’بوگیوں پر گولیوں کے نشان، ہر طرف خون آلود کپڑے‘

اردو نیوز  |  Mar 16, 2025

ریلیف ٹرین کی کھلی بوگی میں بیٹھے ہم بولان کے سنگلاخ اور ویران پہاڑوں میں سے گزرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے جہاں گیارہ مارچ کی دوپہر کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا ٹرین ہائی جیکنگ کا واقعہ پیش آیا تو جا بجا ایسے مناظر نظر آئے جو حملے کی شدت بیان کر رہے تھے۔

درہ بولان میں ٹرین پر ہونے والے حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ صحافیوں کو جائے وقوعہ تک رسائی دی گئی-

کوئٹہ سے پشاور جانےوالی جعفرایکسپریس کو کوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ضلع کچھی ( بولان )کے پہاڑی علاقے میں پنیر اور پیرو کنری ریلوے سٹیشن کے درمیان بلوچ شدت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا ۔ بم دھماکے اور راکٹ حملوں کے بعد پٹڑی سے اتار کر ٹرین میں سوار چار سو سے زائد مسافروں کو یرغمال بنالیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ 36 گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس پیچیدہ آپریشن میں یرغمالیوں کا بازیاب کرا لیا گیا تاہم آپریشن سے پہلے 26 یرغمالی مسافر مارے گئے جبکہ سیکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکاروں نے حملے اور جوابی کارروائی کے دوران جانوں کی قربانیاں دیں۔

 

آپریشن، امدادی سرگرمیوں اور کلیئرنس مکمل ہونے تک صحافیوں کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں تھی تاہم سنیچر کو کوئٹہ سے صحافیوں کے ایک گروپ کو موقع کی طرف جانے کی اجازت دی گئی ۔اردو نیوز کی ٹیم بھی اس گروپ کا حصہ تھی۔

صحافیوں کو کوئٹہ سے بلوچستان حکومت کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اوسے پور کے مقام پر ایف سی کیمپ کے نزدیک ہیلی پیڈ پر اتارا گیا جہاں سے جائے وقوعہ تک پانچ کلومیٹر دورتھا- یہ سفر ہم نے ریلیف ٹرین میں بیٹھ کر طے کیا۔

اس دشوار گزار پہاڑی علاقے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات نظر آئے۔ ہر موڑ پر ایف سی کے جوان تعینات تھے ۔ کچھ اوپر پہاڑی چوکیوں پر پہرہ دے رہے تھے ۔

ٹرین ٹنل نمبر 8 آٹھ کے قریب پہنچی تو بریگیڈیئر عمر الطاف نے بتایا کہ اس ٹنل میں ایک چھوٹے سے غار میں لیویز اہلکار ایک لیویز اہلکار حملہ آوروں سے کئی گھنٹوں تک چھپ کر بیٹھا رہاجب سکیورٹی اہلکار یہاں پہنچے تو وہ باہر آیا-

جیسے ہی ہم نے تین سو فٹ لمبی اس سرنگ کو عبور کیا اور تاریکی روشنی میں بدل گئی تو سامنے متاثرہ ٹرین نظر آئی۔ سرنگ سے تقریباً پانچ سو فٹ کی دوری پر جعفرایکسپریس ایک موڑ پر کھڑی تھی ۔

ٹرین کو دو پہاڑوں کے درمیان ایسے مقام پر نشانہ بنایا گیا تھا جو بہت ویران تھا اور اس کے قریب کوئی آبادی نہیں تھی۔

حکام کے مطابق دہشت گرد تمام یرغمالیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

ٹرین حملے کے مقام پر پہنچنے کے بعد پہلی نظر انجن پر پڑی تو اس کی ونڈ سکرین پر گولیوں کے نشانات واضح تھے جس کے سبب ایک ونڈ سکرین ٹوٹ بھی گئی تھی- جبکہ تباہ شدہ فیول ٹینک سے تیل کے بہنے سے دھبے بن گئے تھے۔

