سعودی عرب نے جارحانہ حکمت عملی ترک کر کے ’بین الاقوامی ثالث‘ کا کردار کیوں اپنایا اور بطور ثالث یہ قطر سے کیسے مختلف ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 11, 2025

Reutersیوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی روس کے ساتھ ایک ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں

یوکرین جنگ کے خاتمے اور روس سے امن معاہدے کی کوششوں کے سلسلے میں امریکی اور یوکرینی حکام کی سعودی عرب میں بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔

مذاکرات کے آغاز سے قبل سعودی عرب میں موجود امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ یوکرین کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ​​کے خاتمے کے لیے پیش کی گئی جزوی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کا امکان ہے۔

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اُن کی نظر میں یہ تجویز کافی نہیں ہے لیکن اس تنازع کے خاتمے کے لیے اس قسم کی رعایتیں دینا ضروری ہیں۔

روس اور یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے لیے سعودی عرب کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اِس کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔

سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے جنگ میں ملوث دونوں فریقین کے بیچ ثالثی کی جائے گی۔

سعودی عرب کا پڑوسی ملک قطر گذشتہ دو دہائیوں کے دوران عالمی سطح پر ایک ثالث بن کر اُبھرا ہے جو فریقین کے بیچ امن معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ قطر نے حال ہی میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کروائی ہے۔ ماضی میں بھی اس نے کئی ملکوں اور گروہوں کے بیچ لڑائیاں ختم کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

سعودی عرب اور قطر دونوں نے بین الاقوامی ثالث بننے کا انتخاب کیوں کیا ہے اور کیا اس وجہ سے دونوں (قطر اور سعودی عرب) کے بیچ دراڑ بھی پید ہوئی ہے؟

سعودی عرب امن معاہدے کیوں کرانا چاہتا ہے؟Getty Imagesسعودی عرب نے فروری 2025 میں امریکی اور روسی سفارتکاروں کے بیچ بات چیت کی میزبانی کی تھی

سعودی عرب کو عالمی سطح پر کئی برس تک اپنی جارحانہ حکمت عملی کے لیے جانا جاتا تھا۔

سنہ 2015 میں اس نے یمن میں جاری خانہ جنگی میں مداخلت کی تاکہ مقامی حکومت کی حمایت کی جا سکے۔ اس نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی بمباری اور گولہ باری کی۔

سنہ 2017 میں لبنان کی حکومت نے سعودی عرب پر اپنے وزیر اعظم سعد الحریری کو حراست میں لینے کا الزام لگایا تاکہ ان سے زبردستی استعفی لیا جا سکے۔

سنہ 2018 میں سعودی حکومت کے معروف ناقد صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارتخانے میں حکومتی ایجنٹوں نے قتل کیا۔

اس واقعات کے تناظر میں واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر پال سالم کہتے ہیں کہ ’محمد بن سلمان کی قیادت کے ابتدائی ایام میں وہ تصادم کی راہ پر گامزن رہے۔‘

Getty Imagesسعودی عرب نے یمن میں جاری خانہ جنگی میں مداخلت کی تھی اور حوثی باغیوں پر فضائی اور زمینی گولہ باری کی تھی

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تاہم اس کے بعد محمد بن سلمان نے ثالثی اور امن معاہدوں میں ایک بہتر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے بجائے کہ لڑائیوں کو مزید وسعت دی جائے۔‘

امریکہ میں قائم تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹیٹیوٹ، جو مشرق وسطیٰ کے امور پر مہارت رکھتا ہے، سے وابستہ الزبیتھ ڈینٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا امن معاہدے کرانے کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ میں استحکام کو فروغ دینا ہے۔

اسرائیل، حماس جنگ بندی کا ثالث: قطر کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے؟غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیاسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیاماضی کے باغی اور جنگجو: وہ شخصیات جنھوں نے جنگ کا میدان چھوڑ کر سیاست کا میدان سنبھال لیا

