امریکہ سے بے دخل ایشیائی تارکین کا گروپ کوسٹاریکا میں، ’ایک ماہ رہنے کی اجازت‘

اردو نیوز  |  Feb 21, 2025

وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا کی حکومت نے کہا ہے کہ امریکہ سے بے دخل کیے گئے ایشیائی تارکین وطن کا پہلا گروپ پہنچ گیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان تارکین وطن میں زیادہ تر کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ یہ اقدام واشنگٹن سے کیے گئے ایک معاہدے کا حصہ ہے، جس کے تحت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 200 غیرقانونی تارکین وطن کو عارضی طور پر پناہ دی جائے گی۔

یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں، جس میں وہ ممالک شامل ہیں جو امریکہ کے ساتھ مل کر غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ان ممالک کے لیے پروازوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔

امریکہ سے بھیجے گئے تارکین وطن کو سان ڈیاگو سے کوسٹا ریکا کے دارالحکومت سان ہوزے لے جایا گیا، جہاں سے انہیں بس کے ذریعے پاناما کی سرحد کے قریب تارکین وطن کی ایک پناہ گاہ میں رکھا گیا۔

سان ہوزے ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں نائب وزیر داخلہ عمر بادیلا نے کہا کہ ان تارکین وطن کو کوسٹا ریکا میں ایک مہینے تک رہنے کی اجازت دی جائے گی، اور اس دوران حکام ان کے اپنے ملکوں میں رضاکارانہ واپسی کے انتظامات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ان میں سے زیادہ تر اپنے ملکوں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ جو لوگ واپس نہیں جانا چاہتے، ان کے کیسز کو دیکھا جائے گا۔‘

یہ گروپ جو خاندانوں پر مشتمل ہے، ازبکستان، چین، آرمینیا، ترکیہ، افغانستان، روس، جارجیا، ویتنام، آذربائیجان، ایران، اردن، قازقساتان اور گھانا سے رکھتا ہے۔

پاناما کے بعد ہندوراس اور کوسٹا ریکا بھی تارکین وطن بھیجے گئے۔ (فوٹو: روئٹرز)صدر رودریگو چاوز نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے ملک بدر کیے گئے مختلف ممالک کے 200 تارکین وطن کو کوسٹا ریکا بھیجے جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے کوسٹا ریکا کی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کا خطرہ ہے۔

جمعرات کو امریکی حکام نے وینزویلا کے 177 تارکین وطن کو گوانتاناموبے سے ہندوراس بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم ان کو بعد میں وینزویلا بھیج دیا جائے گا۔

دوسری جانب پاناما کی حکومت نے کہا ہے کہ امریکہ سے بے دخل تین تارکین وطن نے پناہ کی درخواست دی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان کو کینیڈا جیسے دوسرے ملک میں پناہ ملے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More