ریمنڈ ڈیوس: لاہور میں دن دہاڑے دہرا قتل کرنے والا ’کنٹریکٹر‘ جسے 24 لاکھ ڈالر کے عوض رہائی ملی

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2025

Getty Images

27 جنوری 2011 کی شام لاہور کے پرانی انارکلی تھانے میں ایک انوکھا منظر تھا جہاں دو نوجوانوں کے قتل کے الزام پر ایک غیر ملکی شخص سے تفتیش جاری تھی۔۔۔ آنے والے چند ہفتوں میں دن دہاڑے دہرے قتل کا یہ واقعہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی بحران کا باعث بننے والا تھا۔

یہ شخص ایک امریکی شہری ریمنڈ تھا اور جب تھانے میں تفتیش کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکی سفارتخانے کے لیے کام کرتے ہیں تو انھیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہاں اپنا اصل کام اور عہدہ سمجھا پانا ان کے لیے مشکل ہو گا۔

کچھ گھنٹے قبل ایک گاڑی میں موجود ریمنڈ ڈیوس نے مزنگ کے علاقے میں اپنی گلاک 17 آٹومیٹک پستول سے موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں محمد فہیم اور فیضان پر 10 راؤنڈ فائر کیے تھے۔

اپنی آپ بیتی 'دی کنٹریکٹر' میں ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ دوران تفتیش ان سے پوچھا گیا کہ وہ ’کس کے لیے کام کرتے ہیں؟ (امریکی) سفیر (کے لیے)؟‘

اس پر ریمنڈ ڈیوس نے اندر ہی اندر سوچا کہ ’شاید میرے اصل کام کا ذکر کرنا ٹھیک نہیں ہو گا۔‘ لہٰذا انھوں نے جواب میں محض ’کنسلٹنٹ‘ کہہ دیا۔

27 جنوری کو اپنی گرفتاری کے بعد ریمنڈ ڈیوس 49 روز تک پاکستان میں قید رہے۔ اس دوران یہ ایک بین الاقوامی خبر بن چکی تھی جس کے بارے میں صبح سے شام تک نہ صرف پاکستانی بلکہ بین الاقوامی اخبارات اور چینلز بھی رپورٹ کر رہے تھے۔

تاہم پھر 16 مارچ کو لاہور کی شرعی عدالت نے انھیں دیت کے تحت مقتولین کے ورثا کو 24 لاکھ ڈالر خون بہا ادا کرنے پر رہا کر دیا گیا۔

Getty Images’اگر وہ دباؤ ڈالیں تو کہنا میں سفارتکار ہوں‘

ریمنڈ ڈیوس اور ان کے شریک مصنف سٹارمز ریبیک نے بڑے ڈرامائی انداز میں جیل روڈ اور فیروز پور روڈ کے سنگم پر پیش آنے والے واقعے کی منظر کشی کی ہے، جس میں انھوں نے دو پاکستانی شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

وہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ جب وہ چوک میں ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے تو ان کی گاڑی کے آگے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد میں سے ایک نے پستول نکال کر ان پر تان لیا۔

ریمنڈ ڈیوس انتہائی تربیت یافتہ سکیورٹی کنٹریکٹر تھے اور انھوں نے ایسی ہی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی بارہا مشق کی تھی۔ انھوں نے فوراً اپنا پستول نکال کر اس کے میگزین میں موجود 17 میں سے دس گولیاں گاڑی کی ونڈ سکرین سے فائر کر کے ان دونوں موٹر سائیکل سواروں محمد فہیم اور فیضان حیدر کو ہلاک کر دیا۔

ریمنڈ ڈیوس کو ان دونوں کی ہلاکت کا ذرا بھی افسوس نہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’فیصلہ میں نے نہیں بلکہ محمد فہیم نے پستول نکال کر کیا تھا: اگر کوئی مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو (انھیں مار کر) میرا ضمیر صاف رہے گا کیوں کہ میرا اولین مقصد اپنے خاندان کے پاس واپس آنا ہے۔‘

ریمنڈ ڈیوس کو اسی دن گرفتار کر کے ان کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ اسی وقت لاہور میں امریکی قونصل خانے سے ایک گاڑی انھیں چھڑوانے کے لیے آئی تو اس نے سڑک کے غلط طرف گاڑی چلاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مار دی اور یوں اس واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد تین ہو گئی۔

ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انھیں گرفتار کر کے پہلے ایک فوجی چھاؤنی اور بعد میں لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا۔ جب امریکی سفارت خانے کو پتہ چلا تو انھوں نے ڈیوس کو رہائی دلوانے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔

یہ وہی زمانہ ہے جب امریکی حکام کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم ہو چکا تھا اور انھوں نے اسامہ کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر لیا تھا۔

امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ اگر اسامہ کے خلاف آپریشن ہوا اور اس دوران ڈیوس پاکستانی حراست میں رہے تو انھیں مار دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خود اس وقت کے صدر براک اوباما نے 15 فروری کو ریمنڈ ڈیوس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ہمارا سفارت کار ہے‘ اور انھیں ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔

مصنف شجاع نواز کے بقول ’ڈیوس کو صدر کے ذریعے سفارتکار کہلوا کر امریکہ نے بڑا خطرہ مول لیا تھا۔‘

وہ اپنی کتاب ’دی بیٹل فار پاکستان: دی بٹر یو ایس فرینڈ اینڈ اے ٹف نیبرہڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دستاویزات نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ ان کا وزارت خارجہ کی کسی فہرست میں بطور سفارتی عملہ اندراج نہیں تھا۔۔۔ امریکی سفارتخانے نے بعد میں اسے ایک بیوروکریٹک غلطی قرار دیا تھا۔‘

