کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع بارکھان میں نامعلوم مسلح افراد نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب رڑکن کے علاقے میں سات مسافروں کو بس سے اتار کر ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
بی ایل اے نے دعوی کیا ہے کہ ان تمام افراد کو شناخت کے بعد مارا گیا کہ ان کا تعلق پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔
بی ایل اے کی طرف سے جاری کردہ تحریری بیان کے مطابق انھوں نے اپنے انٹیلیجنس ونگ کی اطلاعات پر بارکھان میں ٹارگٹڈ آپریشن کر کے ان افراد کو نشانہ بنایا ہے۔
’پنجاب سے کوئٹہ والدہ کا غم بانٹنے آنے والے قریبی رشتہ داروں کے بھی ہمیں جنازے اٹھانے پڑے‘
بارکھان میں مارے جانے والے دو مسافروں میں سے محمد عاشق کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اسد عباس کے ماموں جبکہ شوکت عالی ان کے خالو تھے۔
اسد عباس نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ چند روز بیشتر فوت ہوگئی تھیں جس پر ماموں اور خالو کے بہت سارے دیگر رشتہ دار ہمارے غم بانٹنے کے لیے پنجاب سے کوئٹہ آئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ فاتحہ خوانی کے بعد رشتہ داروں میں چھ سات ٹرین میں چلے گئے جبکہ ماموں اور خالو سمیت دو خواتین رشتہ دار ہمارے اسرار پر چند دن رکنے پر آمادہ ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ رات کو دونوں اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ وہ رکیں گے لیکن صبح انھوں نے کہا کہ یہاں ان کا دل نہیں لگ رہا ہے اس لیے وہ مزید نہیں رکیں گے بلکہ واپس جائیں گے۔
انھوں نے کہا ’چونکہ کل کے لیے ان کے لیے ٹرین کی ٹکٹ لینا ممکن نہیں تھا جس پر ہم نے ان کے لیے بس کا ٹکٹ لیا لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بس کا سفر ہمارے خاندان کو ایک اور بڑے سانحہ سے دوچار کرے گا'۔
اسد عباس نے کہا کہ دونوں رشتہ داروں کی اس واقعے میں ہلاکت ہمارے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہے کیونکہ ابھی والدہ کی وفات کا غم تازہ تھا کہ ماموں اور خالو بھی ہم سے بچھڑ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے خالو شوکت علی کا ایک ہی بیٹا ہے اور ان کی والدہ چند ماہ قبل فوت ہوگئی تھیں۔ خالو کا بیٹا والدہ کی وفات کے صدمے سے نہیں نکلے تھے کہ اب بارکھاں میں ان کے والد کو مارا گیا‘۔
اسد عباس نے کہا کہ بارکھان کے واقعے نے ہمارے خاندان کو بہت بڑے غم سے دوچار کیا۔
'میرے بھائی کو میری آنکھوں کے سامنے دیگر سات افراد کے ہمراہ بس سے اتار کر مارا گیا'
’میں اور میرا بھائی بس میں پنجاب میں بورے والا جا رہے تھے۔ میرے بھائی عدنان کو میری آنکھوں کے سامنے دیگر سات افراد کے ہمراہ بس سے اتارا گیا اور گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔‘
یہ الفاظ عدنان مصطفیٰ کے بھائی ذیشان مصطفیٰ کے ہیں۔ عدنان ان سات افراد میں شامل ہیں، جنھیں بلوچستان کے ضلع بارکھان میں نامعلوم مسلح افراد نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب رڑکن کے علاقے میں مسافر بس سے اتار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ذیشان مصطفیٰ نے بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رکھنی میں میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ بس سے اتارنے سے پہلے ان افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو شناخت کیا گیا۔
ذیشان کے مطابق ’انھوں نے سب کا شناختی کارڈ مانگا۔ میرا شناختی کارڈ انگلش میں تھا تو انھوں نے مجھے واپس کر دیا اور بھائی کا شناختی کارڈ مانگا تو اس نے کہا میرے پاس نہیں۔ اس کو اتار کر نیچے لے گئے اور پھر فائرنگ کی آواز آئی۔ بندے نکال نکال کر انھوں نے گولیاں مارنا شروع کر دیں۔‘
ان کے مطابق ’ان دہشت گردوں نے کلاشنکوف اٹھا رکھی تھیں، ٹوپیاں اور جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ تعداد میں 10 سے 12 تھے۔‘
ڈپٹی کمشنر بارکھان وقار خورشید نے بی بی سی بتایا کہ جس بس سے بارکھان میں مسافروں کو اتارکر ہلاک کیا گیا وہ کوئٹہ سے پنجاب جا رہی تھی۔
اسسٹنٹ کمشنر بارکھان خادم حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ضروری قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہلاک ہونے والے تمام افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئیں۔
ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت عاشق حسین، عاصم علی، عدنان مصطفیٰ، محمد عاشق، محمد اجمل، صفیان اور شوکت علی کے ناموں سے ہوئی۔
ان میں سے عاصم علی کا تعلق لاہور، عدنان مصطفیٰ کا بورے والا، محمد عاشق کا شیخوپورہ جبکہ صفیان اور شوکت علی کا تعلق فیصل آباد سے ہے ۔
عاشق حسین کوئٹہ پولیس میں فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور وہ ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نہتے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانے بنانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔‘
رواں سال ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان اہم قومی شاہراہ پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا سنگین واقعہ ہے جس کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔
’شناخت کے بعد دھکے دے کر بس سے اتارا گیا‘
اسی بس میں سفر کرنے والی ایک خاتون کے بھائی بھی اس حملے میں نشانہ بن کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس خاتون نے مقامی میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ کوئٹہ سے بس میں اپنے گھر فیصل آباد جا رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بھابی کی وفات کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس کوئٹہ گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد بس میں داخل ہوئے اور لوگوں کے شناختی کارڈز دیکھنا شروع کیے۔ میرے بڑے بھائی سمیت جن لوگوں کو شناخت کیا گیا ان کو دھکے دے کر بس سے باہر اتارا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مسلح افراد نے بھائی اور دیگر افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔‘
دوسری جانب ذیشان مصطفیٰ کا دعویٰ ہے کہ ’باقی مسافروں کو انھوں نے کچھ نہیں کہا بلکہ ساتوں کے ساتوں جو پنجابی تھے ان کو اتارنے کے بعد گولیاں ماریں۔‘
’صرف ایک بس کو روکا گیا‘AFP(فائل فوٹو)
ان مسافروں کی ہلاکت کا واقعہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان اہم قومی شاہراہ پر ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میں پیش آیا۔
بارکھان میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئٹہ سے آنے والی نجی کمپنی کی ایک مسافر بس رات ساڑھے دس بجے کے قریب رڑکن کے علاقے میں پہنچی تو مسلح افراد نے اسے روک لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں صرف ایک ہی بس کو روکا گیا۔
ڈپٹی کمشنر بارکھان وقار خورشید نے فون پر بتایا کہ اس علاقے میں پہلے نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے کوئٹہ سے لاہور جانے والی مسافر بس کو روکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بس کے رکنے کے بعد مسلح افراد نے شناخت کے بعد سات افراد کو اتارا اور پھر ان کو گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد لگ بھگ 15منٹ تک جائے وقوعہ پر رہے اور سات مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعد پہاڑوں کی جانب فرار ہوگئے ۔
لیویز فورس کے اہلکار نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد پنجاب اور بلوچستان کے درمیان اس شاہراہ پر دونوں اطراف سے ٹریفک کو روک دیا گیا تاہم صبح تمام گاڑیوں کو جانے دیا گیا۔
چلاس میں بس پر فائرنگ: ’اگر ڈرائیور نے بہادری سے کام نہ لیا ہوتا تو بس دریا میں جا گرتی‘قلات میں بی ایل اے کا حملہ: منگیچر میں جمعے کی شب کیا ہواگوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟کراچی یونیورسٹی دھماکے کی ابتدائی رپورٹ میں خودکش جیکٹ استعمال ہونے کی تصدیق رواں سال میں بسوں سے اتار کر ہلاک کرنے کا پہلا بڑا واقعہ
بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے کے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن رواں سال یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات میں31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب مسلح افراد کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پنجگور سے آنے والی ایک مسافر کوچ پر فائرنگ سے 17سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں بارکھان سے متصل ضلع موسیٰ خیل میں ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان شاہراہ پر مختلف گاڑیوں سے 22 مسافروں کو اتار کر انھیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ان میں سے دو کا تعلق بلوچستان جبکہ باقی تمام لوگوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔
جبکہ گزشتہ سال اپریل میں نوشکی میں کوئٹہ اور تفتان کے درمیان شاہراہ پر ایک بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافر وں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔
بارکھان کہاں واقع ہے؟
ضلع بارکھان بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مشرق میں اندازاً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس ضلع کی جنوب اور جنوب مشرق میں سرحدیں بلوچستان کے شورش سے متاثرہ دو اضلاع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے لگتی ہیں۔ شمال مشرق میں بارکھان کی سرحد پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے متصل ہے۔
اس ضلع کے بیشتر علاقے دشوارگزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کی آبادی کی غالب اکثریت کھیتران قبائل پر مشتمل ہے جبکہ اس کے سرحدی علاقوں میں مری اور بگٹی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔
بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے بارکھان کے بعض علاقوں میں بھی سنگین بد امنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم سرکاری حکام کے مطابق سکیورٹی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں اب حالات وہاں بہتر ہیں۔
نوشکی بس حملے میں نو افراد ہلاک: ’سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہے وہ باہر آ جائے‘خوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘’بچہ کہتا رہا میرے پاپا نہیں آئے‘: بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے کیا دیکھابلوچستان میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملہ کرنے والی ماہل بلوچ شدت پسند تنظیم کا حصہ کیسے بنیں؟’بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں 39 ہلاکتیں، جوابی کارروائیوں میں 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک‘پنجابی مزدور، پنجابی دانشور