متنازع دستاویز، خالی مقبرہ اور حیدرآباد ریاست: ہندوستان میں ’خلافت کے خفیہ منصوبے‘ کا معمہ

بی بی سی اردو  |  Mar 03, 2025

انڈین ریاست مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد کی بنجر زمین پر ایک شاندار مگر ویران مقبرہ موجود ہے۔ اس مقبرے کی سب سے خاص بات اس کا گنبد ہے جو عثمانی ترک طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ مقبرہ 20ویں صدی میں ترکی کے آخری خلیفہ عبدالمجید ثانی کے لیے بنایا گیا تھا جو ایک مصور، شاعر اور موسیقی کے دلدادہ بھی تھے۔

عبدالمجید سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ بنے۔ تاہم سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ ہندوستان میں سلطنتِ حیدرآباد سے اپنے خاندان کی حکمرانی جاری رکھیں۔

خلافت عثمانیہ کے اختتام پر نئی آنے والی ترک حکومت نے عبدالمجید ثانی کو نومبر 1922 میں استنبول کا خلیفہ مقرر کیا۔

تاہم 3 مارچ 1924 کو ترکی نے خلیفہ کی تقرری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں ان کے خاندان کے ساتھ ایک ٹرین میں سوار کر کے سوئٹزرلینڈ بھیج دیا۔

انھیں اس وقت حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان کی مدد حاصل تھی جو ٹائمز میگزین کے مطابق ایک وقت میں دنیا کے امیر ترین شخص تھے۔

جب حیدرآباد کے نظام نے عبدالمجید ثانی کی مدد کی

برطانوی دور میں ریاستِ حیدرآباد کے ساتویں نظام ایک مسلمان تھے لیکن ان کی حکومت ہندوؤں کی آبادی والے بڑے علاقے پر قائم تھی۔ وہ اس علاقے کے مندروں، گُردواروں، مساجد اور صوفی بزرگوں کے مقبروں کے بھی نگراں اور سرپرست تھے۔

حیدرآباد کو مغلیہ سلطنت کا ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے محلات اپنی شان و شوکت کے لیے مشہور تھے۔ مسلمان برادری میں اپنے وقار کو بڑھانے کے لیے نظام نے عبدالمجید ثانی کو مدد کی پیشکش کی۔

اکتوبر 1924 میں عبدالمجید ثانی فرانس کے شہر نائس میں سمندر کے کنارے واقع ایک بنگلے میں منتقل ہو گئے جس کی قیمت حیدرآباد کے نظام نے ہی ادا کی تھی۔

وہیں سے عبدالمجید نے خلافت کی مہم شروع کی اور مارچ 1931 میں مولانہ شوکت علی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ مولانا شوکت علی اس وقت ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا چہرہ تھے اور مہاتما گاندھی کے قریب سمجھے جاتے تھے۔

عبدالمجید ثانی کی تمام تر توجہ اسی برس دسمبر میں یروشلم میں ہونے والی اسلامی کانگریس پر مرکوز تھی۔

عبدالمجید کا ارادہ تھا کہ وہ کانگریس سے اپنی خلافت کے لیے حمایت حاصل کریں۔ تاہم برطانیہ نے ان پر اپنے زیرِ انتظام فلسطین میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر کے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

تاہم عبدالمجید ثانی کے پاس ایک اور منصوبہ بھی تھا۔

چھ صدیوں تک سپر پاور رہنے والی سلطنت عثمانیہ کا زوال اور ترکی کے قیام کی کہانیعبد المجید دوم: آخری عثمانی خلیفہ جن کی تدفین مرنے کے 10 سال بعد پاکستان کے گورنر جنرل کی سفارش پر ہوئیکیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

اکتوبر 1931 میں مولانہ شوکت علی اور برطانوی دانشور مارماڈیوک پکتھال نے عبدالمجید ثانی کی بیٹی شہزادی درّ شہوار کی حیدرآباد کے نظام کے سب سے بڑے بیٹے اعظم جاہ سے طے کر دی۔

ٹائم میگزین نے اس وقت رپورٹ کیا تھا: ’اگر ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور ان کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسے اگلا خلیفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔‘

اس وقت عبدالمجید ثانی نے کہا تھا کہ ’یہ شادی پوری مسلمان دنیا پر مثبت اثر ڈالے گی۔‘