ریمنڈ ڈیوس کو ابتدائی طور پر لاہور کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد لاہور پولیس ٹریننگ کالج منتقل کر دیا گیا تھا۔

وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ انھیں لاہور میں دورانِ قید امریکی کونسل جنرل کارمیلا کانرائے نے کہا تھا کہ ’اگر آپ چاہیں تو انھیں کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ دباؤ ڈالیں تو کہنا آپ امریکی سفارتخانے کے لیے سفارتکار ہیں اور آپ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کو اسلام آباد میں سفارتی مشن کے حوالے کر دیا جائے۔‘

مگر ریمنڈ ڈیوس کے مطابق وہ پاکستان میں امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے اہلکاروں کی حفاظت پر مامور تھے۔ ’کیا اس سے مجھے سفارتکار کا درجہ مل سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔‘

ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کر رہے تھے؟

شجاع نواز کی کتاب ’دی بیٹل فار پاکستان‘ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس نے امریکی ریاست جارجیا میں امریکہ کی ایلیٹ سپیشل فورسز میں شمولیت کے لیے ٹریننگ کی تھی مگر پھیپھڑوں کی انجری اور معذوری کے باعث انھیں عارضی طور پر ریٹائر کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے وہ ملازمت چھوڑ دی اور سکیورٹی کنٹریکٹرز کی دنیا میں قدم رکھا۔

انھوں نے 2004 کے دوران افغانستان میں امریکی حکومت کے بڑے کنٹریکٹر ڈین کورپ انٹرنیشنل کے ساتھ پہلی اسائنمنٹ پر کام کیا۔ وہ صدر حامد کرزئی کے باڈی گارڈز کی ٹیم میں کام کرتے تھے اور ان کی یومیہ تنخواہ 600 ڈالر تھی۔

اس کے بعد وہ پاکستان میں بطور سکیورٹی کنٹریکٹر آئے اور پہلے پشاور میں اور اس کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے لیے کام کیا۔ وہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے ساتھ 2009 سے 2011 تک وابستہ رہے۔

شجاع نواز نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے نجی طور پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا سے یہ تصدیق کرنے کو کہا تھا کہ آیا ریمنڈ ڈیوس جاسوس ہیں تاہم پنیٹا نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی جس کے بعد یہ معاملہ عدالت تک پہنچا۔

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’دی کنٹریکٹر‘ کے مطابق ان کے پاس موجود گلاک 17 پستول، جی پی ایس، کیمرا، فون اور موٹرولا کا ٹو وے ریڈیو سبھی ان کی جگہ پہلے کام کرنے والے کنٹریکٹر کے استعمال میں رہے تھے۔

تاہم ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ وہ براہ راست امریکی حکومت کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان سے سکیورٹی خدمات کے ٹھیکے حاصل کرتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ماضی میں ان کی سپیشل فورسز سے وابستگی کے بارے میں پاکستانی حکام کو علم ہو کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ انھیں کسی جاسوس کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔

سنہ 2017 کے دوران نیو یارک ٹائمز کو دیے ایک انٹرویو میں ریمنڈ ڈیوس نے سی آئی اے کے لیے کام کرنے سے متعلق سوال پر کہا تھا کہ ’میرا کام سفارتخانے میں ہر کسی کو ضرورت کے تحت تحفظ فراہم کرنا تھا۔‘

جب امریکہ اور پاکستان آمنے سامنے آ گئےریمنڈ ڈیوس: ’جنرل صاحب امریکی سفیر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں بھیج رہے تھے‘پاکستانی سیاست میں ’جو ہوا امریکہ نے کیا‘ کی صدا کب اور کیوں بلند ہوئی؟امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟عدالت میں آخری پیشی اور رہائی

سب سے ڈرامائی دن مقدمے کا آخری دن تھا جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم کردہ خصوصی سیشن کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کی فردِ جرم عائد ہونا تھی۔

عدالتی کارروائی چونکہ اُردو میں ہو رہی تھی اس لیے ڈیوس کو کچھ خاص پتہ نہیں چلا لیکن درمیان میں وہاں موجود لوگوں کے ردِعمل سے پتہ چلا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ ڈیوس کے ایک امریکی ساتھی ’پال‘ وکیلوں کا حصار توڑ کر پنجرے کے قریب آئیں اور کہا کہ جج نے ’عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے۔‘

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ایک انٹرویو کے دوران انھیں بتایا تھا کہ انھوں نے دیت کے ذریعے اس معاملے کو سلجھانے کا مشورہ دیا تھا۔

ادھر ڈیوس کی کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔ یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔

یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ یہ رقم کس نے دی؟ اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کیا تھا کہ یہ خون بہا امریکہ نے ادا کیا ہے۔

جوں ہی یہ کارروائی مکمل ہوئی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا طیارہ رن وے پر اُن کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

جب امریکہ اور پاکستان آمنے سامنے آ گئےریمنڈ ڈیوس: ’جنرل صاحب امریکی سفیر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں بھیج رہے تھے‘امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟پاکستانی سیاست میں ’جو ہوا امریکہ نے کیا‘ کی صدا کب اور کیوں بلند ہوئی؟جمی کارٹر کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ اور ’مرجھائے تعلقات‘ سے اولین دوست بننے تک کا سفرپاکستان کو ملنے والی امریکی فوجی امداد جس نے انڈیا کو روسی ہتھیاروں کی جانب راغب کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More