Getty Imagesطویل وقفے کے بعد گوشت کھانے والے افراد بعض اوقات معدے پر اس کے ناخوشگوار اثرات کی بات کرتے ہیں
ایسے افراد جو ایک لمبے عرصے تک گوشت کھانے کے بعد اِس کا استعمال ترک کر دیتے ہیں وہ اکثر اُن ناخوشگوار اثرات کی شکایت کرتے ہیں جن کا سامنا انھیں اُس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ طویل وقفے کے بعد دوبارہ گوشت کا استعمال شروع کرتے ہیں۔
مگر کیا ایسا ممکن ہے کہ طویل عرصے تک گوشت کا استعمال نہ کرنے پر آپ کا جسم اسے ہضم کرنا ہی بھول جائے؟
برطانوی حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں گوشت کی کھپت میں کمی آ رہی ہے۔ سنہ 1980 سے سنہ 2022 کے درمیان گائے اور بھیڑ وغیرہ کے گوشت کی کھپت میں 62 فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک وجہ عوام کے زیادہ بڑھتے اخراجات بھی ہیں اور اب وہ زیادہ گوشت کھانا افورڈ نہیں کر پاتے۔
ایسے میں بہت سے لوگ یقیناً گوشت کا استعمال ترک کر رہے ہیں۔
لیکن اگر آپ طویل وقت تک گوشت نہیں کھاتے تو کیا ایسا کرنے سے کہیں آپ کا معدہ یہ تو نہیں بھول جاتا کہ اُس نے گوشت کو کیسے ہضم کرنا ہے اور جسم کی گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت میں کوئی تبدیلی تو نہیں آتی؟
سبزیوں کا زیادہ استعمال کرنے والے یا سبزی خور افراد بعض اوقات سوشل میڈیا پر یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ آیا گوشت کے دوبارہ سے استعمال کرنے سے پیٹ میں درد، کسی بھی قسم کی سوزش یا اپھارہ اور دیگر علامات سامنے آتی ہیں؟ تاہم ایسے میں کُچھ لوگ اپنے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے گوشت کھانے کے بعد رات کو پیٹ میں اٹھنے والے درد کی شکایت کرتے ہیں۔
Getty Images’پھلوں، سبزیوں اور پھلیوں میں موجود فائبر کے برعکس گوشت عام طور پر بہت آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے‘
امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں غذائیت کے پروفیسر سینڈر کرسٹن کا کہنا ہے کہ اس بارے میں زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ طویل وقفے کے بعد گوشت کھانے سے پیٹ خراب ہو سکتا ہے یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شواہد کی کمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ اس معاملے کا لوگوں نے مطالعہ نہیں کیا۔‘
یہ عین ممکن ہے کہ کسی کو گوشت کھانے سے الرجی ہو تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ الفا گیل سنڈروم، وہ کیفیت یا مرض ہے کہ جس میں انسان کا مدافعتی نظام جانوروں کے گوشت کھانے سے ملنے والی پروٹین کو اپنے خلاف ایک حملہ آور کے طور پر شناخت کرتا ہے اور ایسے میں انسانی جسم کو ’اینافیلیکسس‘ نامی الرجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کی وجہ سے موت بھی ہو سکتی ہے۔
(اینافیلیکسس ایک ایسی الرجی ہے کہ جس میں انسانی جسم پر خارش کا ہونا، سانس لینے میں مُشکلات کا سامنا کرنا، گلے اور سینے کی جکڑن، چہرے، ہونٹوں اور آنکھوں کے گرد سوجن کا ہونا شامل ہوتا ہے۔)
پروفیسر کرسٹن کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو گوشت سے پرہیز کر رہے ہیں انھیں یہ علم ہونا کہ انھوں نے نادانستہ طور پر گوشت کھا لیا ہے جذباتی طور پر تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ کُچھ لوگ تو ویگن یا سبزی خور ہوتے ہوئے اپنے اپنے اس عمل کو اپنے ہی اصولوں کی ایک سنگین خلاف ورزی تصور کرتے ہیں۔
لیکن جب آپ ہاضمے کے نظام کی تفصیل پر غور کرتے ہیں تو یہ اتنا قابل عمل نہیں ہے کہ جسم طویل عرصے تک گوشت کو ہضم کرنے کی صلاحیت کھو سکتا ہے۔
پھلوں، سبزیوں اور پھلیوں میں موجود فائبر کے برعکس گوشت عام طور پر بہت آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے۔ گوشت کو ہضم کرنے کے لیے ہمارے جسم کو ہمارے مائیکروبائیوم کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جس کے جراثیم اسے ہضم کرنے کے لیے ضروری انزائم خارج کرتے ہیں۔
