گرو دت کی فلم ’پیاسا‘ جسے ٹھکرانے کا دلیپ کمار کو ملال رہا

اردو نیوز  |  Feb 21, 2025

ایک فلم دلیپ کمار کے لیے لکھی جاتی ہے اور وہ اس کے لیے ہامی بھی بھر لیتے ہیں، یہاں تک کہ شوٹنگ کا مرحلہ آ جاتا ہے لیکن دلیپ کمار سے رابطہ نہیں ہو پاتا ہے اور پھر اس فلم کے فلم ساز اور ہدایت کار گرو دت خود ہی اداکاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یہ فلم انتہائی کامیاب رہتی ہے اور پھر اس کا شمار انڈیا کی کلٹ فلموں میں ہونے لگتا ہے۔ بعد میں دلیپ کمار کے لیے یہ ان تین فلموں میں سے ایک ہوتی ہے جس سے دست بردار ہونے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔

یہ 19 فروری 1957 کو ریلیز ہونے والی معروف فلم ’پیاسا‘ تھی اور اس نے اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار گرو دت کو ایک دم آسمان پر پہنچا دیا۔

دلیپ کمار نے بعد میں اس فلم کو چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلم ان کی دو برس قبل سنہ 1955 میں آنے والی فلم ’دیوداس‘ سے بہت مشابہ تھی اور ’دیوداس‘ کرتے ہوئے وہ نفسیاتی طور پر بیمار رہنے لگے تھے جس کے بعد انہیں کامیڈی فلمیں کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اور یوں ’دی ٹریجڈی کنگ‘ کی اداکاری کا کینوس مزید پھیل جاتا ہے۔

’دیوداس‘ کی بچپن کی محبت کی طرح ’پیاسا‘ میں کالج کی محبت ہے جبکہ ایک طوائف دونوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

اس فلم کو بہت سے لوگ معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی زندگی سے متاثر بتاتے ہیں لیکن بعض ناقدین نے اسے گرو دت کی زندگی پر مبنی کہا جو ان کی ادھوری سوانح ہے۔

اس فلم میں پہلے اداکارہ نرگس اور مدھوبالا کو کاسٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن کسی طرح بات بن نہیں پائی اور دو نو آموز اداکارائیں وحیدہ رحمان اور مالا سنہا کو فلم کی پیشکش ہوئی، اور انہوں نے اپنے کردار بخوبی ادا کیے۔

فلم ایک شاعر وجے کی کہانی ہے جن کی شاعری کو کالج کے زمانے میں تو پذیرائی ملتی ہے لیکن ان کی انقلابی اور سماجی انصاف پر مبنی شاعری کو کوئی بھی ناشر شائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہاں ناشر اور ادیب کے درمیان کی کشمکش کو بھی دکھایا گیا ہے جو کہ آج تک جاری ہے۔

مینا اور وجے کی پہلی ملاقات میں فی البدیہہ شاعر کا ایک منظر ہے جب گرو دت مالا سنہا کو دیکھ کر کہتے ہیں:

جب ہم چلیں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے

جب تم چلو زمین چلے، آسماں چلے

جب ہم رکیں، تو ساتھ رکے شام بے کسی

جب تم رکو، بہار رکے، چاندنی رکے

’پیاسا‘ دلیپ کمار کی ان تین فلموں میں سے ایک ہے جس سے دست بردار ہونے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔ (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)کلکتہ کے پس منظر میں پیش کی جانے والی فلم ’پیاسا‘ مایوسی کے شکار اردو شا‏‏عر وجے (یہ کردار گرو دت نے ادا کیا ہے) کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ان کی شاعری کو ناشر ناقص شمار کرتے ہیں کیونکہ اس میں رومان کے بجائے تلخ سماجی حقائق کو بیان کیا گيا۔ وجے اپنے کالج کے زمانے میں مینا (مالا سنہا) سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ ایک مفلوک الحال شاعر کے بجائے امیر ناشر (رحمان) کو منتخب کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایک طوائف گلابو شاعر کے کلام سے متاثر ہوتی ہے اور جب وہ حادثاتی طور پر اس سے ملتی ہے تو وہ اسے دل بیٹھتی ہے کیونکہ نرم گوشہ تو ملاقات سے پہلے سے ہی تھا۔

گلابو وجے کی شاعری کو شائع کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان ایک رومانوی تعلق پیدا ہوتا ہے۔

اس فلم کو ٹائم میگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں میں شامل کیا ہے۔ بہت سے ناقدین نے اس فلم کو وقت سے پہلے کی فلم بھی قرار دیا ہے۔

