’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ تھا‘: افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کا ملک سے ’فلمی فرار‘

بی بی سی اردو  |  Feb 21, 2025

’میرے واپس آنے تک کچھ مت کرنا۔‘ میل جونز اس دن ٹی وی پر کمنٹری میں مصروف تھیں لیکن دوسری جانب اسی دوران وہ فرار کی ایک بڑی کوشش کے منصوبے کی سرپرستی بھی کر رہی تھیں۔

فرار کے اس منصوبے کے تحت ایک پوری کرکٹ ٹیم کو ایک ملک سے نکالا جانا تھا۔ یہ ٹیم تھی افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم جو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا شکار تھی۔

آسٹریلیا کی سابق سٹار کرکٹر میل جونز ان تین خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے 2021 میں افغان کرکٹ ٹیم کو ملک سے فرار ہونے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف مالی امداد فراہم کی بلکہ اس پوری کارروائی کا انتظام بھی سنبھالا۔ ان کے مطابق ’یہ سب کسی جاسوسی فلم جیسا تھا۔‘

افغانستان سے فرار ہونے والی اس ٹیم کی اراکین اب آسٹریلیا میں ہیں جن میں سے ایک فیروزہ امیری ہیں۔ فیروزہ کو یاد ہے کہ فرار ہونے کے دوران ان کی گاڑی کو آٹھ مختلف ناکوں پر روکا گیا تو کیسے وہ خوف میں مبتلا ہو جاتی تھیں۔

وہ آج تک یہ نہیں سمجھ پائیں کہ کیسے ان کے سارے بہانے اس دن کام کر گئے۔ کہیں انھوں نے جھوٹ بولا کہ وہ ایک شادی میں شرکت کے لیے جا رہی ہیں تو کہیں انھوں نے بہانہ بنایا کہ وہ اپنی والدہ کو علاج کے لیے پاکستان لے کر جا رہی ہیں۔ فیروز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ تھا۔‘

ساڑھے تین سال بعد جب یہ کھلاڑی میلبورن میں افغانستان کی خواتین ٹیم کی حیثیت سے جلا وطنی میں پہلا میچ کھیلنے میدان میں اتریں تو میل جونز بھی تماشائیوں میں موجود تھیں۔ لیکن اس ٹیم کو آئی سی سی افغانستان کی قومی ٹیم تسلیم نہیں کرتی۔

کرکٹس فارگاٹن ٹیم یعنی کرکٹ کی بھلا دی جانے والی ٹیم کے نام سے ایک دستاویزی فلم میں بی بی سی نے ان کھلاڑیوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کابل سے کیسے فرار ہوئیں۔

’میں نہیں جانتی تھی کہ ہم زندہ رہیں گے یا مر جائیں گے‘

اگست 2021 کے اس دن میں فیروزہ اپنے گھر پر قہوہ پی رہی تھیں جب انھیں اطلاع ملی کہ طالبان لوٹ آئے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ انھیں اس لمحے میں ’احساس ہو گیا تھا کہ پوری ٹیم کو ملک چھوڑنا پڑے گا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والدین نے طالبان کا پہلا دور دیکھا تھا اور وہ جانتے تھے کہ لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو گا۔‘

’میں نہیں جانتی تھی کہ اب کیا ہو گا، ہم زندہ رہیں گے یا مر جائیں گے۔‘ فیروزہ نے اسی خوف میں سب کچھ جلا ڈالا۔ ’اپنے سرٹیفیکیٹ، میڈل، کچھ بھی نہیں بچا۔‘

واضح رہے کہ افغانستان میں خواتین کے یونیورسٹی جانے سمیت کھیلوں میں حصہ لینے اور پارک میں جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔

فیروزہ کی ٹیم میں ناہیدہ بھی ایک کھلاڑی تھیں۔ ان کا یاد ہے کہ کیسے طالبان ان کے گھر انھیں تلاش کرتے ہوئے پہنچے۔

