Reuters
جنوبی کوریا میں حکام نے کئی گھنٹوں کی کارروائی کے بعد ڈرامائی انداز میں صدر یون سوک یول کو ان کی سرکاری رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا ہے۔ انھیں ملک میں مارشل لا لگانے کی کوشش کے بعد بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے۔
جنوبی کوریا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی موجودہ صدر کو گرفتار کیا گیا ہے۔
بدھ کی صبح جب جنوبی کوریا کے کرپشن انویسٹیگیشن آفس کے حکام صدر سوک کو گرفتار کرنے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچے تو وہاں سینکڑوں کی تعداد میں ان کے حامی موجود تھے جو اس ورانٹ گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
جبکہ حکمران جماعت پیپلز پاور پارٹی کے ارکان اور صدر یون سوک کے وکلا نے نے تفتیش کاروں کا راستہ روکنے کی کوشش کی جبکہ ان کی صدارتی سکیورٹی سروس نے ان کی گرفتاری روکنے کے لیے گاڑیوں سے رکاوٹیں بھی کھڑی کی۔
تاہم جنوبی کوریا کی نیوز ایجنسی کے مطابق پولیس اور حکام نے صدر یون سوک کو گرفتار کرنے کے لیے صدارتی محل میں داخل ہونے کے لیے سیڑھی کا استعمال کیا جبکہ کچھ اہلکار صدارتی کمپاؤنڈ میں قریبی ہائکنگ ٹریل کے راستے داخل ہوئے۔
Reuters
یاد رہے کہ حکام کی جانب سے صدر یون سوک کو گرفتار کرنے کی یہ دوسری کارروائی تھی۔اس سے قبل 31 دسمبر کو جنوبی کوریا کی ایک عدالت سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد تین جنوری کو درجنوں اہلکاروں نے انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر صدارتی سکیورٹی سروسز کی جانب سے تقریباً چھ گھنٹے کی مزاحمت اور محاصرے کے بعد وہ ناکام واپس لوٹے تھے۔
صدر یون سوک نے گذشتہ برس تین دسمبر کو ملک میں تقریباً 50 سال بعد پہلی بار مارشل لا لگانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے تین دسمبر کو رات دیر گئے بظاہر ریاست مخالف قوتوں اور شمالی کوریا کے خطرے کے پیش نظرٹی وی پر مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے تھے اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مارشل لا ختم کروانے کے لیے ایمرجنسی ووٹ دینے پہنچے تھے جس کے بعد چند ہی گھنٹوں کے اندر صدر نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
سات دسمبر کو اپوزیشن نے مارشل لا لگانے کی کوشش میں صدر یون سوک کا مواخذہ کرنے کی کوشش کی مگر پارلیمان میں ووٹوں کی کمی کے باعث انھیں ناکام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
14 دسمبر کو یون سوک کو اس وقت صدر کے عہدے سے معطل کر دیا گیا جب ایک اور ووٹنگ کے عمل میں ارکان پارلیمان نے ان کے مواخذے کے لیے ووٹ دیا، تاہم صدر کو صرف اسی صورت میں عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے جب ملک کی آئینی عدالت اس فیصلے کی توثیق کرے۔
گذشتہ روز جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کیا معطل صدر کو عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے کے مقدمے کی پہلی سماعت کی تھی تاہم یون کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ سماعت صرف چار منٹ میں ختم ہو گئی اور اس مقدمے کی اگلی سماعت 16 جنوری کو ہونا ہے۔
Reutersصدر کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر کیا ہوا؟
ابتدائی توقعات کے برعکس صدارتی سکیورٹی سروس کے ایجنٹوں اور پبلک پراسیکیوٹر آفس کے تفتیش کاروں کے درمیان کوئی بڑی جھڑپیں نہیں ہوئیں۔
بدھ کی علی الصبح 4:20 بجے کے قریب ہنم ڈونگ میں سرکاری رہائش گاہ کے قریب فضائیہ اور پولیس اہلکاروں کو لے جانے والی گاڑیاں نمودار ہوئیں۔
حکمران جماعت پیپلز پاور پارٹی کے اراکین تقریباً پانچ بجے موقع پر پہنے جبکہ صدر یون کی قانونی ٹیم نے ایک موقع پر تفتیش کاروں کو روکنے کی کوشش کی۔
