اسلام آباد کے ایک مدرسے کی منتقلی اور لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز کی اہلیہ اُم حسان کی گرفتاری پر تنازع کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 01, 2025

Getty Images20 فروری کی شب پولیس نے ام حسان سمیت دیگر افراد کو کارِ سرکار میں مداخلت اور حکومتی اہلکاروں پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا تھا

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا ایک تین دہائی پُرانا مدرسہ اس وقت اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور وفاق کے زیرِ انتظام مدارس کے اکابرین کے درمیان تنازع بنا ہوا ہے۔

اسلام آباد میں مری روڈ پر فیض آباد کا پُل کراس کریں تو سڑک کے بائیں طرف مدرستہ المسلم کا بورڈ دکھائی دیتا ہے جہاں کبھی کبھار اِکا دُکا طالب علم باہر ٹہلتے یا وہاں بنی چھوٹی سی کینٹین سے کھانے پینے کی چیز خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔

حکومت اور انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ معاملے کے حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن اس معاملے میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی نگران ام حسان کی مبینہ مداخلت کے بعد صورتحال ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔

لال مسجد کی مذاکراتی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی عمارت کو مسمار کرنے کا بھی مطالبہ پیش کیا گیا ہے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ایسی کسی شرط کی تصدیق نہیں کی ہے اور اِن مذاکرات کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔

20 فروری کی شب پولیس نے ام حسان سمیت دیگر افراد کو کارِ سرکار میں مداخلت اور حکومتی اہلکاروں پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اگلے روز اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جس میں اب تک دو بار توسیع ہوچکی ہے اور امکان ہے کہ انھیں پیر کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

گذشتہ ہفتے کے دوران اُم حسان سمیت دیگر کی رہائی کے لیے لال مسجد کے طلبہ نے احتجاج کر کے جڑواں شہروں کی اہم شاہراہوں کو بلاک کیا ہے۔ بعض علما کی جانب سے حکومت کو متنبہ کیا گیا ہے کہ حالات 2007 کی صورتحال جیسا رُخ اختیار کر سکتے ہیں جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد آپریشن کیا گیا تھا۔

BBCمدرستہ المسلم کا صحن جہاں بچے کھانا کھانے کے اکھٹے ہوئے تھے

ام حسان کے خلاف مقدمے اور ان کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد کی لال مسجد کے اطراف کے راستوں کو خاردار تاروں اور رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ بظاہر پولیس کا مقصد جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مظاہرین کو کشمیر ہائی وے اور آبپارہ چوک کی جانب جانے سے روکنا ہے۔

موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ لا اینڈ آڈر کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ راستے بند کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لال مسجد کی جانب سے طلبا و طالبات آبپارہ کی جانب احتجاج کرنے آتے ہیں اس لیے انھیں لال مسجد تک محدود کرنے کے لیے راستہ بند کیا ہے۔

لیکن پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک مدرسے کی منتقلی کے تنازع سے شروع ہونے والی بات جامعہ حفصہ کی نگران ام حسان کی گرفتار تک کیسے پہنچی اور اب تک یہ معاملہ حل کیوں نہیں ہو سکا۔

والد کے قریب سمجھے جانے والے مولانا حامد الحق کون تھے اور مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی سیاسی و مذہبی اہمیت کیا ہے؟سراج الدین حقانی کی واحد تصویر جو پاکستانی گلوکارہ کے کیسٹ کور میں ’سمگل‘ کی گئیوہ پاکستانی مدرسہ جس کے طلبہ طالبان کابینہ میں بھی شامل رہے’سرکاری سکولوں کا فنڈ دارالعلوم حقانیہ کو کیوں دیا؟‘اسلام آباد میں ایک پرانے مدرسے کی عمارت پر تنازع کیوں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مدرستہ المسلم کے مہتمم تنویر احمد نے دعویٰ کیا کہ فروری کے دوران اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے مدرسے میں آ کر 'ہم سے ملاقات کی اور بتایا کہ یہ مدرسہ 'سکیورٹی تھریٹ' کی وجہ سے شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔'

