Getty Imagesاورنگزیب کے جنوب میں چلے جانے کے بعد دلی ویران ہو گیا اور لال قلعے کی دیواروں پر دھول کی ایک موٹی تہہ جم گئی
1680 کے دوران اورنگزیب اپنی پوری فوج کے ساتھ جنوبی ہند کی طرف گئے۔ ان کے ہمراہ ان کا پورا حرم اور تینوں بیٹے تھے۔
ان پر لکھی گئی کتاب 'اورنگزیب، دی مین اینڈ دی متھ' میں مصنف آڈری ٹرشکے لکھتی ہیں کہ 'ان کے ساتھ خیموں کے ساتھ پیش قدمی کرنے والی فوج، بازار، شہنشاہ کا کارواں، افسروں اور نوکروں کا پورا ہجوم تھا۔ یہ ایک قابل دید نظارہ تھا۔'
ان کے بقول اورنگزیب 'پرانی مغل روایت کی پیروی کر رہے تھے جس کے مطابق دارالخلافہ ہمیشہ شہنشاہ کے ساتھ منتقل ہوتا تھا۔ لیکن اورنگزیب اس معاملے میں دوسرے مغل بادشاہوں سے مختلف تھے کہ ایک بار وہ جنوب چلے گئے تو دوبارہ دلی واپس نہیں آئے۔'
ان کے جانے کے بعد دلی ویران ہو گیا اور لال قلعے کی دیواروں پر دھول کی ایک موٹی تہہ جم گئی۔
بڑھاپے میں تنہائی
اورنگزیب نے اپنی زندگی کی آخری تین دہائیاں جنوبی ہندوستان میں گزاریں اور بیشتر لڑائیوں اور محاصروں کی قیادت خود کی۔
ان کی فوج میں ایک ہندو سپاہی بھیمسین سکسینہ نے لکھا ہے کہ 'میں نے اس دنیا کے لوگوں کو بہت لالچی پایا ہے۔ اس حد تک کہ اورنگزیب عالمگیر جیسا بادشاہ جس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ اسے قلعوں پر قبضہ کرنے کی اتنی تمنا تھی کہ وہ اسی خواہش کے پیچھے بھاگتا رہا۔'
اورنگزیب کی حکومت کا آخری مرحلہ ان کے لیے خوش کن نہیں تھا۔ انھیں احساس ہوا کہ اب ان میں ہندوستان پر مضبوطی سے حکومت کرنے کی خواہش نہیں رہی۔
مورخ جادوناتھ سرکار اپنی کتاب 'دی شارٹ ہسٹری آف اورنگزیب' میں لکھتے ہیں کہ 'اورنگزیب بڑھاپے میں تنہائی کا شکار ہو گئے تھے۔ ایک ایک کر کے ان کے تمام قریبی ساتھی دنیا سے چلے گئے۔ ان کی جوانی کے صرف ایک ساتھی وزیر اسد خان زندہ تھے۔ جب انھوں نے اپنے دربار کے اردگرد نظر دوڑائی تو انھیں ہر طرف بزدل، حاسد اور جوشیلے نوجوان نظر آئے۔'
Getty Imagesمؤرخ مونس فاروقی نے اپنی کتاب ’مغل سلطنت کے شہزادے‘ میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے شہزادوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کر کے ان کی خود مختاری کو کمزور کیا تھااورنگزیب کے کسی بیٹے میں بادشاہ بننے کی صلاحیت نہیں تھی
اورنگزیب کی وفات کے وقت ان کے تین بیٹے زندہ تھے۔ اس سے پہلے ان کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے کسی میں بھی ہندوستان کا بادشاہ بننے کی طاقت یا صلاحیت نہیں تھی۔
18ویں صدی کے اوائل میں لکھے گئے ایک خط میں اورنگزیب نے اپنے دوسرے بیٹے معظم پر قندھار کو فتح نہ کرنے پر تنقید کی۔ اورنگزیب کا یہ خط 'روقائے عالمگیری' میں موجود ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ 'نالائق بیٹے سے بہتر بیٹی ہے۔'
انھوں نے اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے اپنا خط ختم کیا اور لکھا کہ 'آپ اس دنیا میں کیسے اپنے حریفوں اور خدا کو منھ دکھاؤ گے؟'
اورنگزیب کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ بیٹوں کے وارث نہ بن پانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
مؤرخ مونس فاروقی نے اپنی کتاب 'مغل سلطنت کے شہزادے' میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے شہزادوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کر کے ان کی خود مختاری کو کمزور کیا تھا۔
