AFP
انڈیا کو اپنی ائیرفورس کو جدید بنانے کے لیے اس وقت ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔ لیکن کیا ایک جدید امریکی لڑاکا طیارہ اس مسئلے کا حل ہے؟
گذشتہ ہفتے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تو ٹرمپ نے کہا کہ وہ انڈیا کے لیے ایف 35 لڑاکا طیاروں کا حصول ممکن بنانے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہ وہ لڑاکا طیارہ ہے جسے امریکہ اپنے قریبی اتحادیوں اور شراکت داروں کو ہی فروخت کرتا ہے۔
جدید سینسرز سے لیس ایف 35 ’ففتھ جنریشن‘ والا ایک ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے، جس میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جنگی نظام اور دکھائی نہ دینے والی ڈیٹا شیئرنگ کی صلاحیت موجود ہے۔
یہ ریڈار سے بچ نکلتا ہے اور اس وقت پرواز بھرنے والے طیاروں میں سے یہ بہت اہم خصوصیات کا حامل ہے۔ تاہم 80 ملین ڈالر کی قیمت والا یہ ایک بہت مہنگا طیارہ بھی ہے۔ ’سٹیلتھ‘ ان ’ففتھ جنریشن‘ طیاروں کی ایک خاص بات ہے یعنی یہ ریڈار سے بچ نکلتے ہیں۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک طرف انڈیا کے لڑاکا سکواڈرن میں کمی واقع ہو رہی ہے اور چینی فضائیہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو ایسے میں انڈیا کو ایک سنگین انتخاب کا سامنا ہے۔ امریکہ سے جدید ترین لیکن مہنگے ایف 35 حاصل کیے جائیں یا پھر روس سے دفاعی تعلقات کو مضبوط بنا کر اس سے اس کے جدید ترین سٹیلتھ لڑاکا سخوئی ایس یو 57 طیارے حاصل کیے جائیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے اور امریکہ اور روس کے درمیان ’معرکے‘ کی خبریں زیادہ میڈیا کی حد تک ہی ہوتی ہیں۔ ان خبروں میں اس وقت بہت تیزی آئی جب حال ہی میں بنگلور میں یہ دونوں جنگی طیارے ایشیا کے سب سے بڑے ایئرشو ایرو انڈیا میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔
AFP
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر فیلو ایشلے جے ٹیلس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے انڈیا کو ایف 35 کی پیشکش عملی سے زیادہ علامتی لگتی ہے جو کہ ان کی امریکی اسلحہ فروخت کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
انڈین فضائیہ کی توجہ اس کے اپنے مقامی ’ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ‘ (اے ایم سی اے) اور مزید رفال طیاروں کے حصول پر ہے تو ایسے میں ’ففتھ جنریشن‘ کے ان طیاروں کی انڈیا کو فروخت ایک چیلنج ہوگا خاص طور پر انڈیا کو جب ان طیاروں کی پیداوار کے حقوق میں شریک نہیں بنایا جاتا۔
خیال رہے کہ انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کی طرف سے تیار کیا جانے والا اے ایم سی اے انڈیا کا اپنا ’سٹیلتھ فائٹر‘ ہے یعنی ایسا جنگی طیارہ جو ریڈار سے بچ نکلتا ہے۔
ایشلے کے خیال میں اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ایف 35 کے مشترکہ پیداواری حقوق انڈیا کو مل سکیں گے۔ ان کی رائے میں انڈیا کے لیے ان طیاروں کا حصول ایک عام فروخت کے معاہدے کے تحت ہی ممکن ہو سکے گی۔
ایشلے نے مزید کہا کہ اب اس بات کے امکانات کم ہیں کہ امریکہ مودی کی شرائط پر ان طیاروں کی انڈیا میں پیداوار کی اجازت دے اور پھر انڈیا ان پر امریکی کڑی نگرانی قبول کرے۔
سکیورٹی امور کے ماہر سٹیفن برائن کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ایف 35 کے حصول کی صورت میں جو چیلنجز درپیش ہوں گے ان میں انتہائی مہنگی قیمت ادا کرنا ہوگی، ’اس کا ان طیاروں کی دیکھ بھال اور درستگی پر بہت زیادہ خرچہ ہوگا اور آپریشنل مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ ان کے مطابق ’امریکی فضائیہ کے لیے جیٹ کی دستیابی تقریباً 51 فیصد بنتی ہے۔‘
سٹیفن کے مطابق ’سوال یہ ہے کہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ روسی ساختہ طیارے زیادہ مؤثر ہوں گے کیا انڈیا ایف 35 میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہو گا۔‘
ابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟ابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟دفاعی ساز و سامان خریدنے پر اصرار اور تجارتی تعلقات میں برابری، ٹرمپ انتظامیہ انڈیا سے کیا چاہتی ہے؟ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت: صدر ٹرمپ کی پیشکش نے کیسے انڈیا کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا؟
بہت سے مبصرین کے خیال میں انڈیا کی روس کے ساتھ ایس یو 57 کی خریداری کی ڈیل ممکن نہیں ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی منتقلی، لاگت کے اشتراک، مزید کچھ خصوصیات پر اختلافات اور اس طیارے کی مشترکہ پیداوار پر تنازع پیدا ہونے کے بعد 2018 میں انڈیا اس پروگرام سے باہر نکل گیا تھا۔
تاہم یہ بات حتمی ہے کہ انڈیا کی فضائیہ اب بہت عرصے سے اس کے انتطار میں ہے اور اسے لڑاکا طیاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
انڈین فضائیہ کے پاس لڑاکا اور جنگی طیاروں کے 31 سکواڈرن ہیں، جن میں زیادہ تر روسی اور سوویت یونین کے دور کے ائیرکرافٹ ہیں۔ انڈیا کے لیے ایک اہم چیلنج روسی ساختہ سخوئی-30 کا ایسا متبادل ڈھونڈنا ہے جو طویل عرصے تک استعمال میں آ سکے۔
نیویارک میں البانی یورنیورسٹی کے ماہر سیاسیات کرسٹوفر کلیری نے حال ہی میں اعدادوشمار بتا کر یہ نکتہ اٹھایا کہ 2014 سے 2024 تک چین نے 435 لڑاکا اور زمینی حملہ کرنے والے طیارے اپنی فوج کے حوالے کیے ہیں جبکہ پاکستان نے اس عرصے میں 31 مزید ایسے طیارے اپنی فوج کو دیے جبکہ انڈیا کے بیڑے میں 151 طیاروں کی کمی واقع ہوئی ہے۔
انڈیا لڑاکا طیارے خود ہی تیار کر رہا ہے اور اب 500 سے زیادہ نئے طیارے حاصل کرنے کی تیاری میں ہے۔ انڈیا جو نئے جہاز حاصل کرنا چاہتا ہے ان میں زیادہ تر چھوٹے جنگی طیارے شامل ہیں۔
83 تیجس مارک 1اے کے لیے آرڈر کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ انڈیا کی طرف سے ایسے مزید 97 طیاروں کا جلد آرڈر دیے جانے کی امید ہے۔ مزید یہ کہ اس وقت بھاری اور زیادہ جدید مارک 2 پر کام ہو رہا ہے۔ مقامی طور پر بنائے جانے والے سٹیلتھ طیارے کی تیاری میں ایک دہائی لگ جائے گی۔
انڈین حکومت نے اپنی فضائیہ کے لیے 20 بلین ڈالر کے ملٹی رول فائٹر ائیر کرافٹ (ایم آر ایف اے) پروگرام کے تحت 114 ملٹی رول لڑاکا طیارے خریدنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدے کے تحت یہ غیر ملکی جیٹ انڈیا میں تیار کیے جائیں گے۔
AFP
انڈین حکومت رفال طیاروں سے متعلق ایک شفاف اور غیر متنازع خریداری کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ انڈین حکومت کو 36 رفال طیاروں کی خریداری کی ڈیل پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ڈیل 2019 سے تعطل کا شکار ہے۔ اس ڈیل کے تحت پانچ طیاروں پر ابھی تنازع چل رہا ہے جبکہ رفال پہلے ہی انڈین فضائیہ کے استعمال میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی فضائیہ کو جدید بنانے میں تین اہم رکاوٹیں درپیش ہیں: فنڈنگ، (معاہدوں میں) تاخیر اور غیر ملکی طیاروں پر انحصار۔
انڈیا کے دفاعی اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ غیر ملکی لڑاکا طیاروں کے پروگرام پر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ انڈیا مقامی ساختہ لڑاکا طیاروں کو ترجیح دیتا ہے مگر اس کے ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے ادارے کی طرف سے تاخیر غیرملکی خریداروں کے لیے مسائل کا باعث بنتی ہے اور انھیں ایسی ڈیل سے دور کر دیتی ہے۔
اب اس کا حل یہی ہے کہ انڈیا وقت پر مقامی ساختہ طیارے فضائیہ کے حوالے کرے۔ جیٹ طیاروں کے لیے جنرل الیکٹرک کے ایف-404 انجنوں کی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے بھی ان کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
