تنہا وہ بھی ہیں تنہا یہ بھی ہیں، اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  Jan 30, 2025

احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کے رنگ کسی حد تک اثر انداز ہوئے مگر سرکاری بندوبست کی چولیں مکمل طور پر نہ ہل سکیں، مذاکرات کی رام کہانی چلی ہی تھی کہ رام  بگڑ گیا، کہانی بکھر گئی۔ پس پردہ ہیلو ہائے کے تانے بانے بھی بنتے بگڑتے رہے مگر بیل منڈے چڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

بین الاقوامی منظر نامہ بدلا تو کچھ لوگوں کو ہوا کپتان کے حق میں چلتی محسوس ہوئی، حق میں آوازیں لگیں، رہائی کی صدائیں بلند ہوئیں مگر یہاں بھی وقفہ سا آ گیا۔ دوسری جانب کبھی زور زبردستی سے مقبول جماعت کا بندوبست کیا جاتا رہا تو کبھی مذاکرات کے نام پر انگیجمنٹ سے جی بہلایا گیا۔ قانون سازی سے نفسیاتی برتری لی گئی تو کبھی عدلیہ کی بساط الٹ کر ترکیب لڑانے کی گنجائش ہی ختم کر دی گئی۔

اس بیچ روایتی اور غیر روایتی ابلاغ پر پیکا کا نفاذ ’میں نئی بولدی میرے اچ میرا یار بولدا‘ کے سلسلے کی تازہ کڑی تھی۔ سلسلہ ڈیڈ اینڈ تک جاتا دکھائی دیا تو ایک بار پھر راجدھانی کے قرب و جوار کے نیم ویرانوں میں درویش طبع صاحب علم سے رجوع کیا۔ خواہش تھی کہ حکمت والوں سے جانا جائے کہ آخر ہم کہاں آن پہنچے ہیں اور آگے کا رستہ کہاں رہ گیا ہے؟

رات کا پچھلا پہر تھا، راجدھانی کی یخ بستہ سرد رات کی خنکی دہکتے انگاروں سے قدرے کم ہو رہی تھی، بادیان کے خشک پھول، ادرک، الائچی اور شہد میں رچا قہوہ سفری تھکن میں کمال کی تراوٹ کا ساماں بپا کر رہا تھا۔ روایتی مہمانان چلتے بنے تو محفل انتہائی محدود افراد تک رہ گئی، عرض کی کہ قبلہ! طاقتور ترین اور مقبول ترین کا جوڑ کہاں تک پہنچا؟ انجام کیا ہوگا؟ وطن عزیز کب تک اس یدھ سے متاثر ہوتا رہے گا؟ کوئی بیچ کی راہ بھی نکلے یا نہیں؟

صحافیوں اور بالخصوص سیاستدانوں سے میلوں دور رہنے والے صاحب علم درویش مسکرائے، روایتی انداز میں گویا ہوئے، کہا؛ مقبول ترین سے انقلاب مینج نہیں ہو رہا اور طاقتور ترین سے طاقت۔ دونوں دراصل تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔

بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا

خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا

تنہائی میں وسوسے جنم لیتے ہیں، اگر مگر کی کہانیاں پنپتی ہیں۔ نت نئے فارمولوں کا خیال آتا ہے۔ دوستوں پر گمان اور دشمنوں پر مان سا گزرنے لگتا ہے۔ ایسے میں گھس بیٹھیے مشیران اصل فتنہ برپا کرنے کے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں۔ البتہ تنہائی میں خلوص کی یکتائی کے ساتھ یکسوئی بلاشبہ ایک عطا ہوا کرتی ہے۔  یہ جسے نصیب ہوئی وہی غالب ہوتا دکھائی دے گا۔

’پس پردہ روابط اب بیرسٹر اور گنڈا پور کی امانت ہیں۔‘ (فائل فوٹو)مذاکرات کے نام پر سجی گیم میں فریقین کی خواہش تھی کہ ساڈا بابا اُچا ہووے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوا۔ بدلتے اندرونی اور بیرونی منظر نامے میں فریقین بالخصوص سرکار کے لیے مذاکراتی گیم کا رچاؤ از حد ضروری تھا۔ دباؤ سے پہلے مذاکرات کی گیم لگی رہی تو دباؤ یقیناً تاثیر کھو بیٹھے گا۔  لیکن اس بیچ مقبول ترین کے باہر بیٹھے حامیوں کا سٹیج پلے متاثر ہو رہا تھا، جو کہانی وہ  ٹرمپ سرکار کے دیس میں بیان کرتے پھر رہے ہیں اس میں مذاکراتی گیم اور پس پردہ روابط کی تصدیق ہانیکارک ثابت ہو رہی تھی، ان کی کہانی کے لیے مذاکراتی عمل کا ہونا نقصان دہ ہے۔