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ اُس کی حکمت عملی کا اہم پہلو ہے۔ اس میں تیل کی برآمدات پر انحصار کم کرنا اور نئے معاشی شعبوں کے لیے غیر ملکی کاروبار کو دعوت دینے میں مدد کرنا شامل ہے۔‘

سعودی عرب کو امن معاہدوں میں کتنی کامیابیاں حاصل ہوئی؟

مشرق وسطیٰ میں بطور ثالث سعودی عرب کی تاریخ دہائیوں پرانی ہے۔

سنہ 1989 میں اس نے یمن میں جنگ میں ملوث فریقین کے درمیان بات چیت کرائی جس کے بعد طائف معاہدہ ہوا اور 1990 میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یوں یمن میں 15 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔

سنہ 2007 میں سعودی عرب نے مکہ معاہدے میں ثالثی کی جس سے فلسطینی گروہوں حماس اور فتح کے بیچ دشمنی ختم ہوئی۔

حالیہ عرصے کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے دوبارہ سعودی عرب کے بطور ثالث کردار کو نمایاں کیا ہے۔

سنہ 2022 سے اس کی یمن میں حوثی باغیوں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے تاکہ وہاں جنگ بندی کرائی جا سکے۔

سعودی عرب سوڈان کی لڑائی میں اِس ملک کی مسلح افواج اور نیم فوجی باغی گروہ کے بیچ طویل عرصے سے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔

سعودی عرب نے روس اور یوکرین کے درمیان 2022 میں بھی ایک معاہدہ کروایا تھا جس کے ذریعے 250 سے زیادہ جنگی قیدیوں کی واپسی ممکن ہوئی تھی۔

Getty Imagesسعودی عرب نے 1989 میں لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے طائف معاہدہ کرایا تھاقطر نے کون سے امن معاہدے کرائے ہیں؟

مصر اور امریکہ کے علاوہ قطر وہ مرکزی ثالث تھا جس نے جنوری 2025 میں حماس اور اسرائیل کے بیچ جنگ بندی کروائی۔

سنہ 2020 میں قطر نے امریکہ اور طالبان کے بیچ امن معاہدہ کروایا تھا جس سے افغانستان میں 18 سالہ جنگ کا اختتام ہوا۔ اس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے افغانستان سے انخلا اور ملک کا انتظام افغان طالبان نے سنبھال لیا۔

سنہ 2010 میں اس نے اپنی حکومت اور حوثی باغیوں کے بیچ جنگ بندی کرائی (مگر یہ معاہدہ ناکام رہا تھا)۔

اس نے افریقہ میں بھی امن معاہدوں میں ثالثی کی ہے۔ ان میں سے ایک چاڈ میں حکومت اور درجنوں اپوزیشن گروہوں کے بیچ 2022 کی جنگ بندی تھی۔ سنہ 2010 میں قطر نے سوڈان کی حکومت اور مغربی صوبے دارفور میں مسلح گروہوں کے بیچ امن معاہدہ کروایا تھا۔

سنہ 2008 میں اس نے لبنان کے مخالف گروہوں کو ایک میز پر بٹھایا۔ اس وقت وہاں اُن کے بیچ دشمنی کی وجہ سے نئی خانہ جنگی کا خدشہ تھا۔

قطر امن معاہدے کیوں کرانا چاہتا ہے؟Getty Imagesقطر کے گیس کے ذخائر ایران کے پانیوں سے ملتے ہیں لہذا اسے ایران کا تعاون درکار رہتا ہے

جب سنہ 1995 میں حماد بن خلفیہ الثانی قطر کے امیر بنے تو اس ملک کا بطور ثالث کردار نمایاں ہونے لگا۔ وہ سنہ 2013 تک قطر کے امیر رہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قطر خلیج میں گیس کا ذخیرہ بنانا چاہتا تھا جسے ’حقل فارس الجنوب‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی دریافت 1990 میں کی گئی تھی۔

لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر کا کہنا ہے کہ چونکہ گیس کے یہ ذخائر قطر اور ایران دونوں کے علاقائی پانیوں میں پھیلے ہوئے تھے تو اس لیے قطر کو ایران کا تعاون درکار تھا جو کہ اس وقت سعودی عرب کا دیرینہ دشمن سمجھا جاتا تھا۔