لیکن ایک بات جو اس فلم کے حوالے سے سب کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ فلم گرو دت کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس فلم کے بعد انہوں نے ’کاغذ کے پھول‘ بنائی جو ایک کامیاب ہدایت کار کی ناکامی کی داستان ہے اور اسے لوگ گرو دت کی سوانح کے طور پر دیکھتے ہیں۔

گرو دت نے ایک کہانی 22 سال کی عمر میں ’کشمکش‘ کے نام سے لکھی تھی جو کہ بعض کے نزدیک معروف شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کی زندگی پر مبنی ہے جن کا شاعر اور مصنفہ امرتا پریتم کے ساتھ ناکام رشتہ تھا اور جو کالج کے زمانے میں اپنی شاعری کے لیے بہت مشہور تھے۔

فلم ’پیاسا‘ کو بعض ناقدین نے گرو دت کی زندگی پر مبنی کہا جو ان کی ادھوری سوانح ہے۔ (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)بہرحال اس پروجیکٹ پر جب سنہ 1956 میں کام شروع ہوا تو گرو دت کے ساتھی اور ادیب و سکرپٹ رائٹر ابرار علوی نے کہانی میں تبدیلیاں کیں۔ پہلے مرکز کردار شاعر کے بجائے پینٹر تھا اور ’دی مون اینڈ دی سکس پینس‘ کی طرح گرو دت یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وجے سب کو چھوڑ کر نکل جاتا ہے لیکن ناشروں اور فلم تقسیم کاروں کے اصرار پر اختتام کو تبدیل کر دیا گیا۔ فلم کے اختتام پر مصنف ابرار علوی اور گرو دت کے درمیان اختلافات تھے۔ ابرار چاہتے تھے کہ مرکزی کردار مروجہ مادی سماجی حقیقت کو قبول کرے اور سمجھوتہ کرے۔ لیکن گرو دت اپنی بات پر قائم رہی اور ان کے حساب سے ہی اس فلم کا انجام سامنے آيا۔

ابتدا میں فلم کا اصل نام پیاس (پیاس) رکھا گيا تھا لیکن پھر گرو دت نے بہتر انداز میں بیان کرنے کے لیے فلم کا نام ’پیاسا‘ رکھ دیا۔

ابرار علوی بتاتے ہیں کہ ’پیاسا‘ میں وحیدہ رحمان کا کردار حقیقی زندگی کے کردار سے متاثر تھا۔ ابرار علوی اور ان کے دوست بمبئی کا دورہ کر رہے تھے اور ایک بار انہوں نے ریڈ لائٹ ایریا کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ان کی ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ اس لڑکی نے خود کو گلابو کے طور پر متعارف کرایا تھا۔

علوی بتاتے ہیں کہ ’جب میں چلنے لگا تو اس نے رندھی ہوئی آواز میں میرا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ یہ پہلی بار تھا کہ اس کے ساتھ عزت کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، ایک ایسی جگہ جہاں اس نے صرف گالیاں ہی سنیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے فلم میں اس کے ادا کردہ الفاظ ٹھیک اسی طرح استعمال کیے تھے۔‘

’پیاسا‘ کو ٹائم میگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں میں شامل کیا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)فلم کے سارے گیت ساحر لدھیانوی کے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ساحر کی زندگی کے زیادہ قریب ہے۔

اس فلم میں سماجی برابری اور فیمینزم کو بھی پیش کیا گيا ہے جو اپنے زمانے سے آگے کی چیز ہے۔ اس فلم میں جونی واکر کا چمپئی اور تیل مالش والا گیت (سر جو ترا چکرائے یا دل ڈوبا جائے) بھی اپنی انفرادیت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

جانی واکر نے بتایا تھا کہ کس طرح انہوں نے وہ آواز کلکتہ میں ایک حقیقی چمپی والے سے نقل کی تھی کیونکہ گرو دت نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس کو دیکھ لیں اور حفظ کر لیں کیونکہ وہ اس کا کہیں نہ کہیں استعمال کرنے والے ہیں۔

فلم اپنے اندر بہت ساری خوبیاں رکھتی ہے لیکن یہ نہرو کے اس خیالی ہندوستان کا نوحہ ہے جہاں ’حوا کی بیٹی، یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی‘ اپنے لیے انصاف مانگتی ہے اور جہاں ہندوستان کے لوگوں کو للکارا گیا ہے اور پوچھا گیا ہے کہ ’جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں۔‘

اگر آج کی نسل کے لیے فلم انتہائی سست رفتار اور افسردہ کرنے والی ہو سکتی ہے لیکن یہ فلم گرو دت کی دوسری فلموں، ’کاغذ کے پھول‘، ’صاحب بی بی اور غلام‘ اور ’چودھویں کا چاند‘ کی طرح فلم انسٹیٹیوٹ میں فلم سازی کے نمونے کے طور پر دکھائی اور پڑھائی جاتی ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More