تاہم گرفتار کرنے والے تفتیش کاروں کے اہلکاروں نے صدارتی رہائش گاہ کے داخلی دروازے پر موجود بریئر کو صبح 7:30 بجے عبور کرتے ہوئے عمارت کی جانب پیش قدمی کی اور تقریباً 8:30 بجے تیسرے ناکے اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمارت میں داخل ہو گئے۔
صدر یون سوک کو تین جنوری کو گرفتار کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد جب آج پولیس اور کرپشن انویسٹی گیشن کے حکام صدر کو گرفتار کرنے ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر پہنچے تو ان کی سکیورٹی پر معمور صدارتی سیکورٹی سروس نے ان کے کمپاؤنڈ کے گرد گاڑیاں اور بسیس کھڑی کر کے رکاوٹیں رکھ دی تھی جبکہ صدارتی رہائش گاہ کے ارد گرد خاردار تاریں بھی بچھا رکھی تھیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق صدر یون سوک کے سرکاری رہائش گاہ کے باہر حکمران پارٹی کے درجنوں ارکان نے تفتیش کاروں کو یون تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کمپاؤنڈ کے سامنے ایک انسانی دیوار بنا رکھی تھی۔
’میرے ہم وطنو‘: منگل کی رات جنوبی کوریا میں صرف چند گھنٹوں کے لیے مارشل لا کیوں لگا؟گھڑی میں چھپا کیمرہ اور دو ہزار ڈالر کا ’ڈیزائنر بیگ‘ جس نے جنوبی کوریا میں ہلچل مچا دیپاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات جب ’ملک بچانے‘ کے لیے پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیاجنوبی کوریا کی خوشی پاکستانیوں کو کیوں چڑھی ہوئی ہے؟
تاہم صدر یوک کو گرفتار کرنے جانے والی ٹیم ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے سامان لے کر آئے تھے جن میں خاردار تاریں کاٹنے کے لیے وائر کٹرز اور سیڑھیاں شامل تھیں۔
حکام نے بسوں اور گاڑیوں کی مدد سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو سیڑھی کی مدد سے ان پر چڑھ کر عبور کیا جبکہ وائر کٹرز سے انھوں نے خاردار تاریں بھی کاٹیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق کچھ اہلکار قریبی ہائیکنگ ٹریل کے ذریعے صدارتی رہائش گاہ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ کچھ سیڑھیاں لگا کر صدارتی رہائشی گاہ کے اندر گھسے۔
اس دوران ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہا اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کہیں تفتیش کاروں اور گرفتار کرنے والی ٹیم اور صدارتی سیکورٹی سروس کے درمیان کوئی مزاحمت یا ٹکراؤ نہ ہو جائے۔
جنوبی کوریا کے مقامی میڈیا پر پہلے یہ خبر بھی آئی کہ سیکورٹی سروس کے سربراہ کو مزاحمت کرنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم بعدازاں حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ پریزیڈنٹ سکیورٹی سروس کے سربراہ کو نہ ہی گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی سکیورٹی سروس کی جانب سے اس کارروائی کے دوران کوئی براہ راست مزاحمت کی گئی ہے۔
Reuters
بدھ کی صبح تقریباً 9:24 بجے، نیشنل پولیس ایجنسی کے خصوصی تفتیشی یونٹ نے اعلان کیا کہ ’پولیس وارنٹ پر عمل درآمد کے عمل کے دوران کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بڑا تنازعہ نہیں تھا۔
تاہم ان کے سرکاری رہائش گاہ کے قریب پہنچنے سے لے کر صدر کو گرفتار کرنے تک کی کارروائی میں کافی وقت لگا۔
اس دوران صدر یون کے وکیل سیوک ڈونگ ہیون نے کہا تھا کہ صدر یون گرفتار ہونے کے بجائے رضاکارانہ طور پر پیش ہوں گے۔
جوائنٹ انوسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر نے اعلان کیا ہے کہ 15 جنوری کو مقامی وقت کے مطابق 10:33 بجے دارالحکومت سیول کے علاقے ہنام دونگ میں صدر کی سرکاری رہائش گاہ پر یون سوک کی وارنٹ گرفتاری پر عمل کیا گیا۔
