Reuters
یہ ایک غیر معمولی نظارہ تھا۔ سعودی عرب کے دارالحکومت میں ایک بند کمرے میں مزاکرات کی میز پر سینئر امریکی اور روسی حکام آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک جانب تین سینئر امریکی اہلکار، جن کے سامنے دو سینئر روسی حکام موجود تھے۔ دونوں کے بیچ دو سعودی حکام بیٹھے تھے۔
اور یہ مناظر یوکرین اور یورپ کے لیے تکلیف دہ تھے جن کے لیے یہ ایک بین الاقوامی ’سفارتی دھماکہ‘ تھا۔
اس بند کمرے سے سامنے آنے والی تصویر میں نظر آنے والے امریکی حکام میں سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو، نیشنل سکیورٹی مشیر مائیک والٹز کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن تیسری شخصیت غیر معروف تھی۔ یہ ٹرمپ کے ساتھ گولف کھیلنے والے سٹیو وٹکاف تھے جنھیں ٹرمپ نے خصوصی طور پر ریاض بھجوایا۔
روس کی جانب سے وزیر خارجہ کے علاوہ خارجہ امور پر پوتن کے مشیر یوری یشاکو شامل تھے جو ماضی میں امریکہ میں سفیر رہ چکے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ واشنگٹن سے کیسے بات کی جاتی ہے۔
اس اجلاس کی میزبانی کرنے والی دو سعودی شخصیات بھی اس تصویر میں دکھائی دے رہی ہیں جن میں وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور مشیر قومی سلامتی امور مساعد بن محمد العيبان شامل ہیں۔
سعودی عرب کے اس بند کمرے میں ماسکو نے کچھ بہت اہم حاصل کر لیا ہے۔ تین سال کی جنگ اور مغرب کی جانب سے تنہائی کا شکار رہنے کے بعد روس عالمی سفارت کاری کی سب سے بڑی اور اہم میز پر واپس موجود تھا۔ اور یہاں نہ تو یوکرین کی نمائندگی تھی اور نہ ہی یورپ کی۔
زیادہ تر دنیا میں ان مناظر کے بعد ایسا محسوس کیا گیا جیسے روس ہی تمام فیصلے کر رہا تھا۔ یوکرین میں اسی دوران جب فضا میں سائرن گونج رہے تھے، ماسکو شاید یہی تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ شکست خوردہ نہیں، اور نہ ہی مجبوری میں مزاکرات کی میز پر بیٹھا ہے۔ یہ ایسا تھا جیسے امریکہ نے جارحیت کرنے والے کو مدعو کیا کہ اپنی شرائط پیش کرے۔
یہ بات سچ ہے کہ امریکی حکام نے اس ملاقات سے قبل کہا تھا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا روس امن قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی نتائج اخذ کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جب انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات کی تو بعد میں انھوں نے اعلان کیا کہ روسی سربراہ چاہتے ہیں کہ ’اور لوگ نہ مریں۔‘ ٹرمپ جواب میں کہہ سکتے تھے کہ پوتن اپنے فوجیوں کو واپس بلائیں۔ لیکن وہ واضح طور پر ماسکو سے جنگ ختم کرنے کے لیے کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا تاکہ آگے بڑھا جا سکے۔
ریاض میں چار گھنٹے تک جاری رہنے والے مزاکراتی دور کے بعد امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو باہر نکلے اور انھوں نے اعلان کیا کہ مزاکرات کے پہلے قدم پر اتفاق ہو چکا ہے، اور دونوں اطراف اپنے وفود کو حتمی شکل دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس واقعی جنگ ختم کرنے کے لیے ایک سنجیدہ عمل کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
ادھر یوکرین کے صدر نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ان کو ریاض میں ہونے والے مزاکرات میں مدعو کیوں نہیں کیا گیا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ردعمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یوکرین ڈیل کر سکتا تھا۔‘ بظاہر وہ یوکرین پر ہی جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کر رہے تھے۔
مار اے لاگو میں جب بی بی سی نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ ان کا یوکرین کو کیا پیغام ہے تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ ’میں نے سنا ہے کہ وہ شرکت نہ کرنے پر پریشان ہیں، تو ان کے پاس تین سال تھے اور اس سے بھی پہلے بہت وقت تھا۔ یہ معاملہ بہت آسانی سے حل ہو سکتا تھا۔‘
ارب پتی ریئل اسٹیٹ ٹائیکون جنھیں ٹرمپ نے غزہ اور یوکرین جنگ ختم کرانے کی ذمہ داری دییوکرین جنگ: سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات، ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیپوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیا
