ہے۔

تو 12 ممالک ایسے ہیں جہاں پاکستانی شہریوں کو اپنے پاسپورٹس پر جانے کے لیے ویزا لینے کی ضرورت نہیں۔

البتہ ویزا فری ممالک میں بھی جانے کے لیے پاسپورٹ پاس ہونا ضروری ہے۔

تو جانیں وہ کونسے ممالک ہیں جو پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا فری ہیں۔

بارباڈوس (کیریبئین جزائر کا ایک ملک) میں ویزا فری قیام ممکن ہے۔

جنوبی بحرالکاہل میں واقعی جزائر کک میں جانے کے لیے بھی پاکستانی شہریوں کو ویزا لینے کی ضرورت نہیں۔

ڈومینیکا (کیریبئین جزائر کا چھوٹا ملک) میں بھی ویزے کے بغیر قیام ممکن ہے۔

کیریبئین جزائر کا ایک اور ملک ہیٹی بھی ویزے کے بغیر قیام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

براعظم افریقا میں واقع دنیا کے سب سے چوتھے بڑے جزیرے مڈغاسکر میں بھی پاکستانیوں کو ویزا کے بغیر خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ملک مائیکرو نیشیا میں بھی ویزا فری قیام ممکن ہے۔

کیرینئین میں واقع برطانیہ کے زیرتحت جزائر پر مشتمل خطے مانٹسریٹ میں بھی آپ ویزا لیے بغیر جاسکتے ہیں۔

جنوبی بحر الکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک نیووے بھی پاکستانیوں کے لیے کھلا ہے اور وہاں جانے کے لیے ویزا لینے کی ضرورت نہیں۔

افریقی ملک روانڈا بھی پاکستانیوں کو ویزا فری رسائی کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔

بحیرہ کیریبئین میں امریکا کے قریب واقع چھوٹے سے ملک Saint Vincent and the Grenadines بھی ویزا فری قیام کی اجازت دیتا ہے۔

جزائر کیریبئین کے ایک اور ملک Trinidad and Tobago میں بھی ویزے کے بغیر قیام کرنا ممکن ہے۔

آسٹریلیا کے قریب واقع جزائر پر مشتمل ملک وانواتو بھی ویزا فری قیام کی اجازت دینے والے ممالک میں شامل ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More