جب سے شام میں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور احمد الشرع نے ملک کی بطور عبوری صدر باگ ڈور سنبھالی ہے ، عرب مسلم اکثریتی ممالک متحرک ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو جب قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی دمشق پہنچے تو شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے ایئرپورٹ پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
یاد رہے کہ قطر نے شام کی 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران اپوزیشن کی حمایت کی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ شیخ تمیم کے دورے کے ذریعے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ قطر شام کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سیاسی تجزیہ کار اور مصنف خالد ولید محمود نے قطر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ شیخ تمیم کا دورہ علامتی اور تاریخی ہے۔ بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کسی عرب ملک کے حکمران کا یہ پہلا دورہ ہے۔
’اس دورے سے احمد الشرع کی قبولیت میں اضافہ ہو گا اور سفارتی تعلقات کی راہ ہموار ہو گی۔‘
قطر کے امریکہ اور ترکی دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ قطر کو مشرق وسطیٰ میں ثالث کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی سٹڈیز کے ایک محقق احمد قاسم حسین نے قطر نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’قطر کے امیر کا دورہِ دمشق ملک کی سیاست، معیشت اور سلامتی میں ان کے اہم کردار کی نشاندہی کرتا ہے۔‘
احمد الشرع سے ملاقات کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد نے کہا کہ میں دمشق میں پرتپاک استقبال اور مہمان نوازی پر اپنے بھائی اور صدر احمد الشرع کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور یہ بہت مثبت رہی۔ ہم شام کے روشن مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ شام کے لوگوں نے پچھلے چند سال میں بہت کچھ داؤ پر لگا دیا۔ ہم شامی عوام اور ان کے عزائم کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت محنت کریں گے۔‘
ادھر سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی الشرع کو عبوری صدر بننے پر مبارکباد دی۔
گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دمشق کا دورہ کیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب شام کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنے میں مدد کرے گا۔
شام کا کیا کہنا ہے؟
احمد الشرع کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں 2012 کا آئین معطل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسد حکومت کی پارلیمنٹ بھی تحلیل کر دی گئی۔
احمد الشرع نے کہا کہ ان کی ترجیحات ملک میں امن قائم کرنا، اداروں اورمستحکم معیشت کی تعمیر نو ہوں گی۔
الشرع شام میں نئے آئین کی منظوری تک ملک کی حکومت کے لیے ایک نئی قانون ساز کونسل تشکیل دے گے۔
’بلومبرگ‘ نے شام کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے لکھا کہ یہ ملک میں اقتدار کی پرامن منتقلی کی جانب ایک قدم ہے۔
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کی اینا جیکبز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’قطر کے امیر شام کی نئی حکومت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے دمشق پہنچے۔ وہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ مملکت ہیں۔ دوحہ نے اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے انکار کیا تھا اور پوری جنگ کے دوران شامی اپوزیشن کی حمایت کی۔‘
اپنے دورہ دمشق کے حوالے سے قطر کے امیر نے کہا کہ ’الشرع کے ساتھ شام میں تعمیر نو کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ملک میں سرمایہ کاری، بینکنگ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بحال کرنے پر بات ہوئی تاکہ شام کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا جا سکے۔ قطر اس کام میں شام کی مکمل مدد کرے گا۔‘
ماضی کے باغی اور جنگجو: وہ شخصیات جنھوں نے جنگ کا میدان چھوڑ کر سیاست کا میدان سنبھال لیامتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہحماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیامعمر قذافی: ’بادشاہوں کے بادشاہ‘ جن کا فاطمی خلافت قائم کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا
13 سال کی خانہ جنگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب قطر شامی حکومت سے تعلقات جوڑ رہا ہے۔ قطر نے 2011 میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد شام کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے بشار الاسد کے خاتمے کے بعد وہاں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا۔ اس کے بعد قطر سفارت خانہ کھولنے والا دوسرا ملک تھا۔
شیخ تمیم بن حمد الثانی سے قبل قطر کے وزیر اعظم نے بھی شام کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کا وعدہ کیا تھا۔
سعودی عرب شام کی کیسے مدد کر رہا ہے؟
’العربیہ‘ کے مطابق سعودی عرب نے بھی شام کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ الشرع کو عبوری صدر بننے پر مبارکباد دینے کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ اور شہزادے نے کہا کہ سعودی عرب شام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بھرپور مدد فراہم کرے گا۔
جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران سعودی عرب نے اپنے دارالحکومت ریاض میں شام کے لیے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
سعودی میڈیا کے مطابق اس میں اردن، لبنان، مصر، عراق اور ترکی کے علاوہ امریکہ برطانیہ، سپین، اٹلی، جرمنی، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔
شام جو اسد حکومت کے دور میں ایران اور روس کے قریب تھا، اب سعودی عرب اور مغربی دنیا کے قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب اس میں اس کی مدد کر رہا ہے۔
ریاض میں کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے شام پر سے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا موقف ہے کہ یہ پابندیاں شام کی ترقی میں رکاوٹ بنیں گی۔
اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے مغربی ممالک اور ان کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے 2011 میں شام پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔
اب یورپی یونین اور جرمنی کے نمائندوں نے شام پر عائد پابندیوں کے حوالے سے مثبت رویہ ظاہر کیا۔
سعودی عرب اور شام کے درمیان تعلقات بشار الاسد کی حکومت تک کافی اتار چڑھاؤ کا شکار تھے۔ جہاں اسد حکومت ایران اور روس کے قریب تھی وہیں سعودی عرب امریکہ اور مغربی ممالک کے قریب ہے۔
دوسری طرف، شام ایک سنی مسلم اکثریتی ملک ہے، جس پر حال ہی میں بشار الاسد کی حکومت تھی، جو علوی برادری سے آتے ہیں۔ یہ کمیونٹی شیعہ اسلام کی پیروی کرتی ہے۔
بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی تنظیم حیات التحریر الشام ایک سنی مسلم تنظیم ہے اور اس کے سربراہ احمد الشرع ہے۔
شام کے سابق حکمران بشار الاسد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے باغی گروپ حیات التحریر الشام نے شام کے 2012 کے آئین کو ختم کر دیا۔
شام کے سرکاری میڈیا نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اقتدار کی منتقلی کے اس دور میں احمد الشرع ملک کے صدر ہوں گے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اس عہدے پر کب تک رہیں گے۔
Getty Imagesشام کی صورتحال اب بھی غیر مستحکم
بلومبرگ کے مطابق شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ ملک میں باغی گروپوں کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے۔
حیات التحریر الشام نے ملک میں امن و امان کی بحالی اور تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ملک میں مختلف باغی گروپوں کی موجودگی نے اس کام کو مشکل بنا دیا۔
حیات التحریر الشام نے باغی گروپوں کو فوج میں ضم کرنے کے لیے کئی اجلاس منعقد کیے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں حالات بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔
تنظیم نے اسد حکومت میں شامل فوجیوں سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کرائیں۔ ان سے کہا گیا کہ وہ نئی طاقت سے وابستگی کا اظہار کریں۔
شام بھی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں مصروف ہے۔
شام کے نئے رہنما احمد الشرع بھی خبروں میں ہیں۔ انھوں نے اتوار کو لبنان کے نو منتخب صدر جوزف عون کو فون کیا اور انھیں مبارکباد دی۔ یہ فون کال اس وقت کی گئی جب لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی شام کے دارالحکومت کے دورے پر تھے۔
نجیب میقاتی نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے دمشق کا دورہ کیا۔ شام میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد لبنانی حکومت کے سربراہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔
پچھلی لبنانی حکومتوں نے شام کا دورہ کرنے سے گریز کیا کیونکہ شدت پسند گروپ حزب اللہ کو اسد حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
لبنانی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد احمد الشرع نے کہا کہ ملاقات میں غیر قانونی نقل مکانی اور سمگلنگ جیسے مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
شام کی خبر رساں ایجنسی نے الشرع کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر ان کا اقتدار رہا تو وہ لبنان کے ساتھ سرحد کو مکمل طور پر کھول دیں گے۔
ماضی کے باغی اور جنگجو: وہ شخصیات جنھوں نے جنگ کا میدان چھوڑ کر سیاست کا میدان سنبھال لیاوحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہحماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیامعمر قذافی: ’بادشاہوں کے بادشاہ‘ جن کا فاطمی خلافت قائم کرنے کا خواب ادھورا رہ گیابشار الاسد کے بعد روس ’شامیوں کے دل جیتنے‘ کے لیے نئی حکومت کو کیا پیشکش کر سکتا ہے؟