آڈری ٹرشکے کے مطابق '1700 تک اورنگزیب نے اپنے بیٹوں پر اپنے پوتوں کو ترجیح دینا شروع کر دی تھی۔ اس سے ان کی پوزیشن مزید کمزور ہو گئی۔ اورنگزیب نے بعض اوقات اپنے درباریوں کو اپنے بیٹوں سے زیادہ اہمیت دی۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ تھی جب ان کے وزیر اعلیٰ اسد خان اور فوجی کمانڈر ذوالفقار خان نے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کامبخش کو گرفتار کر لیا تھا۔'
کامبخش کا قصور یہ تھا کہ اس نے اورنگزیب کی اجازت کے بغیر مراٹھا بادشاہ راجا رام سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ راجارام شیواجی کا بیٹا اور سمبھاجی کا سوتیلا بھائی تھا۔
Getty Imagesاورنگزیب کو اپنے قریبی رشتہ داروں کی موت سے جہاں بہت صدمہ پہنچا وہیں ان کی مشکلات میں کہیں زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیااقربا کی موت
اورنگزیب کے بڑھاپے کے دن شروع ہو رہے تھے اور ان کی زندگی مشکلات میں گھری جا رہی تھی۔
ان کی بہو جہانزیب بانو کی وفات مارچ 1705 میں گجرات میں ہوئی۔ ان کا باغی بیٹا اکبر ثانی بھی 1704 میں ایران میں ہی فوت ہو گیا۔
اس سے پہلے 1702 میں ان کی شاعرہ بیٹی زیب النسا بھی فوت ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد اورنگزیب کے بہن بھائیوں میں سے واحد زندہ بچ جانے والی گوہر آرا بھی چل بسیں۔
اورنگزیب کو ان کی وفات سے شدید صدمہ پہنچا۔ انھوں نے کہا کہ شاہجان کی اولاد میں صرف وہ اور میں بچ گئے۔'
اورنگزیب کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں۔ 1706 میں ہی ان کی بیٹی مہر النسا اور داماد ایزد بخش کی بھی دہلی می وفات ہو گئی۔
اورنگزیب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کا پوتا بلند اختر بھی اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔ ان کے دو اور پوتے مر گئے لیکن ان کے درباریوں نے یہ خبر اس لیے ان تک پہنچنے نہ دی کہ اس سے اورنگزیب کو بہت صدمہ پہنچے گا۔
Getty Imagesاورنگزیب کے دور میں ہندوستان آنے والے ایک اطالوی سیاح نکولاؤ مانوچی نے اپنی کتاب 'سٹوریا ڈو موگور' میں لکھا ہے کہ 'سنہ 1702 سے سنہ 1704 کے درمیان خشک سالی اور طاعون کی وبا سے 20 لاکھ افراد ہلاک ہو گئےخشک سالی اور طاعون
اس کے علاوہ اس زمانے میں جنوب میں آنے والی قحط سالی نے بھی اورنگزیب کی مشکلات میں اضافہ کیا۔
اورنگزیب کے دور میں ہندوستان آنے والے ایک اطالوی سیاح نکولاؤ مانوچی نے اپنی کتاب 'سٹوریا ڈو موگور' میں لکھا ہے کہ 'سنہ 1702 سے سنہ 1704 کے درمیان جنوب میں بارشیں بالکل نہیں ہوئیں۔ اوپر سے طاعون کی وبا بھی پھیل گئی۔ دو سالوں کے دوران 20 لاکھ افراد مارے گئے۔ بھوک سے ستائے لوگ چار آنے کے لیے اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے تیار تھے لیکن کوئی خریدار ہی نہیں تھا۔'
'موت کے بعد عام لوگوں کو مویشیوں کی طرح دفن کیا جاتا تھا۔ تدفین سے پہلے ان کے کپڑوں کی تلاشی لی جاتی تھی کہ آیا ان میں کوئی رقم ہے یا نہیں۔ پھر ان کے پاؤں میں رسی باندھ کر لاش کو گھسیٹ کر سامنے آنے والے پہلے گڑھے میں دفن کر دیا جاتا۔'
مانوچی لکھتے ہیں کہ 'کئی بار اس بدبو سے مجھے الٹی ہونے لگتی۔'
ان کے مطابق مکھیاں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ کچھ کھانا بھی دشوار ہو گیا تھا۔
