سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد ریاست قلات تقریباً 227 دن تک ایک آزاد اور خودمختار ریاست رہی۔ بہت سے لوگ ریاست قلات کو ’پاکستان کا حیدرآباد‘ کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قلات ایک آزاد ریاست تھی جو ابتدا میں پاکستان میں شامل ہنہیں ہوئی تھی بلکل جس طرح نظام حیدرآباد (دکن) نے بھی انڈیا میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ بلوچستان کا خطہ تین ممالک میں منقسم ہے۔ ان میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور ایران کے صوبہ سیستان-بلوچستان کے علاوہ ایک چھوٹا حصہ افغانستان میں بھی آتا ہے۔ افغانستان میں نیمروز، ہلمند اور قندھار تاریخی طور پر بلوچستان میں شامل رہے ہیں۔
لیکن کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟
Getty Imagesبانی پاکستان محمد علی جناحجب جناح نے آزاد بلوچستان کی حمایت کی
محمد علی جناح نے ریاست قلات اور حیدرآباد دونوں کو قانونی مشورہ دیا تھا کہ وہ 15 اگست 1947 کو برطانوی راج کے خاتمے کے بعد آزاد اور خودمختار ریاستوں کے طور پر رہ سکتے ہیں۔
دونوں ریاستوں کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ حیدرآباد 13 ستمبر 1948 کو انڈیا کی جانب سے بڑی فوجی کارروائی کے بعد انڈیا کا حصہ بن گیا۔
جرمن ماہر سیاسیات مارٹن ایکسمین نے بلوچ قوم پرستی اور اس کی تاریخ پر ایک اہم کتاب ’بیک ٹو دی فیوچر: دی خانیٹ آف قلات ایند دی جینیسس آف بلوچ نیشنلزم- 1915-1955‘ کے عنوان کے تحت لکھی ہے۔
اس کتاب میں مارٹن نے لکھا ہے کہ قلات کے بارے میں جناح کے مشورے سے برطانوی حکمران حیران رہ گئے کیوں کہ قلات حیدرآباد جیسا نہیں تھا۔
مارٹن ایکسمین نے لکھا ہے کہ ’20 مارچ سنہ 1948 کو خان آف قلات نے پاکستان میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔‘
’انھوں نے انڈیا اور افغانستان سے مایوس ہونے کے بعد ایسا کیا کیوں کہ خان آف قلات خود مختار رہنے میں انڈیا اور افغانستان سے مدد چاہتے تھے۔‘
پاکستانی مورخ یعقوب خان بنگش نے اپنی کتاب ’اے پرنسلی افیئر‘ میں لکھا ہے کہ ’قلات کے پاکستان میں شامل ہونے سے پہلے ہی یہاں جمہوری قوم پرست تحریک چل رہی تھی۔‘
’قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی (کے ایس این پی) نے 1945 میں آل انڈیا سٹیٹ پیپلز کانفرنس میں بھی حصہ لیا، جب اس کی صدارت جواہر لعل نہرو کر رہے تھے۔ دوسری طرف بلوچستان میں مسلم لیگ کو کبھی حمایت نہیں ملی۔‘
Getty Imagesگوادر پورٹریاست قلات کیا چاہتی تھی؟
یعقوب خان بنگش نے لکھا ہے کہ ’خان آف قلات اور کے ایس این پی نظریاتی طور پر جمہوری تھے۔ قوم پرست ہونے کے ناطے کے ایس این پی مسلم لیگ کی زیر قیادت پاکستان میں شامل ہونا نہیں چاہتی تھی۔ کے ایس این پی انڈیا سے قربت چاہتی تھی یا خان آف قلات کے ساتھ رہ کر ایک آزاد ریاست چاہتی تھی۔‘
پاکستان کے معروف تاریخ دان مبارک علی کا کہنا ہے کہ شاہی ریاستوں کا پاکستان میں انضمام اس شرط پر ہوا کہ حکومت ان کے اندرونی معاملات میں زیادہ مداخلت نہیں کرے گی۔
تاہم مبارک علی کہتے ہیں کہ ’رفتہ رفتہ ان شاہی ریاستوں کی خود مختاری مکمل طور پر ختم کر دی گئی۔ اس کی وجہ سے کئی ریاستوں کی بنیادی شناخت ختم ہونے لگی۔‘
’بلوچستان بھی ان شاہی ریاستوں میں سے ایک تھا۔ بلوچستان کسی بھی طرح پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں نہیں تھا۔ پاکستان نے اسے زبردستی شامل کیا۔ خان آف قلات آزاد قلات چاہتے تھے لیکن پاکستان ایسا نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی ریاستوں کے لیے آزاد رہنا اتنا آسان نہیں تھا۔‘
بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟جب بغاوت کے الزام کے تحت خان آف قلات کی گرفتاری کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن ہواجعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیچمالانگ کی لڑائی: جب بلوچ باغیوں کے خلاف امریکی گن شپ استعمال ہوئے