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’جب قطر نے اپنے گیس کے ذخائر دریافت کیے تو اسے احساس ہوا کہ اسے اپنے لیے راستہ اپنانا ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس نے امن کے ثالث کا کردار نبھانے کا انتخاب کیا کیونکہ ’اگر اگر آپ کے کئی ملکوں کے ساتھ مثبت تعلقات ہوں تو آپ ممالک کا ایک نیٹ ورک تشکیل دے سکتے ہیں جو آپ کی مدد اور حمایت کر سکتا ہے۔‘

قطر کی ثالثی کا کردار اس کے اپنے سنہ 2004 کے آئین میں بھی درج ہے۔

ڈاکٹر سالم کہتے ہیں کہ ’قطر نے بین الاقوامی ثالثی کو اپنا قومی برانڈ بنایا ہے اور اپنی شناخت ایک ایسے ملک کے طور پر کی ہے جسے دوسرے استعمال کر سکتے ہیں۔‘

سعودی عرب اور قطر بطور ثالث کتنے مختلف ہیں؟Getty Imagesاخوان المسلمین کی حمایت پر قطر کو سعودی عرب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا

قطر کا انتخاب اکثر امن معاہدوں کے لیے ثالث کے طور پر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ان گروہوں کے ساتھ روابط رکھتا ہے جن کے ساتھ سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے روابط نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر سالم کہتے ہیں کہ ’قطر کی سعودیوں کے برعکس اخوان المسلمین، حماس اور طالبان جیسے سخت گیر اسلامی گروہوں کے ساتھ اتنی گہری دشمنی نہیں ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ قطر نے طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے اور یوں اس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان پُل کا کردار نبھایا۔ اسی طرح قطر کے حماس اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بدولت حال ہی میں اس کی ثالثی میں جنگ بندی ممکن ہوئی۔

ڈینٹ کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب روایتی معاملات اور فریقین کے بیچ ثالثی کراتا ہے جبکہ قطر غیر روایتی معاملات میں۔‘

تاہم قطر نے اخوان المسلمین جیسے گروہوں کی حمایت کر کے سعودی عرب کی مخالفت کی ہے جسے سعودی حکومت اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

ڈینٹ کا کہنا ہے کہ ’عرب سپرنگ (2010 اور 2011) میں قطر نے شام اور لیبیا میں اپوزیشن گروہوں کی حمایت کی۔ اس نے اپنی پوزیشن کو بہت سادہ بنا دیا۔‘

یہ سنہ 2017 کی ’خلیجی دراڑ' کا باعث بنا جس میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں نے قطر سے تمام تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

ڈینٹ کہتی ہیں کہ ’اس دراڑ کے بعد قطر شدت پسند گروہوں کے ساتھ معاملات میں اپنے پڑوسی ملکوں سے بھی رابطہ کرتا ہے۔‘

’اب یہ بطور ثالث زیادہ غیر جانبدار ہے۔‘

ڈاکٹر ہیلیر کے مطابق قطر اور سعودی عرب کے بیچ اس بات پر تصادم نہیں ہوتا کہ امن معاہدہ کون کرائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’قطر آج کل سعودی عرب سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتا اور سعودی عرب قطر کے کیسز میں سے کوئی فائل نہیں لینا چاہتا۔‘

’افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اب بھی کافی تنازعات موجود ہیں تاکہ ان دونوں کو مصروف رکھا جا سکے۔‘

اسرائیل، حماس جنگ بندی کا ثالث: قطر کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے؟غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیقطری وزیراعظم کا پہلی مرتبہ کسی اسرائیلی چینل کو انٹرویو: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے سعودی عرب بحال کرے گا یا قطر؟اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیاماضی کے باغی اور جنگجو: وہ شخصیات جنھوں نے جنگ کا میدان چھوڑ کر سیاست کا میدان سنبھال لیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More