"میں روزانہ کی ذہنی اذیت برداشت نہیں کر پا رہی۔ نہ جانے کس سے کہوں، سب یہی کہتے ہیں کہ سمجھوتا کرو، زندگی ایسے ہی چلتی ہے، لیکن کوئی میری تکلیف کو نہیں سمجھتا۔ میرے اردگرد سب اداکاری کر رہے ہیں، اور میں خود کو سمجھ نہیں پا رہی کہ کیوں خاموش ہوں یا کیوں ایسی ہو گئی ہوں۔"
“میں اپنی باقی زندگی آپ سب پر بوجھ بن کر نہیں گزارنا چاہتی۔ اس بار میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ مجھے یہ زندگی پسند نہیں۔ یہ لوگ مجھے ذہنی طور پر اذیت دیتے ہیں اور وہ (شوہر) جسمانی تشدد کرتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہو چکی ہے۔ آپ اور امی میری دنیا تھے، آخری سانس تک میرا سہارا رہے، لیکن میں نے آپ کو بہت دکھ دیا۔ آپ کھل کر کچھ کہہ نہیں پا رہے، لیکن مجھے اندازہ ہے کہ آپ کتنے تکلیف میں ہیں۔ مجھے معاف کر دینا بابا۔ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، میں جا رہی ہوں۔"
تامل ناڈو کے ضلع تروپور سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ ریدھیانا نے صرف دو ماہ کی شادی شدہ زندگی کے بعد اپنی جان لے لی۔ یہ کہانی کسی فلم کا منظر نہیں بلکہ جہیز کے بھوت کی بھیانک حقیقت ہے جو آج بھی ہمارے معاشرے کو نگل رہا ہے۔
ریدھیانا کے والد انادورائی کا شمار کامیاب گارمنٹس کاروباری افراد میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کی، جس پر تقریباً 2.5 کروڑ روپے خرچ کیے۔ جہیز میں 800 گرام سونا، ایک 70 لاکھ روپے کی ولوا کار اور تقریباً 300 تولے سونا دیا۔ اس کے علاوہ مزید 200 تولے سونے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔
لیکن شادی کے صرف دس دن بعد ہی حالات بگڑنے لگے۔ سسرال والوں نے ریدھیانا پر مزید جہیز کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق، اسے گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا، ذرا سی بات پر سزا دی جاتی، اور شوہر کی طرف سے جسمانی تشدد کیا جاتا۔ دباؤ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ 29 جون 2025 کو ریدھیانا نے کہا کہ وہ مندر جا رہی ہے، اور گھر سے نکل گئی۔
راستے میں اس نے اسٹور سے زہریلا مواد خریدا، اور ایک ویران علاقے میں کار روک کر خودکشی کر لی۔ جب گاڑی طویل وقت تک وہیں کھڑی رہی تو مقامی افراد نے پولیس کو اطلاع دی۔ موقع پر پہنچنے پر پولیس کو گاڑی کے اندر سے ریدھیانا کی لاش ملی، جس کے منہ سے زہریلے مادے کے اثرات واضح تھے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق، اپنی موت سے پہلے ریدھیانا نے اپنے والد کو سات آڈیو وائس میسجز بھیجے۔ ان میں اس نے اپنے سسر، ساس اور شوہر کو اس انتہائی قدم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس نے بتایا کہ اس کا شوہر اسے دھمکیاں دیتا تھا کہ اگر اس نے کسی کو ظلم کی کہانی سنائی تو وہ خودکشی کر لے گا۔ وہ ذہنی اور جسمانی تشدد سے اس قدر تنگ آ چکی تھی کہ اسے لگنے لگا تھا کہ اس کے لیے جینے کا کوئی مطلب نہیں بچا۔
ایک نظام جو بیٹیوں کو تحفہ نہیں، بوجھ سمجھتا ہے
اتنی مہنگی شادی، اتنا قیمتی جہیز، اور پھر بھی بیٹی کی عزت اور زندگی محفوظ نہ ہو سکی۔ ریدھیانا کی کہانی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کسی غریب کی بیٹی نہیں تھی، لیکن ظلم کا سامنا اُسے بھی ویسے ہی کرنا پڑا جیسے ہزاروں اور بیٹیوں کو ہوتا ہے۔