یہ شادی اسی برس نومبر کے مہینے میں ہوئی اور کچھ ہی دنوں بعد بمبئی کے اردو اخبارات نے مولانا شوکت علی کے بیان کی بنیاد پر خلافت کی بحالی کی پیش گوئی سے متعلق خبریں چھاپ دیں۔

ان خبروں کو دیکھ کر برطانوی حکام کو تشویش ہوئی اور انھوں نے نظام کو عبدالمجید ثانی کا دورہ حیدرآباد منسوخ کرنے پر مجبور کیا۔

بیٹی کی شادی کے بعد دستاویز پر دستخط

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی بیٹی کی نظام کے بیٹے سے شادی کے چند دن بعد عبدالمجید ثانی نے ایک ایسے دستاویز پر دستخط کیے جو دنیا کی تاریخ بدل سکتا تھا۔

یہ دستاویز سنہ 2021 میں سید احمد خان کو حیدرآباد میں اپنے گھر سے ملی۔ ان کے خاندان نے میری تحقیق میں مجھے مدد دینے کے لیے اپریل 2024 میں مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔

خان نے مجھے بتایا کہ یہ دستاویز انھیںدسمبر 2021 میں اپنے دادا کی دستاویزات میں ملی تھی۔ ان کے دادا سید محمد امرالدین خان حیدرآباد کے ساتویں نظام کے ملٹری سکریٹری تھے اور ان کی وفات سنہ 2012 میں 99 برس کی عمر میں ہوئی۔

یہ دستاویز ایک موٹے کاغذ پر عربی زبان میں لکھی گئی تھی جس میں حیدرآباد کے نظام کو مخاطب کیا گیا تھا اور اس پر عبدالمجید ثانی کے دستخط موجود ہیں۔

اس دستاویز کے مطابق عبدالمجید ثانی نے خلافت کا منصب حیدرآباد کے نظام کے حوالے کر دیا تھا اور اس بات کو درر شہوار اور اعظم کے بیٹے کی پیدائش تک خفیہ رکھا جانا تھا۔

کچھ ماہرین بشمول ترک مصنف مردا برداق کا ماننا ہے کہ یہ دستاویز جعلی ہے۔ مراد برداق کا دعویٰ ہے کہ ’یہ دستاویز کچھ برس پہلے ہی بنایا گیا ہے، اس لیے یہ جعلی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس پر جو دستخط موجود ہے وہ عبدالمجید ثانی کے نہیں۔

لیکن وہیں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دستاویز بالکل اصلی ہے۔

انسٹٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ کنورژن آف مینوسکرپٹس سے منسلک ڈاکٹر سید عبدالقادری کہتے ہیں کہ ’اس دستاویز پر موجود عبدالمجید کے دستخط دیگر دستاویزات پر موجود ان کے دستخط سے ملتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس پر وہی گاڑھی سیاہی موجود ہے جو کہ شہزادوں اور حکمرانوں کے لیے بنائی جاتی تھی۔ ایسے کاغذات بھی حکمرانوں کے لیے تیار ہوتے تھے اور یہ عام لوگوں کی پہنچ میں نہیں تھے۔‘

اس معاملے پر بحث جاری ہے لیکن سید احمد خان کہتے ہیں کہ ’ہم مذہبی یا سیاسی بنیادوں پر خلافت کو دوبارہ بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔‘

حیدرآباد میں خلافت کی بحالی کا منصوبہ

یہ ایک معمہ ہے لیکن اور بھی ایسے مستند شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالمجید ثانی حقیقتاً حیدرآباد میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔

عبدالمجید ثانی کی بیٹی درّ شہوار نے 6 اکتوبر 1933 کو نائس میں مکرم جاہ کو جنم دیا۔ جب مکرم چھوٹے تھے تو حیدرآباد کے نظام نے اپنے قریبی افراد کو بتایا کہ ان کا جانشین ان کا بیٹا اعظم جاہ نہیں بلکہ پوتا مکرم جاہ ہوگا۔

اگست 1944 میں عبدالمجید ثانی وفات پا گئے اور نومبر 1944 میں سر آرتھر لوتھیان نے حیدرآباد میں اپنے نمائندے کو ایک خفیہ خط تحریر کیا جس میں لکھا تھا کہ ’وزیرِ اعظم نے عبدالمجید کی وصیت دیکھی ہے جس میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ انھیں انڈیا میں دفن کیا جائے جہاں ان کا نواسہ خلیفہ بنے گا۔‘