مانوچی کے الفاظ میں 'لوگ درختوں اور فصلوں سے خالی کھیتوں کو پیچھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پیچھے صرف انسانوں اور مویشیوں کی ہڈیوں بچی تھیں۔ پورا علاقہ اس قدر غیر آباد تھا کہ تین سے چار دن کے سفر کے دوران بھی کہیں آگ یا روشنی جلتی نظر نہیں آتی۔'
اودے پوری آخر تک اورنگزیب کے ساتھ رہیں
اپنے آخری ایام میں اورنگزیب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کامبخش کی والدہ اودے پوری کی صحبت میں وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔
بستر مرگ سے کامبخش کو لکھے گئے خط میں اورنگزیب نے لکھا کہ اودے پوری نے بیماری کے دوران بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور موت میں بھی ان کا ساتھ دیں گی۔
اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ اورنگزیب کی موت کے چند ماہ کے اندر ہی اودے پوری بھی وفات پا گئیں۔
Getty Imagesاورنگزیب نے اس خوف سے اپنے تمام بیٹوں کو خود سے دور کر دیا کہ کہیں وہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہ کریں جو انھوں نے اپنے باپ شاہ جہاں کے ساتھ کیا تھاشمال میں بغاوت
آخر میں اورنگزیب نے احمد نگر میں پڑاؤ ڈالا۔
سٹینلے لین پول نے اپنی کتاب 'اورنگزیب اینڈ دی ڈے آف دی مغل ایمپائر' میں لکھا ہے کہ 'اورنگزیب کی طویل غیر موجودگی سے شمال میں افراتفری پھیل گئی، راجپوت کھلے عام بغاوت کرنے لگے، آگرہ کے نزدیک جاٹ سر اٹھانے لگے اور ملتان کے آس پاس کے سکھوں نے بھی مغل سلطنت کو للکارنا شروع کر دیا۔ مغل فوج کے حوصلے پست ہونے لگے۔ بالآخر مراٹھے بھی چوری چھپے مغل سلطنت پر حملہ کرنے لگے۔‘
اورنگزیب نے اس خوف سے اپنے تمام بیٹوں کو خود سے دور بھیج دیا کہ کہیں وہ بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہ کریں جو انھوں نے اپنے باپ شاہ جہاں کے ساتھ کیا تھا۔
مؤرخ ابراہم ایرالی اپنی کتاب 'مغل تخت ہندوستان کے عظیم شہنشاہوں کی کہانی' (مغل تخت ہندوستان کے عظیم شہنشاہوں کی کہانی) میں لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کے دور حکومت میں ہونے والی علاقائی توسیع نے مغل اقتدار کو بڑھانے کے بجائے کمزور کیا۔ ان کے دور میں سلطنت اتنی پھیل گئی تھی کہ اس پر حکومت کرنا ناممکن ہو گیا۔'
ان کے مطابق خود اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ان کے جانے کے بعد انتشار پھیلے گا۔
Getty Images1705 میں مراٹھا قلعی واگنجیرا کو فتح کرنے کے بعد اورنگزیب نے دریائے کرشنا کے قریب ایک گاؤں میں پڑاؤ ڈالا تاکہ اس کی فوجیں کچھ آرام کر سکیں، یہیں اورنگزیب بیمار پڑ گئےاورنگزیب کی بیماری
ان سب کے علاوہ اورنگزیب کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ان کے جانشین کا تھا۔
مانوچی لکھتے ہیں، 'تخت کے دعویدار شہنشاہ کے بیٹے تھے جو خود بھی بوڑھے ہو چکے تھے۔ پھر ان کے پوتے جن کی داڑھیاں سفید ہو چکی تھیں اور وہ 45 سال سے زیادہ عمر کے ہو چکے تھے۔ تخت کے دعویداروں میں اورنگزیب کے نواسے بھی شامل تھے جو 25 یا 27 سال کے ہوں گے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک کو ہی اقتدار ملتا اور ناکام ہونے والوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے یا وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے۔'