’میرا بھائی گھر سے باہر نکلا تو طالبان میں سے ایک نے پوچھا تم کسی کرکٹ کھیلنے والی لڑکی کو جانتے ہو؟ ہمارا خیال ہے وہ یہیں رہتی ہے۔ میرا بھائی ڈر گیا۔ میرے پاس پوری ٹیم کی سکور بک تھی۔ میں نے اس کے صفحے پھاڑ کر وہ جلا دی۔‘

ناہید کے بھائی طالبان کے برسراقتدار آنے سے پہلے افغانستان کی حکومت میں کام کرتے تھے۔ ناہید بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کو دھملیاں ملنے لگیں۔ ’انھوں نے کہا ہم تمھیں تلاش کر لیں گے اور تمھیں زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اگر تم میں سے ایک بھی مل گیا تو باقی سب کو بھی ڈھونڈ لیں گے۔‘

انھیں ایک محفوظ مقام کی اشد ضرروت تھی اور یہ محفوظ مقام ایک ایسے ذریعے سے مل گیا جس کی ان کو توقع بھی نہیں تھی۔

فلمی کہانی جیسا فرار

کابل سے ہزاروں میل دور میل جونز ایک ہوٹل میں موجود تھیں جب انھیں ایک انڈین صحافی کا پیغام ملا کہ کیا انھوں نے افغان ٹیم کی صورت حال کے بارے میں سنا ہے۔ اس صحافی نے ہی میل جونز کا رابطہ ایک افغان کھلاڑی سے کروایا جس نے کہا کہ ان کی پوری ٹیم ملک سے نکلنا چاہتی ہے۔

میل جونز، جو آسٹریلیا کی دو ورلڈ کپ فتوحات کا حصہ رہ چکی ہیں، نے اپنی دوست ایما سٹیپلز اور ڈاکٹر کیتھرین کی مدد لی۔

ان چند افراد نے مل کر رضاکاروں کی ایک ٹیم بنائی جس نے ویزا کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ 120 لوگوں کو ملک سے باہر نکانے کے انتظامات کیے پہلے پاکستان اور پھر دبئی جہاں سے میلبورن کی پرواز کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنا تھا۔ اس پورے عمل کو آسٹریلیا کی حکومت کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔

افغانستان میں خواتین کی آواز اور مردوں کے ’غیر شرعی‘ بالوں سے متعلق طالبان کی نئی کڑی پابندیاںکم خرچ میں بہتر نتائج دینے والے ’مِسٹری سپنرز‘: کابل کی وہ خاص بات جو معیاری سپنرز پیدا کر رہی ہےدلکش نظارے، سستی سیر اور طالبان: افغانستان میں غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کیوں بڑھ رہی ہے؟سرینا ہوٹل کا انتظام طالبان کے پاس: کابل میں واقع وہ لگژری ہوٹل جس کی خونیں تاریخ میں خود طالبان نے بھی حصہ ڈالا

لیکن یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔ ایما کہتی ہیں کہ چھ ہفتوں تک وہ افغان کھلاڑیوں کی معلومات لیتے رہے۔ ’یہ بہت مشکل کام تھا۔‘

52 سالہ میل جونز کہتی ہیں کہ ’ایسے لمحات بھی آئے جب یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا منصوبہ کامیاب ہو گا بھی یا نہیں۔ ہم ایک ایسے نظام سے لڑ رہے تھے جہاں سب یہ کہتے کہ یہ ناممکن ہے۔‘

’ایسے لمحات بھی آئے جب ہمیں محسوس ہوا کہ ہم کسی جاسوسی فلم میں ہیں۔‘ انھوں نے وہ لمحہ یاد کیا جب ایک جانب وہ میچ کے دوران کمنٹری کر رہی تھیں اور دوسری جانب ایک افغان کھلاڑی کو پیغام بھیج رہی تھیں کہ اس کے لیے گاڑی کا انتظام ہوا کہ نہیں۔

’اسے گاڑی کے لیے مختلف لوگوں کے پاس جانا تھا اور میں نے اسے خبردار کیا کہ تم ایسا نہیں کر سکتی لیکن اس دوران مجھے کمنٹری کے لیے جانا تھا اور میں نے اسے کہا کہ میری واپسی تک کچھ مت کرنا۔‘