مدرسے کے مہتمم کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے 'ہمیں تفصیل نہیں بتائی۔ ہم نے اسلام آباد انتظامیہ کو کہا کہ اگر روڈ کا ایشو ہے تو ہم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ مگر انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو متبادل جگہ مدرسہ بنا کر دیں گے۔'

مدرسے کے مہتمم مزید کہتے ہیں کہ انھوں نے اسلام آباد انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس معاملے پر 'جمعیت اہلسنت کے اکابرین کے ساتھ بیٹھیں اور یہ بات ان کے سامنے رکھیں۔'

اس کے بعد تنویر احمد کے بقول فروری کے دوران اسلام آباد انتظامیہ اور ان کے درمیان 'اتفاق ہوا کہ علمایے کرام کی کمیٹی ڈی سی صاحب سے ملاقات کرے گی اور اس معاملے پر بات ہو گی۔'

وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ نے مدرسے کی نئی لوکیشن بھجوائی جہاں مدرسے کو شفٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ 'یہ مدرستہ المسلم سے ڈیڑھ کلومیٹر دور سامنے مارگلہ ٹاؤن کے فیز ٹو کی ایک گلی میں موجود مدنی مسجد اور مدرسے کے ساتھ واقع پلاٹ ہے۔'

BBC

تاہم مدرستہ المسلم کے مہتم کا موقف ہے کہ 'مدنی مسجد کے ساتھ خالی پلاٹ میں ہمیں مدرسے کے لیے متبادل جگہ دی جا رہی ہے جو کہ ناکافی ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'وہاں تعمیر ہو رہی ہے یا نہیں، ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔'

انھوں نے کہا کہ یہ مسجد سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں تعمیر ہوئی تھی اور اس مدرسے کی زمین وقف ہے۔ ان کے بقول یہاں 180 کے قریب طالبعلم ہیں۔

ادھر دوسری طرف اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ حفصہ اور اسلام آباد انتظامیہ کے درمیان 'مذاکرات جاری ہیں۔'

انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دی ہیں۔

ام حسان کی گرفتاری اور رہائی کے لیے ’شرائط‘

مدرستہ المسلم میں جائیں تو تدریسی عمل معمول کے مطابق جوں کا توں چل رہا ہے تاہم جس مسجد کے ساتھ موجود پلاٹ میں مدرسے کو منتقل کرنا تھا، وہاں چند روز پہلے لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان اور ان کے ساتھ موجود خواتین طالبات اور مدنی مسجد کے انتظامی افراد کو گرفتار کیا گیا۔

تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج ایف آئی آر کے مطابق اسلام آباد کے علاقے مارگلہ ٹاؤن کے فیز ٹو میں مدرسے کی تعمیر کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے، ہنگامہ آرائی اور پولیس پر مبینہ طور پر فائرنگ کرنے، توڑ پھوڑ کرنے اور تشدد کرنے کے الزام میں پرنسپل جامعہ حفصہ امِ حسان، ان کے ہمراہ موجود طالبات اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

ام حسان پہلی بار گرفتار نہیں ہوئیں۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق ان کے خلاف کم از کم 20 مقدمات ہیں۔

حکومت سے مذاکرات کرنے والے حافظ احتشام، جو کہ لال مسجد کے شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان بھی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ام حسان کو مدنی مسجد اور پاس ہی موجود طلحہ مسجد کی انتظامیہ نے مبینہ طور پر یہ کہہ کر بلایا تھا کہ 'مدنی مسجد کو گرانے معاملہ ہے، آپ آئیں اور انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کریں۔'

ان کے بقول ام حسان مذاکرات کے لیے گئی تھیں جو کامیاب ہوئے لیکن پھر انھیں مسجد طلحہ کے امام مسجد کے گھر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ وہاں کھانا کھانے کے لیے موجود تھیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ام حسان کے وہاں جانے کے بارے میں مولانا عبدالعزیز اور انتظامیہ ان کی گرفتاری تک لاعلم تھی۔

حکومت سے مذاکرات کرنے والی لال مسجد کی کمیٹی کے رکن حافظ احتشام کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ام حسان سمیت دیگر خواتین کی رہائی کے لیے جو شرائط رکھی ہیں ان میں جامعہ حفصہ کو مسمار کرنا بھی شامل ہے۔