جیو پولیٹکل خطرات کا پتا چلانے والی فرم یوریشیا گروپ سے وابستہ تجزیہ کار راہول بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ایک اہم چیلنج وزارت دفاع کے وژن اور انڈین فضائیہ کی ضروریات کے درمیان پائی جانے والی عدم مطابقت ہے۔
ان کے مطابق تیجس مارک 1 پر انڈین فضائیہ کی طرف سے ابتدا میں ہی شکوک کا اظہار کیا گیا۔ جس کے بعد پھر اس طیارے کو مزید بہتر کر کے مارک 1اے اور مارک 2 کیا گیا۔ مگر ان طیاروں کی تیاری میں ایک دہائی کا طویل عرصہ مسلح افواج کو مایوسی میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں تبدیلی سے ان کی ضروریات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان جہازوں کی تیاری کے اس عمل میں مزید تاخیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس طرح کی تاخیر پر انڈین فضائیہ کے سربراہ اے پی سنگھ بھی چپ نہ رہ سکے اور اس حوالے سے انھوں نے اپنی بے چینی کا اظہار کر دیا۔
ایئرمارشل اے پی سنگھ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کا عزم کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی دفاعی ضروریات کے لیے ’باہر سے کچھ نہیں خریدیں گے یا یہ کہ جو کچھ بھی انڈیا میں تیار ہو رہا ہے میں اس کا ہی انتظار کروں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ وقت پر نہیں ملے گا تو پھر میرے لیے ایسا عہد کرنا ممکن نہیں رہتا۔‘
AFP
انھوں نے مزید کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارے پاس لڑاکا طیاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور جتنی تعداد کا ہم سے وعدہ ہوا ہے وہ طیارے بھی سست رفتاری سے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔
تیجس مارک 1اے کی فراہمی میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پھر ہمیں باہر جانا ہوتا ہے تا کہ اس فرق کو جلدی سے پورا کیا جا سکے۔‘
خیال رہے کہ تیجس طیارے گذشتہ برس فروری میں انڈین فضائیہ کو ملنے تھے مگر ان کی فراہمی ابھی تک شروع نہیں ہو سکی ہے۔
انڈیا کی ترجیح مقامی ساختہ سٹیلتھ لڑاکا طیارے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انڈیا نے ایک بلین ڈالر سے زیادہ فنڈ مختص کر رکھا ہے۔
راہول بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا کو خطرات میں تبدیلی محسوس ہوئی تو پھر وہ غیرملکی سٹیلتھ کی طرف بھی جائے گا۔ چین کے پاس اس وقت دو نام نہاد سٹیلتھ جنگی طیارے ہیں جن کا نام جے-20 اور جے-35 ہے۔ مگر ان کا معیار امریکی طیاروں جیسا نہ ہونے کا امکان ہے۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا جدید لڑاکا طیاروں کے لیے روس اور امریکہ دونوں کا ہی انتخاب نہیں کرے گا۔ اگر مختصر دورانیہ کے لیے ایسی ضرورت ہوئی تو پھر ماضی کی طرف انڈیا اس فرق کو پورا کرنے کے لیے غیرملکی طیاروں کی خریداری کی طرف چلا جائے گا۔
مگر انڈیا کی درمیانے عرصے کے لیےترجیح دوسرے ممالک سے اشتراک کے ساتھ طیاروں کی ساخت کرنا ہے۔ طویل عرصے کے لیے یہ واضح ہے کہ انڈیا اپنی ضرورت کے لیے خود طیاروں کی ساخت چاہتا ہے۔
انڈیا کے لیے فضائی طاقت محض جنگی طیارے خریدنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایسے طیارے بنانا اس کا ہدف ہے۔ وہ ایسا کسی مضبوط مغربی اتحادی کے ساتھ مل کر ایسا کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس وژن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انڈیا مقامی سطح پر تیار کردہ طیاروں کی بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنائے۔
ابھینندن ورتھمان: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟ابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایاایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت: صدر ٹرمپ کی پیشکش نے کیسے انڈیا کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا؟روس کے سوخوئی 35 لڑاکا طیارے جو ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں مشکل بنا سکتے ہیںکیا جے ایف 17 تھنڈر رفال طیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