حالیہ ہفتوں میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں برطانوی پاؤنڈ اور یورو کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ ترسیلات زر میں اضافے اور رمضان اور عید کی ضروریات کے باعث صارفین کی جانب سے بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکلوانے یا کرنسی ایکسچینج کرانے کو قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر یورو اور پاؤنڈ کی قیمت میں استحکام بھی ایک وجہ بتائی گئی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران ڈالر، یورو، برطانوی پاؤنڈ اور سعودی ریال کے مقابلے میں روپے کی قدر نسبتاً مستحکم رہی، لیکن مارچ کے وسط میں اچانک ایک بڑا اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد روپے کی قدر تیزی سے گری۔
مارکیٹ رپورٹس کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 278-280 روپے کے درمیان مستحکم تھی، لیکن 11 مارچ کے آس پاس ایک نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے بعد یہ تقریباً 294 روپے تک جا پہنچا تھا اور اب بھی 281 روپے سے اوپر ہے۔
اسی طرح یورو 290-300 روپے کے درمیان رہا، لیکن پھر اچانک 320 روپے کی سطح کو چھو گیا اور اس وقت بھی 304 سے 307 پاکستانی روپے کے درمیان موجود ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کی قیمت میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 350 روپے سے بڑھ کر 370 روپے تک جا پہنچا اور اس وقت بھی 365 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ سعودی ریال، جو کہ پاکستان میں ترسیلات زر کے لیے ایک اہم کرنسی ہے، 74 روپے کے قریب تھا، لیکن یہ بھی 78 روپے سے اوپر چلا گیا۔رمضان اور عید کے ایّام میں درآمدی اشیا کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ پڑتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)کرنسی ایکسچینج سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک اور عید الفطر کی آمد کے پیش نظر ملک میں زرمبادلہ کی طلب میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر اس دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ لوگ صدقات و خیرات دیتے ہیں اور اپنے خاندانوں کے لیے عید کی خریداری کرتے ہیں۔ایسی صورت میں بظاہر معیشت اور روپے کی قدر میں بہتری آنی چاہیے لیکن رمضان اور عید کے ایّام میں درآمدی اشیا کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ پڑتا ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں زیادہ تر اشیا درآمدی ہیں، جیسے خوردنی تیل، دالیں، چینی اور دیگر ضروری اشیا۔ ان مصنوعات کی خریداری کے لیے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو روپے کی مزید قدر میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان اور عید سے پہلے روپے کی قدر میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ منی ایکسچینج سے وابستہ شاہد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ بنیادوں پر رمضان اور عید کے دوران پاکستان میں خیرات، زکات اور فلاحی کاموں کے لیے زیادہ ترسیلات بھیجتے ہیں۔ اس سال بھی لاکھوں ڈالر اور یوروز پاکستان منتقل کیے گئے، جس کی وجہ سے ان غیر ملکی کرنسیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا اور ان کی قدر میں بہتری آئی، جبکہ روپے کی قیمت گری۔ دوسری طرف، مقامی معیشت، درآمدات کے مسائل اور سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ پر کردار ادا کر رہا ہے۔‘شاہد محمود کے مطابق ’ڈالر کے مقابلے میں عالمی سطح پر برطانوی پاؤنڈ اور یورو جیسی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)انھوں نے بتایا کہ ’ڈالر کے مقابلے میں عالمی سطح پر برطانوی پاؤنڈ اور یورو جیسی کرنسیوں کی قدر میں اضافہ ہوا ہے، جس سے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہوئی۔‘معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق ’اگرچہ یورو اور پاؤنڈ کی قدر میں بہتری روپے اور ڈالر کے تقابل میں زیادہ ہے اس لیے فوری طور یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ ملکی معیشت پھر سے ڈگمگا رہی ہے البتہ مستقبل میں معاشی صورتحال کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ آیا حکومت بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاہدے کو مستحکم کر پاتی ہے یا نہیں۔ اگر پاکستان کو اگلی قسط بروقت مل جاتی ہے، تو اس سے روپے پر دباؤ میں کچھ کمی آ سکتی ہے اور استحکام کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’تاہم اگر مذاکرات میں مزید تاخیر ہوتی ہے یا شرائط زیادہ سخت کی جاتی ہیں، تو روپے پر دباؤ برقرار رہنے کے امکانات ہیں، اور اس کے اثرات مہنگائی کی مزید شدت کی صورت میں عوام تک پہنچیں گے۔ جس کا اشارہ خود حکومت بھی دے چکی ہے۔‘