حافظ احتشام کا دعویٰ ہے کہ رہائی کے لیے رکھی گئی اِن شرائط میں 'اخلاقی پولیسنگ سے اجتناب کرنا اور غیرقانونی مساجد و مدرسے کو گرانے کے لیے کسی بھی کارروائی میں مداخلت نہ کرنا' شامل ہے۔'

BBCجامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر سنہ 2022 میں گئی تھی

تاہم اسلام آباد کی انتظامیہ نے اس بارے میں تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ جب اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اِن شرائط کی تصدیق یا تردید نہیں کی، بلکہ صرف یہی بتایا کہ مذاکرات جاری ہیں۔

ادھر مولانا عبدالعزیز کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے جامعہ حفصہ کی عمارت کو گرانے کی 'شرط' ماننے سے انکار کیا ہے۔

مذاکراتی کمیٹی کے رکن حافظ احتشام کا کہنا ہے کہ باقی شرائط مان لی گئی تھیں تاہم جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کی گئی بلڈنگ کو مسمار کرنے کی 'شرط' پر ان کا انتظامیہ سے ڈیڈ لاک قائم ہوا۔

جامعہ حفصہ کی عمارت پر تنازع کیوں؟

خیال رہے کہ جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر سنہ 2022 میں گئی تھی۔ اسے سنہ 2007 میں لال مسجد آپریشن کے وقت مسمار کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں دو اکتوبر 2007 کو وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ لال مسجد کے ساتھ پرانی جگہ پر ہی جامعہ حفصہ کو ایک سال کے اندر دوبارہ تعمیر کرے۔ تاہم وفاقی حکومت اور سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا۔

مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا احتشام نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2011 میں حکومتی وزیر رحمان ملک نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی مدد سے رابطہ کیا اور 'کہا کہ ہمیں جامعہ حفصہ کے متبادل سیکٹر ایچ میں 20 کنال جگہ دیں گے۔'

ان کا دعویٰ ہے کہ 'معاہدہ طے پا گیا تھا۔ ہم نے مدرسے کی تعمیر شروع کی جس کے بعد 2019 میں مذکورہ زمین پر کام کو انتظامیہ نے زبردستی روک دیا۔ اس وقت تک وہاں مدرسے کی بیسمنٹ بن چکی تھی۔ بعد میں ہمیں مختلف مقامات کے بارے میں بتایا گیا کہ وہاں مدرسے کے لیے جگہ دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلآخر ہم نے خود اسی جگہ جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔'

کیا اسلام آباد انتظامیہ نے ام حسان کی حالیہ گرفتاری سے پہلے جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر کا نوٹس لیا اور اسے گرانے کی بات کی، اس کے جواب میں مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا ہے ایسا کوئی نوٹس یا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔

مولانا احتشام کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ 'فقط ہزیمت سے بچنے کے لیے ہم سے جامعہ حفصہ کی عمارت کے کچھ حصے کو گرانے کا کہہ رہی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔'

ان کا دعویٰ ہے اس وقت جامعہ حفصہ کی عمارت میں سینکڑوں طالبات اور معلمات موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیکٹر جی سیون تھری ہماری مرکزی برانچ ہے جہاں 3500 سے 4000 طالبات ہوتی ہیں۔

BBCاس معاملے پر جمیعت اہلسنت کی جانب سے اجلاس بلوائے گئے ہیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ کے خدشات ہیں کہ اگر یہاں نئی عمارت میں مزید طالبات آئیں اور احتجاج کے لیے وہ سڑک پر آئیں تو اس سے نقص امن ہو سکتا ہے۔

انھوں نے تصدیق کی کہ ام حسان جامعہ حفصہ کی طالبات کے ہمراہ ایک درجن سے زائد مرتبہ موسیقی کی محفلوں، کنسرٹس یا شادی کی تقریبات میں رات گئے میوزک کو رکوانے کے لیے مختلف مقامات پر جا چکی ہیں اور احتجاج کر چکی ہیں۔