تقریباً 10:36 بجے صدر یون کو سخت سکیورٹی میں صدارتی رہائش گاہ سے نکلتے دیکھا گیا اور انھیں گرفتار کر کے گواچیون میں واقع حکومتی کمپلکس میں کرپشن انویسٹیگیشن آفس لے جایا گیا۔
Getty Images’خون خرابے سے بچنے کے لیے غیر قانونی تحقیقات کے لیے تیار ہوں‘
گرفتاری کے بعد جاری ایک ویڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی خون خرابے سے بچنے لیے تفتیش کے لیے رضامند ہیں ’اگرچہ یہ ایک غیر قانونی تحقیقات ہیں۔‘
انھوں نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہا کہ ’وہ کرپشن انویسٹیگیشن آفس کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے ان کے الزامات اور تحقیقات کو تسلیم کر لیا ہے۔‘
اپنے تین منٹ کے مختصر ویڈیو بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک میں قانون کی حکمرانی ختم ہو گئی ہے کیونکہ نہ ہی ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی عدالتوں اور نہ ہی ان کے خلاف تحقیقات کرنے والے اداروں کو ایسا کرنے کا اختیار ہے۔‘
انھوں نے اپنے ویڈیو بیان کے آخر میں کہا کہ ’البتہ یہ تاریک دور ہے مگر ملک کو مستقل پرامید ہے۔ میرے ہم وطنوں آپ کے لیے میری نیک تمنائیں اور آپ ثابت قدم رہیں۔ شکریہ۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ برس صدر یون متعدد کرپشن سکینڈل کی زد میں بھی رہے جن میں سے ایک میں الزام تھا کہ ان کی اہلیہ نے ایک مہنگا بیگ بطور تحفہ وصول کیا جبکہ ایک اور سکینڈل سٹاک میں ہیرا پھیری کا بھی ہے۔
Getty Images’گرفتاری ثبوت ہے کہ قانون و انصاف ابھی موجود ہے‘
ان کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے ان کی حریف سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور قائد حزب ایوان چن ڈائی نے کہا ہے کہ ’یون کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں قانون و انصاف ابھی موجود ہے۔‘
اپنی پارٹی اجلاس میں انھوں نے کہا کہ ’یہ گرفتاری ملک میں آئین و جمہوریت کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کی جانب پہلا قدم ہے۔‘
یون سوک یول کی جانب سے مارشل لا لگانے کی کوشش کے بعد سے اپوزیشن نے انھیں اور ان کے حامیوں کو ’باغی‘ قرار دیتے ہوئے ان کے مواخذے اور گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
وہ پہلے ہی یون سوک اور ان کے اعلیٰ حکام جن میں قائم مقام صدر ہان ڈک سو بھی شامل ہیں کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اب کیا ہو گا؟
صدر یون سوک کی گرفتاری کے بعد سے اب اگلے 48 گھنٹے تفتیش کاروں کے لیے بہت اہم ہیں یعنی ان کے لیے ’وقت کم اور مقابلہ سخت‘ والا معاملہ ہے۔
اب وہ یون سوک کو 48 گھنٹے تک اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، یا اس مدت کے اندر حراستی وارنٹ حاصل کر سکتے ہیں تاکہ اسے تفتیش کے دوران حراست میں لیا جا سکے۔ اگر عدالت ایک اور وارنٹ جاری کرنے سے انکار کرتی ہے تو یون کو رہا کر دیا جائے گا۔
حراستی وارنٹ کی صورت میں یون کے خلاف عدالتی مقدمہ چلائے جانے سے پہلے 20 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد، استغاثہ درخواست کر سکتا ہے کہ یون پر زیر حراست مقدمہ چلایا جائے، جو 6 ماہ تک چل سکتا ہے۔
’میرے ہم وطنو‘: منگل کی رات جنوبی کوریا میں صرف چند گھنٹوں کے لیے مارشل لا کیوں لگا؟گھڑی میں چھپا کیمرہ اور دو ہزار ڈالر کا ’ڈیزائنر بیگ‘ جس نے جنوبی کوریا میں ہلچل مچا دیپاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات جب ’ملک بچانے‘ کے لیے پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیاجنوبی کوریا کی خوشی پاکستانیوں کو کیوں چڑھی ہوئی ہے؟’مسلح فوجی اور ایک نہتی لڑکی‘: جنوبی کوریا میں مارشل لا کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی ’آہن‘جنوبی کوریا سے چاول کی بوتلیں شمالی کوریا کیوں بھیجی جا رہی ہیں؟