سنہ 1946 میں دو برطانوی حکام کے درمیان جو خط وکتابت ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالمجید ثانی نے مکرم کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا لیکن وہ اس بات کو راز رکھنا چاہتے تھے۔

اُسی برس نظام نے خلدآباد میں مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔ خلدآباد کا علاقہ اس وقت نظام کی ریاست کا حصہ تھا لیکن اب یہ مہاراشٹرا کا حصہ ہے۔ یہ مقام اس جگہ سے بہت قریب تھا جہاں حیدرآباد کے پہلے نظام کی تدفین ہوئی تھی۔

اس مقبرے کی تعمیر سنہ 1948 میں اس وقت مکمل ہوئی جب انڈیا سے برطانوی راج کا خاتمہ ہو چکا تھا۔

اسی مہینے انڈین فوج نے حیدرآباد کی طرف پیش قدمی کی اور نظام کو ان کی کُرسی سے ہٹا دیا۔ اسی سبب عبدالمجید کی تدفین انڈیا میں نہیں ہوسکی اور سنہ 1954 میں ان کی موت کے دس برس بعد انکی تدفین سعودی عرب کے شہر مدینہ میں ہوئی۔

ترکی میں مکرم جاہ کی موت

اپنے نانا نظام کی موت کے بعد 1967 میں مکرم جاہ صرف نام ہی کے نظام بنے اور ان کے پاس کوئی طاقت نہیں تھی۔ ان کے پاس اتنے اختیارات ہی نہیں تھے کہ وہ خلیفہ کا منصب سنبھال پاتے۔

انڈین حکومت نے سنہ 1971 میں حیدرآباد ان کی ملکیت سے واپس لے لیا اور ان کی زمینیں ٹیکس اور لینڈ ایکٹ کے تحت قبضے میں لے لیں۔

اس کے بعد سنہ 1973 میں مکرم جاہ انڈیا چھوڑ کر مغربی آسٹریلیا منتقل ہو گئے اور وہاں انھوں نے دو ہزار ایکڑ کا بھیڑوں کا فارم خرید لیا۔

بعد ازاں وہ ترکی منتقل ہوگئے اور 14 جنوری 2023 میں گمنامی میں وفات پا گئے۔ مکرم جاہ کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ عظمت جاہ کو نویں نظام کا خطاب دیا گیا۔ وہ ایک برطانوی فلمساز ہیں اور حیدرآباد میں ان کی کئی پراپرٹیز ہیں۔

اگر انڈیا میں برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد حیدرآباد ایک آزاد ملک بن گیا ہوتا تو شاید مکرم جاہ نظام کی حیثیت سے خلافت کا دعویٰ بھی کر دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مؤرخ جان زبرزیکی نے 2005 میں ترکی میں مکرم جاہ کا انٹرویو کیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس تاریخ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

مکرم جاہ کی سوانح عمری لکھتے وقت زبرزیکی کو عبدالمجید ثانی کی وصیت سے متعلق ایک اہم خط ملا تھا۔

زبرزیکی کہتے ہیں کہ ’حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان ایک چالاک سٹریٹجسٹ تھے‘ اور اپنے پوتے کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔

زبرزیکی کہتے ہیں کہ ملاقات کے دوران انھوں نے مکرم جاہ کو ایک ’کرشماتی، مہذب اور دریا دل‘ شخصیت کا مالک پایا۔

’وہ ان چیزوں کے بارے میں سوچ کر غمگین تھے جن کا انھیں اپنی زندگی میں سامنا کرنا پڑا۔‘

عبدالمجید ثانی کے نواسے حیدرآباد کی مکہ مسجد کے احاطے میں دفن ہیں۔

سلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘سلطنت عثمانیہ میں جانشینی کی ’خونیں دنیا‘ جہاں طاقتور لونڈیاں بادشاہ گر تھیںقسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولاکیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ’جدید ترکی کے بانی‘ کمال اتاترک کون تھے؟چھ صدیوں تک سپر پاور رہنے والی سلطنت عثمانیہ کا زوال اور ترکی کے قیام کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More