روپوشی اور شناخت

آسٹریلیا پہنچ جانے کے بعد بھی کئی ماہ تک افغان کھلاڑیوں نے اس بات کو ایک راز رکھا کہ وہ کہاں ہیں۔ ان کی شناخت کو چھپانے میں مقامی کرکٹ کلبز نے بھی ساتھ دیا جن کا وہ حصہ بن گئی تھیں۔

دسمبر 2022 میں ان کھلاڑیوں نے آئی سی سی کو ایک خط لکھا کہ وہ اب آسٹریلیا میں ہیں۔ انھوں نے آئی سی سی سے دو سوال پوچھے: ان کے افغان کرکٹ بورڈ سے ہونے والے کنٹریکٹ کا کیا بنا اور ان کی تربیت کے لیے بورڈ کو ملنے والے پیسے کا کیا ہوا؟ انھوں نے درخواست کی کہ یہ فنڈ آسٹریلیا میں موجود کھلاڑیوں کو دیا جائے۔

ایک ماہ بعد آئی سی سی کا جواب ملا کہ ’ان کا کنٹریکٹ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر افغان کرکٹ بورڈ ہی جواب دے سکتا ہے اور فنڈز پر بھی۔‘

جون 2024 میں جب افغانستان کی ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچی تو ان کھلاڑیوں نے اسے ایک موقع سمجھتے ہوئے آئی سی سی کو دوسرا خط لکھا۔ اس بار انھوں نے اجازت مانگی کہ ان کو پناہ گزینوں کی بین الاقوامی ٹیم بنانے دی جائے۔ ان کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ان کو اس خط کا جواب نہیں ملا۔

آئی سی سی نے بی بی سی کو ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ وہ ’افغانستان کی صورت حال سے واقف ہے اور تمام کھلاڑیوں کے لیے مواقع ہماری اولین ترجیح ہیں۔‘

چیئرمین جے شاہ نے اس بیان میں کہا ہے کہ ’ہم افغانستان کرکٹ بورڈ کے ذریعے کرکٹ کی ترقی کے لیے پرعزم ہیں اور افغان خواتین کھلاڑیوں کو درپیش مسائل سے واقف ہیں بشمول ان کھلاڑیوں کے جو جلا وطنی میں زندگی گزار رہی ہیں۔‘

آئی سی سی کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے آسٹریلیا میں موجود کھلاڑیوں کو ’افغانستان وومین الیون‘ کے نام سے کھیلنا پڑا جب میلبورن میں گزشتہ ماہ ان کا سامنا ’کرکٹ ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ٹیم سے ہوا۔ یہ جذبات سے بھرپور دن تھا لیکن اہم سوال وہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہے؟

سرکاری طور پر ان کو کوئی فنڈنگ نہیں کر رہا تاہم ایک آن لائن فنڈ کے ذریعے 75 ہزار پاونڈ اکھٹا کیے جا رہے ہیں۔ یہ کھلاڑی اب بھی بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا خواب دیکھ رہی ہیں لیکن اس کا دارومدار آئی سی سی پر ہو گا۔

سرینا ہوٹل کا انتظام طالبان کے پاس: کابل میں واقع وہ لگژری ہوٹل جس کی خونیں تاریخ میں خود طالبان نے بھی حصہ ڈالاافغانستان میں خواتین کی آواز اور مردوں کے ’غیر شرعی‘ بالوں سے متعلق طالبان کی نئی کڑی پابندیاںدلکش نظارے، سستی سیر اور طالبان: افغانستان میں غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کیوں بڑھ رہی ہے؟کم خرچ میں بہتر نتائج دینے والے ’مِسٹری سپنرز‘: کابل کی وہ خاص بات جو معیاری سپنرز پیدا کر رہی ہےافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیکابل کا ’مجاہدین بازار‘ جس کا کاروبار ہمیشہ جنگ کی مرہونِ منت رہا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More