وہ رقاصہ جو مغل بادشاہ سے بھی زیادہ طاقتور حکمران بنیںمغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہوامغل بادشاہ اورنگزیب اور سنسکرتاردو بیگی: مغل بادشاہ اور حرم کی خواتین محافظ جن سے اورنگزیب بھی ڈرتے تھے
1705 میں، مراٹھا قلعی واگنجیرا کو فتح کرنے کے بعد اورنگزیب نے دریائے کرشنا کے قریب ایک گاؤں میں پڑاؤ ڈالا تاکہ اس کی فوجیں کچھ آرام کر سکیں۔
یہیں اورنگزیب بیمار پڑ گئے۔ اسی سال اکتوبر میں وہ دہلی جانے کے ارادے سے احمد نگر کی طرف بڑھے لیکن یہ ان کا آخری پڑاؤ ثابت ہوا۔
14 جنوری 1707 کو 89 سالہ شہنشاہ ایک بار پھر بیمار پڑ گئے۔ چند دنوں میں ان کی طبیعت میں بہتری آئی اور دوبارہ دربار لگانا شروع کر دیا۔ لیکن اب کی بار انھیں احساس ہو گیا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔ ان کے بیٹے اعظم کی بڑھتی ہوئی بے صبری ان کی پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
Getty Imagesاپنے آخری ایام میں اورنگزیب نے اپنے بیٹوں کو دو خط لکھے جس میں انھوں نے لکھا کہ 'میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی نہ ہو۔ لیکن پھر بھی میں دیکھ سکتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد بہت خونریزی ہو گی۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ تمھیں اپنے لوگوں کے لیے کام کرنے کی تمنا اور حکومت کرنے کی صلاحیت دے۔'بیٹوں کو لکھا خط
جادوناتھ سرکار لکھتے ہیں، 'چار دن بعد انھوں نے اعظم کو مالوہ کا گورنر بنا کر بھیجا، لیکن ہوشیار شہزادے نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے والد کا وقت قریب ہے، جانے کی جلدی نہیں کی اور کئی جگہوں پر رک رک کر آگے بڑھا۔ اپنے بیٹے کو بھیجنے کے چار دن بعد بادشاہ کو تیز بخار ہو گیا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے دربار لگانے اور پانچ مرتبہ نماز ادا کرنے پر اصرار کیا۔'
اپنے آخری ایام میں اورنگزیب نے اپنے بیٹوں کو دو خط لکھے جس میں انھوں نے لکھا کہ 'میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی نہ ہو۔ لیکن پھر بھی میں دیکھ سکتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد بہت خونریزی ہو گی۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ تمھیں اپنے لوگوں کے لیے کام کرنے کی تمنا اور حکومت کرنے کی صلاحیت دے۔'
Getty Imagesمرنے سے قبل اورنگزیب نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو کسی قریبی جگہ پر بغیر تابوت کے دفن کیا جائےاورنگزیب کی دلی خواہش تھی کہ جمعہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو
جادوناتھ سرکار لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب نے صبح کی نماز پڑھی اور تسبیح کے دانوں کو گننا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ وہ بے ہوش ہونے لگے اور ان کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا۔ لیکن جسم کمزور ہونے کے باوجود تسبیح ان کی انگلیوں سے نہیں گری۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ جمعہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو۔ بالآخر ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔‘
مرنے سے پہلے اورنگزیب نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو کسی قریبی جگہ پر بغیر تابوت کے دفن کیا جائے۔