انسانی معدے کا مائیکروبائیوم اس بات پر منحصر ہے کہ اس کا میزبان کیا کھاتا ہے یعنی انسان کھانے پینے میں کن عادات کا مالک ہے۔
اس کے علاوہ، سبز پتوں یا سبزیوں سے حاصل ہونے والیپروٹین کو ہضم کرنے کے لیے انسانی معدے میں وہیانزائم ہیں جو گوشت کی پروٹین میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ انزائم پروٹین میں موجود مخصوص کیمیائی بانڈز کو پہچانتے ہیں اور انھیں الگ کرتے ہیں۔ چاہے وہ پودوں یا جانوروں سے ہی حاصل کیوں نہ کیے گئے ہوں۔ پروٹین بلڈنگ بلاکس سے بنے ہوتے ہیں جنھیں امینو ایسڈ کہا جاتا ہے۔
یہ عمل جانوروں کے دودھ میں پائی جانے والی مٹھاس یا لیکٹوز سے مختلف ہے۔ لیکٹوز کو ہضم کرنے کے لیے آپ کے جسم کو ایک مخصوص انزائمکی ضرورت ہوتی ہے جسے لیکٹاس کہا جاتا ہے اور جو لوگ انزائم کی کافی مقدار پیدا نہیں کرتے ہیں وہ دودھ سے بنی یا ڈیری مصنوعات کھانے کے بعد پیٹ کی خرابی یا اس میں درد کی شکایات کر سکتے ہیں۔
کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’گوشت کی پروٹین کے ساتھ یہ سب سوچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جسم کسی طرح برگر کو آرام سے ہضم کرنے کے لیے ضروری انزائمز بناتا ہے، وہ تو ہمیشہ سے ہی ہمارے جسم میں موجود رہے ہیں۔‘
انسانی معدے کے مائیکروبائیوم یعنی نظام انہضام اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کیا کھاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات معدے میں موجود بیکٹیریا کی مخصوص اقسام میں تبدیلی آتی ہے۔کبھی کبھی معدے میں موجود جرثومے دوسرے انزائم بناتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگرچہ سبزی خوروں اور گوشت خوروںکے معدوں کے جائزوں میں مائیکرو بایوم کے درمیان فرق موجود ہے، لیکن وہ یکسر مختلف نظر نہیں آتے۔
Getty Images’آپ کا جسم آپ کی سوچ اور توقعات سے کہیں زیادہ خوبیوں کا حامل ہے اور یہ بہت کُچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ کسی بھی صورتحال میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘
غذائی تبدیلیوں کے نتیجے میں مائیکروبایوم تیزی سے تبدیل ہو سکتے ہیں، تاہم ایک تحقیق جس میں گوشت اور سبزی دونوں کا استعمال کرنے والے لوگوں نے مکمل طور پر گوشت پر مبنی غذا کا استعمال کیا تو ان کے معدے کے مائیکروبایوم میں ایک دن میں تبدیلی ہوئی تاہم جب انھوں نے گوشت کھانا چھوڑا تو فوراً یہ مائیکروبایوم معمول پر آ گئے۔
ایسے میں ان تبدیلوں کا سامنا کرنے والے افراد کو بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی بھی تکلیف یا مُشکل کی صورت میں اپنے معاج سے رابطہ کریں تاہم ایسا بہت کم ہوا ہے۔
اگر کسی انسان کو گوشت کے استعمال سے کوئی تکلیف یا مسئلہ پیدا بھی ہوتا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ وہ ایک طویل وقفے کے بعد کم وقت میں بڑی مقدار میں فائبر یا ریشہ دار اشیا یعنی گوشت کا استعمال کرتے ہیں جو ہاضمے کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
اس طرح کی غذائی تبدیلیوں پر نظر رکھنا بہتر ہے۔ کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’فائبر یعنی ریشہ دار اشیا پر منحصر ہے، آپ پر اس کا کس قسم کا اثر ہوتا ہے۔‘
قصہ مختصر یہ کہ آپ اگر اس بارے میں بہت زیادہ سوچیں گے یا اس بات کو اپنے ذہن پر سوار کریں گے کہ اگر آپ نے گوشت کھایا تو وہ آپ کو ہضم نہیں ہو گا تو عین مُمکن ہے کہ آپ کا جسم اسے ہضم کرنے کی صلاحیت کے باوجود ایسا نہ کر سکے۔
کرسٹن کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں طویل وقفے کے بعد گوشت کھانے کے بعد پیٹ کی خرابی یا کوئی اور مسئلہ ہو تو انزائمز کی کمی اس کی ذمہ دار نہیں ہے حالانکہ اس رجحان کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ہیں کہ ’آپ کا جسم آپ کی سوچ اور توقعات سے کہیں زیادہ خوبیوں کا حامل ہے اور یہ بہت کُچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ کسی بھی صورتحال میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