ایئر انڈیا کے طیارے کی تباہی: تفتیش کاروں نے ’تخریب کاری‘ کے امکان کو مسترد نہیں کیا

اردو نیوز  |  Jun 29, 2025

انڈین وزیر برائے ایوی ایشن نے کہا ہے کہ ایئر انڈیا کے طیارے کے کریش کے حوالے سے تفتیش کاروں نے تخریب کاری کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق 12 جون کو ایئر انڈیا کا گجرات کے احمد آباد ایئرپورٹ سے لندن جانے والا طیارہ اڑان بھرنے کے چند ہی سیکنڈ بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں کم سے کم 260 افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ حکام نے طیارے کے بلیک باکس کا معائنہ بھی شروع کر دیا ہوا ہے۔

وزارت ایوی ایشن نے تصدیق کی ہے کہ تفتیش کاروں نے حادثے کی جگہ سے بلیک باکس کے دونوں حصے، کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر، برآمد کر لیے ہیں اور انہیں گذشتہ ہفتے نئی دہلی میں ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو میں لایا گیا۔

وزیر مملکت برائے ایوی ایشن مرلی دھر موہول نے سنیچر کی شام این ڈی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’ابھی تفتیش جاری ہے۔ لیکن یہ ایک انوکھا واقعہ ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ دونوں انجن ایک ہی وقت میں بند ہوئے ہوں۔‘

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں ’تخزیب کاری‘ کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

مرلی دھر موہول کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کی ہر زاویے سے تفتیش کر رہے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ حادثے کی وجہ کیا تھی۔‘

’ہم احمد آباد (ایئرپورٹ) کی گذشتہ 30 دنوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھ رہے ہیں، جو مسافر آئے، جو سکریننگ سے گزرے، تمام پاسپورٹ دیکھ رہے ہیں، ہم تمام زاویوں سے اس کی جانچ کر رہے ہیں۔‘

12 جون کو ایئر انڈیا کا گجرات کے احمد آباد ایئرپورٹ سے لندن جانے والا طیارہ اڑان بھرنے کے چند ہی سیکنڈ بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)بلیک باکس کا ڈیٹا بھی ریکور کر لیا گیا ہے اور حتمی رپورٹ تین مہینوں میں آنے کی توقع ہے۔

وزیر مملکت برائے ایوی ایشن نے کہا کہ ’کیا یہ پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے تھا، کیا انجن میں کوئی تکنیکی مسئلہ تھا، کیا ایندھن کی فراہمی میں کوئی مسئلہ تھا، دونوں انجن ایک ہی وقت میں کیوں بند ہوئے؟ اس سب کا تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More