اس کا ادراک سلاخوں کے پار بھی ہوا، آناً فاناً کہانی ختم شد کی ایک بنیادی وجہ یہ ادراک بھی تھا۔ پس پردہ مذاکرات میں ناکامی کی سکیم بھی اس انکار سے خاصی حد تک جڑی ہے۔ ایک مقبولیت کی بنیاد پر تو دوسرا طاقت کی بنیاد پر ’نیواں‘ ہونے کو تیار نہیں۔ اندر بیٹھا جانتا ہے کہ اس کے پاس کھونے کو مزید کچھ خاص نہیں رہا، ہر دو صورتوں میں اس کا مجسمہ ہیرو کا مجسمہ ہی کہلائے گا۔ اسے اب لیگیسی کی فکر زیادہ ہے۔اعصاب نہ ٹوٹنے کی صورت میں ایسے افراد یکسوئی اختیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب تک کا کھیلا گیا میچ اس دلیل کا واضح ثبوت ہے۔

پس پردہ روابط اب بیرسٹر اور گنڈا پور کی امانت ہیں، یہ روابط پہلے بھی کسی حد تک قائم تھے، اور اب مزید تواتر کے ساتھ قائم ہوں گے۔ تسلی بخش نتیجہ البتہ جلد نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ رابطہ کاروں کے بیچ صورتحال البتہ کچھ یوں ہے کہ؛

اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں

لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے

عرض کی کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس میں بھی تو تاخیر ہو چکی، مولانا سے کیا ملے گا اب؟ فرمایا؛ مولانا زیرک سیاستدان ہیں، حالیہ ملاقات میں تحریک انصاف کے دوست اس وقت حیران و ششدر رہ گئے جب مولانا نے پس پردہ روابط کی تفصیلات من و عن بیان کرتے ہوئے ذومعنی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا، ’زید تو کوئی بات نہیں ہوئی تھی؟‘

وفد، چپ سا ہو کر رہ گیا کہ جن روابط کو پس پردہ قرار دیا گیا، تفصیلات صرف چند افراد تک محدود تھیں ان کی مکمل تفصیل حضرت مولانا کے علم میں بھلا کیسے آئی؟ اس سے پہلے کہ مولانا سے استفسار کیا جاتا، وہ خود گویا ہوئے اور فرمایا: وہ ہمیں بھی باہم اطلاع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ہم بھی اسی میدان کے کھلاڑی ہیں۔ وفد لاجواب سا ہوا تو مولانا نے صورتحال واضح کر دی۔ دس فروری کو پشاور میں ہونے والے جرگے میں پی ٹی آئی کو دعوت  اور پھر فروری میں ہونے والی دو روزہ تحریک تحفظ آئین پاکستان میں مولانا کی شرکت۔ یہاں سے اعتماد سازی شروع ہوگی۔ مولانا نے البتہ بنا لگی لپٹی یہ بھی واضح کیا کہ گرینڈ الائنس ہو یا بیک ڈور روابط دونوں صورتوں میں اپوزیشن ایک پیج پر ہوگی تو ضمانت اور گارنٹی بہتر ہوگی۔

دو دن قبل مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی کے وفد نے ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)مولانا کے بقول ہر دو صورتوں میں کھیل کے نئے ضابطوں کا وقت ہوا چاہتا ہے، جس کے لیے اکیلے اکیلے واردات ڈالنے کا فائدہ ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کاوش میں یقیناً کردار پی ٹی آئی کا زیادہ اہم ہوگا اور وہ بھی عملی صورت میں۔ رہ گئی سرکار تو ان کی ضمانت لڑائی جاری رہنے میں ہی ہے۔ اننگز ان کی البتہ ہر حال میں آخری ہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بات مزید آگے بڑھتی، درویش نے دو سطروں میں کہانی سماپت کر دی۔

ہیں کشتگان صدا آخری کنارے پر

اے خامشی تری ترسیل ہونے والی ہے

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More