خیال رہے کہ اس معاملے پر جمیعت اہلسنت کی جانب سے اجلاس بلوائے گئے ہیں اور ام حسان کی رہائی کے ساتھ ساتھ مساجد و مدرسوں کے انہدام یا انھیں منتقل کرنے کی سخت الفاظ میں مخالفت کی گئی ہے۔

ادھر چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ مدرستہ المسلم کے معاملے پر دونوں جانب بات چیت ہو رہی ہے۔

انھوں نے ان خدشات کو مسترد کیا کہ یہ معاملہ سنہ 2007 کے حالات جیسا رُخ اختیار کر سکتا ہے اور کہا کہ 'انتظامیہ بھی ہماری ہے اور مدرسے اور مسجدیں بھی ہماری ہیں۔ دونوں اطراف بات چیت ہو رہی ہے۔ امید ہے معاملہ حل ہو جائے گا۔'

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا بات چیت ہو رہی ہے تو انھوں نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

AFPسنہ 2007 میں حکومت کو لال مسجد انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا تھا

خیال رہے کہ سنہ 2007 میں حکومت کو لال مسجد انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا تھا۔

ایک ہفتے جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہلاک ہوئے جبکہ اس آپریشن کے دوران لال مسجد میں مارے جانے والوں سے متعلق متضاد دعوے سامنے آئے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو کے قریب تھی جبکہ لال مسجد کی انتظامیہ ابھی بھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس آپریشن کے دوران دو سو کے قریب طلبا اور طالبات ہلاک ہوئے تھے۔

اگست 2005 میں سی ڈی اے کی طرف سے اسلام آباد میں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی چھ مساجد کو منہدم کرنے کے بعد جب مری روڈ پر مسجد امیر حمزہ کو بھی منہدم کر دیا گیا اور مزید کئی کو نوٹس جاری کر دیے گئے تو ایک ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔

انتظامیہ اور علما کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جس کے دوران لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی طالبات نے وزارت تعلیم کے زیر اہتمام چلنے والی چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا۔

’پہلی کوتاہی حکومت نے کی‘

لال مسجد آپریشن کی کی کوریج کرنے والے اور سینیئر صحافی سبوخ سید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو کہا تھا یہاں دوبارہ مدرسہ تعمیر کریں، لال مسجد انتظامیہ نے خود سے مدرسہ بنا لیا اب انتظامیہ گرانے کی بات کر رہی ہے، اتنا بڑا سٹرکچر بن گیا انتظامیہ بے خبر کیسے رہی۔'

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مسجدیں پرانی ہیں جنھیں قدیمی مسجدیں کہا جاتا ہے جو اسلام آباد کے وفاق بننے سے پہلے کی ہیں اور کچھ مسجدیں اوقاف کی ہیں۔'

سبوخ سید کہتے ہیں 'یہاں کوتاہی تجاوزات کے زمرے میں بننے والی مسجد یا مدرسے کی انتظامیہ سے پہلے سی ڈی اے اور حکومت کی ہے۔'

مدرستہ المسلم کی منتقلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'اگر انتظامیہ کسی ضرورت کی وجہ سے مدرسے کو منتقل کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ اسے تبدیل کرے' تاہم وہ کہتے ہیں کہ 'ام حسان پر جو ایف ائی آر کاٹی گئی اس میں حکومت نے کچھ غلط بیانی بھی کی ہے۔'

'یہاں حکومت سے یہ کوتاہی ہوئی ہے کہ انھوں نے علما کو اعتماد میں نہیں لیا انھیں چاہیے تھا کہ علما کو بلاتے اور انھیں مدرسہ منتقل کرنے کی وجہ بتاتے تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔'

دینی مدارس کی رجسٹریشن کا تنازع کیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ’ناراض‘ ہیںلال مسجد آپریشن کے 13 سال: ’برقعہ پہنا نہیں پہنایا گیا تھا‘لال مسجد، جامعہ حفصہ کے اردگرد سے سکیورٹی ہٹا لی گئی'مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں خطابت نہیں کر سکتے‘مدرسہ تعلیم القرآن اور بالاکوٹ وادی کا گمشدہ استعارہ’بالاکوٹ کا مدرسہ ہمیشہ سے یہاں موجود ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More