انجن اور ٹرین کی پانچ بوگیاں پٹڑی سے اتری ہوئی تھیں اور اس کے نیچے ٹریک کا بڑا حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ اس مقام پر گڑھا بھی بنا ہوا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق یہ گڑھا ٹریک کو اڑانے کے لیے کیے گیے دھماکے کی شدت سے بنا۔

ٹرین کے مشرقی جانب پہاڑ کے ساتھ چھوٹا سا وہ میدان نظر آیا جہاں زندگی اور موت نے جنگ لڑی۔ جہاں یرغمالیوں کو گھنٹوں تک بندوقوں کے سامنے بٹھایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ زمین پر جلی ہوئی جھاڑیاں اور خون کے دبے نظر آئے۔

اسی جگہ یرغمالیوں کے جوتے، کپڑے، سامان بکھرا ہوا تھا۔

ٹرین کی بوگیوں پر بھی جابجا گولیوں اور چند ایک حصوں پر راکٹ گولوں جیسے بھاری ہتھیاروں سے پڑنے والے نشانات موجود تھے جو حملے کی شدت کو ظاہر کر رہے تھے۔

اس دوران ایک صحافی بوگی کے اندر گیا تو انہوں نے بتایا کہ ٹرین کے اندر سیٹیں اکھڑی ہوئی تھیں، کئی بوگیوں کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ فرش پر بعض جگہ بکھرے ہوئے شیشے اور خون کے دھبے موجود تھے- مسافروں کا سامان بکھرا پڑا ہوا تھا۔

انجن اور ٹرین کی پانچ بوگیاں پٹڑی سے اتری ہوئی تھیں (فوٹو: اردو نیوز)

 اس دوران ایک سکیورٹی اہلکار نے نیچے آنے کا کہا اور بتایا کہ اندر جانا منع ہے کیونکہ بہت سے مسافروں کا قیمتی سامان ابھی تک ٹرین میں موجود ہے۔

پہاڑ کے ساتھ مغربی جانب نیچے ندی بہتی ہے لیکن ان دنوں خشک تھی۔ یہی ندی اور جھاڑیاں جان بچانے کے لیے بھاگنے والوں کے چھپنے کے کام آئی۔

جائے وقوعہ پر فرنٹیئر کور سبی سکاؤٹس کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر عمر الطاف اور ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینئر رشید امتیاز صدیقی نے صحافیوں کو بریفنگ دی۔

بریگیڈیئر عمر کے بقول ’اس پورے علاقے میں ریلوے ٹریک کے علاوہ کوئی مواصلاتی ڈھانچہ موجود نہیں ۔ یہاں تک کوئی سڑک آتی ہے اور نہ ہی کوئی موبائل نیٹ ورک کام کرتا ہے۔اس مشکل علاقے میں ایف سی ٹرینوں اور ریلوے کی حفاظت کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ’ گیارہ مارچ کو دن ایک بجے ٹرین پر حملے سے پہلے ایف سی کی چوکی پر حملہ کیا گیا اس دوران ٹرین اس طرف آرہی تھی ۔ چوکی پر تعینات اہلکاروں نے جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے لیکن دہشتگردوں کی تعداد زیادہ تھی اور تین اہلکار شہید ہوگئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد دہشتگردوں نے ریلوے ٹریک کے ساتھ بم نصب کیا اور دھماکا کرکے ٹرین کو روک لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حملے کا ہمیں پہاڑ پر قائم چوکی کے ساتھ لگے کیمرے سے پتہ چل گیا ہم نے ان کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن ان پہاڑوں میں چھپنے او ر پیدل آنے جانے کے بہت سے راستے ہیں اس طرح وہ ٹرین تک پہنچ گئے۔ٹرین تک پہنچنے کے بعد انہوں نے مسافروں کو باہر نکال کر بٹھانا شروع کردیا جس کے بعد ہم نے ان کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ان لوگوں نے انسانوں کو بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کردیا۔‘