مبارک علی سے پوچھا کہ جب جناح شروع میں آزاد اور خودمختار قلات کے حق میں تھے تو بعد میں انھوں نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟
اس کے جواب میں مبارک علی نے کہا کہ ’دیکھیے، سیاست میں کوئی ایک چیز نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ چیزیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اس لیے لیڈروں کے بیانات پر نہیں جانا چاہیے۔ جب پاکستان بنا تو بلوچستان کے بارے میں جناح کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ لیکن پھر جناح نے ریاست قلات کو زبردستی پاکستان میں شامل کیا۔‘
’چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جوناگڑھ کے نواب پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن جہاں جوناگڑھ واقع ہے اس جگہ سے اس کا پاکستان کے ساتھ رہنا آسان نہیں تھا۔ اسی طرح جہاں قلات ہے اس کا انڈیا کے ساتھ رہنا ناممکن تھا۔‘
Getty Imagesانڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور وی کے میننجناح نے اپنا ارادہ کیوں بدلا؟
جب یہی سوال مورخ ٹی سی اے راگھون سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: ’جناح کے ذہن میں کیا تھا، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ جناح قلات کی آزاد حیثیت کی حمایت کر رہے تھے۔‘
’خان آف قلات کے ساتھ جناح کے تعلقات 1947 کے بعد نمایاں طور پر تبدیل ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ بعد میں انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔‘
مسٹر راگھون پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بلوچستان میں کچھ بھی ہوتا ہے تو انڈین میڈیا کے ایک حصے میں کہا جاتا ہے کہ ریاست قلات کے نواب نے ریاست قلات کو انڈیا سے الحاق کی تجویز دی تھی لیکن نہرو نے اسے قبول نہیں کیا تھا، اس میں کتنا سچ ہے؟
اس کے جواب میں مسٹر راگھون نے کہا کہ ’یہ واٹس ایپ کی تیار کردہ تاریخ ہے۔ نہرو اس زمانے کے بہت ہی قابل احترام رہنما تھے اور خان آف قلات ان کی بہت عزت کرتے تھے۔‘
’خان آف قلات چاہتے تھے کہ ان کی ریاست کی حیثیت باقیوں سے بالکل مختلف ہو۔ برطانوی سلطنت میں قلات کی حیثیت مقامی شاہی ریاستوں سے مختلف تھی۔‘
ٹی سی اے راگھون کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ ریاست قلات انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ خان آف قلات علیحدہ سٹیٹس چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ ایران، برطانوی سلطنت، پاکستان اور انڈیا سے بات کر رہے تھے۔‘
’اس کا مقصد قلات کے لیے الگ کیٹیگری بنانا تھا۔ قلات خود کو بہاولپور کی طرح نہیں دیکھتا تھا۔ ہمیں اس صورتحال کو سمجھنا چاہیے، نہ کہ جو جی میں آئے کہہ دیں۔‘
مبارک علی کا بھی کہنا ہے کہ ریاست قلات نے کبھی انڈیا میں شامل ہونے کی پیشکش نہیں کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’ریاست قلات آزاد اور خودمختار رہنا چاہتی تھی۔ وہ قلات کو آزاد رکھنے میں نہرو کی مدد چاہتے تھے۔ لیکن خان آف قلات نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ انڈیا میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘
’نہرو ایک بڑے لیڈر تھے، اس لیے خان آف قلات ان کی عزت کرتے تھے۔ لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نہرو نے قلات کو انڈیا کے ساتھ ضم کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔‘
Getty Imagesمحمد علی جناح
تاہم بلوچستان کے رہنما اور مورخ میر گل خان نصیر نے اپنی اہم تصنیف ’تاریخِ بلوچستان‘ میں لکھا ہے کہ 27 مارچ 1948 کو آل انڈیا ریڈیو نے وی کے مینن کی پریس کانفرنس کی رپورٹ نشر کی تھی۔