ٹرمپ نے کہا کہ ’آپ کو اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ ڈیل کر سکتے تھے۔ میں یوکرین کے لیے ڈیل کر سکتا تھا جس سے ان کو سب کچھ مل جاتا، تقریبا ساری زمین، اور کوئی ہلاک نہ ہوتا، کوئی شہر تباہ نہ ہوتا۔‘
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ریاض میں ہونے والی ملاقات کے بعد وہ ’بہت پراعتماد‘ ہیں۔ ’بہت اچھی بات چیت رہی۔ روس کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ بربریت کو روکنا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرے پاس اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت ہے۔‘
لیکن امریکہ کو روس کی جنگ ختم کرنے میں دلچسپی پر اتنا یقین کیوں ہے؟
ریاض کے اس بند کمرے میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاورو بیٹھے تھے جن پر امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ روسی وزیر خارجہ صحافیوں کے سامنے آئے تو انھوں نے کہا کہ امریکہ نے تجویز دی ہے کہ توانائی سے منسلک انفراسٹرکچر پر حملے روک دیے جائیں۔
ان کا جواب تھا کہ ’ہم نے وضاحت کی کہ ہم نے کبھی بھی عام شہریوں کی توانائی کی رسد کو خطرے میں نہیں ڈالا اور صرف ان تنصیبات کو نشانہ بنایا جو یوکرین کی فوج کے کام آ رہی تھیں۔‘
لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ میں خود ان جوہری کارخانوں کے کھنڈرات کو دیکھ چکی ہوں جنھیں روسی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکہ ایسے ملک سے بات چیت کر رہا ہے جس کے حوالے سے واضح شواہد موجود ہیں کہ اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
Getty Images
روس نے کسی قسم کی پسپائی کا عندیہ بھی نہیں دیا۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں نیٹو افواج کی تعیناتی کے مخالف ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب برطانیہ نے بھی بیان دیا ہے کہ اس کی افواج یوکرین میں تعیناتی کے لیے تیار ہیں۔
روس کو پیچھے ہٹنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ ٹرمپ انتظامیہ تسلیم کر چکی ہے یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا، جیسا کہ ماسکو کا مطالبہ رہا ہے۔ اور اسی لیے یوکرین کے اتحادیوں کو اس چمکتی ہوئی میز کے گرد بیٹھے لوگوں کی تصویر سے ہی جھٹکا نہیں پہنچا بلکہ اس بات سے بھی کہ وہ کیسے بات کر رہے تھے۔
مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے بات چیت سے ایسے لگتا ہے جیسے پابندیاں ہٹانے کا وعدہ ہو یعنی روس کو جارحیت کا انعام ملے گا، سزا نہیں۔
اگرچہ ماسکو میں حکام اور میڈیا یہ سمجھ رہا ہے کہ روس اسی مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے یعنی برابری کی سطح پر امریکہ کے ساتھ لیکن بہرحال یہ ابتدائی دن ہیں۔
بی بی سی کے بین الاقوامی مدیر جیریمی براؤن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو لگتا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے اصولوں کے تحت ایک جنگ ختم کی جا سکتی ہے لیکن ان کو علم ہو گا کہ امن قائم کرنا جنگ بندی حاصل کرنے سے زیادہ پیچیدہ کام ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ طے کرنا کہ زمین کا کتنا حصہ کس کے پاس رہے گا۔
جیریمی براؤن کے مطابق پوتن واضح کر چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی خود مختاری توڑنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کی کانفرنس کی میز پر چاہے یوکرین کے صدر زیلینسکی کو جگہ ملے یا نہ ملے، وہ کبھی بھی اس پر راضی نہیں ہوں گے۔ اسی لیے دیرپا امن قائم کرنے کا عمل طویل اور سست رفتار ہو گا۔
ارب پتی ریئل اسٹیٹ ٹائیکون جنھیں ٹرمپ نے غزہ اور یوکرین جنگ ختم کرانے کی ذمہ داری دییوکرین جنگ: سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات، ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟پوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیاافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیجب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایاٹرمپ کا انڈیا کو ’ایف 35 سٹیلتھ‘ طیارے دینے کا عندیہ:دنیا کے سب سے بہترین اور مہنگے طیارے میں خاص کیا ہے؟