بریگیڈیئر عمر نے کہا کہ ’اس کے بعد ہماری کارروائی کا طریقہ بدل گیا اور ہم بڑے احتیاط کے ساتھ آگے بڑھے۔‘

ایک صحافی بوگی کے اندر گیا تو انہوں نے بتایا کہ ٹرین کے اندر سیٹیں اکھڑی ہوئی تھیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’ان پہاڑی چوٹیوں پر حملہ آور دور دور تک قبضہ کیے ہوئے تھے اور وہ کافی دور سے ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہے تھے ۔ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج تھا کیونکہ لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔‘  

ان کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی طور پر ہم نے مقامی سطح پر ردعمل دیاجو یہاں قریبی چوکی پوسٹیں اور فورسز کے دستے موجود ہیں انہوں نے جوابی کارروائی کی۔ ایف سی کی سبی سکاؤٹس کے علاوہ غزہ بند سکاؤٹس بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئی تھی۔ اس کے بعد دہشتگردی سے نمٹنے کی خصوصی دستے ایف سی کے سپیشل آپریشن ونگ کے دستے پہنچے اور انہوں نے کارروائیاں شروع کر دی۔ بعد ازاں فضائی کمک بھی حاصل ہوگئی۔ اگلے دن پاک فوج کےایس ایس جی کمانڈوز کی ضرار کمپنی پہنچی۔‘

کمانڈنٹ ایف سی سکاؤٹس کا کہنا تھا کہ جو تصویر سامنے آ رہی تھی وہ بڑی خوفناک تھی کیونکہ دہشتگرد تمام یرغمالیوں کو مارنے کا ارادہ رکھتے تھے اور ان سے آٹھ مقناطیسی بم بھی برآمد ہوئے جو دھماکے کے لیے تیار تھے اور وہ ٹرین کو اڑا سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمانڈوز نے بڑی مہارت اور درستگی کے ساتھ دہشتگردوں کا نشانہ لیا جس کے بعد وہ مزید کسی مغوی نہیں مار سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کا ایک بڑا گروپ کچھ دہشت گردوں کو یرغمالیوں کے پاس چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف نکل گیا, دہشتگرد سمجھے کہ وہ اب محفوظ ہیں لیکن ہم ان کا پیچھا کر رہے تھے اور ایک محفوظ فاصلے کے بعد انہیں انجام تک پہنچایا۔‘

 36گھنٹوں تک جاری رہنے والے طویل آپریشن کے دوران اور بعد میں مختلف افواہیں گردش کر رہی تھیں ۔ اس بارے میں ایف سی کے بریگیڈیئر عمر الطاف نے کہا کہ ’دہشت گرد کل تک منفی پروپیگنڈہ کررہے تھے لیکن ہم نے تمام یرغمالی بازیاب کرا کر دہشت گردوں کو ماردیا۔ وہ اس کو طول دینا چاہتے تھے لیکن ہم نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گیارہ مارچ کی دوپہر کو یہ حملہ ہوا اور 12 تاریخ کی شام تک ہم نے تمام دہشت گرد مار دیے۔‘

پاکستان ریلویز کے ڈپٹی چیف انجینیئر انفراسٹرکچر رشید امتیاز صدیقی نے بتایاکہ جعفر ایکسپریس کے ساتھ انجن کے علاوہ 10 بوگیاں لگی ہوئی تھیں، جن میں سے دھماکے کی وجہ سے انجن اور اگلی پانچ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ 398 فٹ ٹریک تباہ ہوا ہے۔ ٹرین کے موڑ پر کھڑی ہونے اور بلند پہاڑی سلسلے کی وجہ سے ٹریک کی بحالی ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم تمام ضروری اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں ٹریک کی بحالی کا کام شروع ہونے کے بعد 8 سے 9 گھنٹوں کے اندر مکمل کر لیا جائے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More