ان کے مطابق آل انڈیا ریڈیو نے مینن کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دو ماہ قبل خان آف قلات نے نئی دہلی سے رابطہ کر کے بلوچستان کو انڈیا میں ضم کرنے کی درخواست کی تھی لیکن یہ درخواست مسترد کردی گئی۔
گل خان نصیر نے قلات کے آخری خان احمد یار خان کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’یہ ایک سفید جھوٹ تھا۔ اس کا مقصد قلات اور پاکستان کے درمیان دشمنی پیدا کرنا تھا۔‘
’دوسرا مقصد یہ تھا کہ جھوٹی رپورٹ سے پاکستانیوں کو مشتعل کیا جائے اور جلد بازی میں وہ کوئی ایسا کام کر بیٹھیں جس سے کہ حیدرآباد میں انڈیا کو موقع مل جائے۔‘
تاہم یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ خان آف قلات اور انڈیا کا نام ایک ساتھ آیا ہو۔ خان آف قلات احمد یار خان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تمام مذاکرات کے دوران یہ کہا گیا کہ انڈیا میں شامل ہونے کا آپشن رکھنا پاکستان کے ساتھ سودے بازی کا حربہ ہے۔
ریاست قلات کے پاکستان میں شامل ہونے کے تقریباً چھ ماہ بعد ہی انڈیا نے حیدرآباد کو طاقت کے زور پر ضم کر لیا۔
احمد یار خان کے بارے میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر (1947) لارنس گریفٹی سمتھ نے کہا تھا: ’قلات کے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ شامل ہونے کی افواہوں کی تردید یہ ظاہر کرتی ہے کہ خان آف قلات ایسی افواہوں کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے استعمال کر رہے تھے۔‘
اس کے علاوہ 14 اگست 1947 کو گورنر جنرل نے انڈیا انڈیپنڈینس ایکٹ 1947 کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ انڈیا قلات اور پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے والی سرحد ڈیورنڈ لائن کی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا سکتا اور پاکستان میک موہن لائن پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔
جناح کے بعد بدلا ہوا رخ
جناح یونیورسل پاکستانی شہریت چاہتے تھے اور وہ پاکستان کی محض مذہبی شناخت کے حق میں نہیں تھے۔
11 اگست سنہ 1947 کو جناح نے اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ ’آپ سب آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندر اور مسجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ کا دورہ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ حکومت کسی کے ساتھ مذہب، ذات یا نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔‘
لیکن جناح کی موت کے بعد پاکستان میں حالات تیزی سے بدلتے چلے گئے۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956 میں نافذ کیا۔ اس کے بعد پاکستان میں ضم ہونے والی شاہی ریاستوں میں فوج اور بیوروکریٹس کا کنٹرول بڑھ گیا۔
یعقوب خان بنگش نے لکھا ہے کہ ’جغرافیائی طور پر ریاستیں پاکستان میں شامل ہو گئی تھیں لیکن سماجی انضمام نہیں ہوا تھا۔ قلات میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے زیادہ جگہ نہیں تھی۔ ایسے میں زیر زمین باغی بلوچ پاکستان کے خلاف ہو گئے۔‘
ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ’جب تک پاکستان بلوچستان کو سکیورٹی اور فوجی نقطہ نظر سے دیکھے گا، کوئی حل نہیں نکلے گا۔‘
بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟کاہان: بلوچستان کا امن اور نمائندگی سے محروم دور دراز علاقہ جہاں 180 سال قبل برطانوی فوج کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا تھاجب بغاوت کے الزام کے تحت خان آف قلات کی گرفتاری کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوافقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیاچمالانگ کی لڑائی: جب بلوچ باغیوں کے خلاف امریکی گن شپ استعمال ہوئےجعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی