سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار استعمال کر سکتی ہیں؟۔
سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کر سکتیں، دیکھنا یہ ہے آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، ملزم کے اعتراف کیلئے سبجیکٹ کا ہونا ضروری ہے،ایف بی علی نے واضح کیا ،ٹو ون ڈی والے 83 اے میں نہیں آتے، آرمی ایکٹ کا تعلق صرف ڈسپلن سے ہے۔
سپریم کورٹ میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس، وکلا کی غیر حاضری، عدالت برہم
جسٹس امین الدین نے کہا کہ شق سی کے مطابق جو ملازمین آتے ہیں وہ حلف نہیں لیتے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ شق سی والوں کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتے، کورٹ مارشل آفیسرز کا ہوتا ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ جرم کی نوعیت آرمڈ فورسز ممبرز بتائیں گے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، آئین بننے سے پہلے کے قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے، سویلینز کا ٹرائل صرف 175کے تحت ہی ہو سکتا ہے، فوجی عدالتیں 175 سے باہر ہیں، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔
ورک پلیس پر ہراسگی عالمی مسئلہ ہے، سپریم کورٹ
جسٹس جمال نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سیکشن ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا ؟ اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جا سکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگرچہ مارشل لا میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں آئین کا آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف آئین کا آرٹیکل 175 کے تحت ہی ہوسکتے ہیں، فوج آئین کے آرٹیکل 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔
سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، آئینی بینچ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا (3) 8 کے مقصدرکیلئے بنائی گئی عدالتیں ٹرائل کر سکتی ہیں؟ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں،کیا ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار استعمال کر سکتی ہیں؟۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