اورنگزیب کی موت کے دو دن بعد اس کا بیٹا اعظم وہاں پہنچا۔ اپنی بہن زینت النسا بیگم کو تسلی دینے کے بعد وہ اپنے والد کی لاش کو کچھ دور لے گئے۔
اس کے بعد اورنگزیب کی میت کی تدفین دولت آباد کے قریب خلد آباد میں صوفی بزرگ شیخ زین الدین کی قبر کے پاس کی گئی۔
اورنگزیب 89 سال کی عمر تک زندہ رہے۔ جادوناتھ سرکار نے لکھا کہ ’اورنگزیب کی یادداشت حیرت انگیز تھی، ایک بار کسی کا چہرہ دیکھا تو وہ اسے کبھی نہیں بھولے، یہی نہیں، وہ لوگوں کی طرف سے کہے گئے ہر لفظ کو یاد رکھتے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں انھیں ایک کان سے سننے میں دشواری ہونے لگی اور ان کی دائیں ٹانگ میں بھی کچھ مسئلہ تھا۔‘
Getty Imagesاورنگزیب کے بیٹوں کے درمیان جنگ
اگرچہ اورنگزیب نے شاہ عالم یعنی معظم جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے، کو جانشین نامزد کیا تھا لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد اعظم شاہ وہاں پہنچ گئے اور خود کو تحت کا حقدر قرار دیا۔
اس کے بعد انھوں نے آگرہ کی طرف کوچ کیا تاکہ ان کی بادشاہی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جا سکے۔
منوچی لکھتے ہیں کہ دوسری طرف شاہ عالم نے بھی اپنے والد کی موت کی خبر سن کر آگرہ کی طرف کوچ کیا، وہ اپنے بھائی اعظم سے پہلے آگرہ پہنچے، جہاں لوگوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ ججاؤ کے مقام پر دونوں بھائیوں کی فوجیں آپس میں لڑ پڑیں، اسی جگہ اورنگزیب اور ان کے بھائی دارا شکو کے درمیان کئی برس قبل جنگ ہوئی تھی۔
اورنگزیب کے دونوںبیٹوں کی جنگ میں شاہ عالم فاتح بن کر ابھرے اور یوں اگلے روز 20 جون کو وہ اپنے والد کی جگہ تخت نشین ہو گئے۔
مغلیہ سلطنت کا زوال
شکست خوردہ اعظم شاہ نے اپنے بھائی شاہ عالم کے ہاتھ لگنے سے پہلے خنجر مار کر خودکشی کر لی۔
شاہ عالم بھی اورنگزیب کی وفات کے پانچ سال بعد 1712 میں فوت ہو گئے۔
1712 سے 1719 تک کے سات سالوں میں چار مغل بادشاہ یکے بعد دیگرے ہندوستان کے تخت پر بیٹھے جب کہ اس سے پہلے کے 150 سالوں میں ہندوستان پر صرف چار مغل بادشاہوں نے حکومت کی تھی۔
رفتہ رفتہ مغلیہ خاندان کی پرانی حیثیت ختم ہونے لگی۔
جادوناتھ سرکار لکھتے ہیں کہ ’اپنی تمام کامیابیوں کے باوجود اورنگزیب سیاسی طور پر ایک ناکام بادشاہ ثابت ہوئے۔ ان کے بعد مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ صرف ان کی ذاتی شخصیت نہیں تھی۔ یہ کہنا شاید درست نہیں کہ مغلوں کا زوال صرف ان کی وجہ سے ہوا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے اس زوال کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘
1707 میں اورنگزیب کی موت کے بعد مغلیہ سلطنت اپنے پرانے خوابوں کی یاد میں گم رہی اور تقریباً 150 سال تک قائم رہنے کے بعد 1857 میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ اس خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔
اورنگزیب کی رقاصہ سے محبت جس نے انھیں ’نمازیں بُھلا دیں‘کیا تقریباً نصف صدی تک ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اصل میں ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھیاکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھیشاہ جہاں اور ممتاز کی شادی، جس کے لیے منگنی کے بعد پانچ سال تک انتظار کرنا پڑاوہ رقاصہ جو مغل بادشاہ سے بھی زیادہ طاقتور حکمران بنیں