کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں صورت حال کشیدہ ہوگئی۔کوئٹہ کے سول اور بولان میڈیکل ہسپتال کے اہلکاروں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ تصادم کے بعد دونوں ہسپتالوں میں تین افراد کی لاشیں اور سات زخمیوں کو لایا گیا ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ تصادم میں چار مظاہرین ہلاک اور درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ بی وائی سی نے دو لاشوں کے ہمراہ سریاب روڈ پر دھرنا دے دیا ہے۔
ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند کا کہنا ہے کہ لاشیں کس کی ہیں یہ تعین ہونا باقی ہے کیونکہ انہیں ضابطے کی کارروائی کے لیے ہسپتال نہیں لایا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ سڑک کھلوانے کی کوشش کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور تشدد کیا جس سے اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔یہ تصادم جمعے کی سہ پہر اس وقت شروع ہوا جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بی وائی سی کے مرکزی رہنما بیبرگ بلوچ سمیت کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔عینی شاہدین کے مطابق ریلی کے شرکا نے ٹائر جلا کر سڑک بند کی تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا جبکہ واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا۔مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف بے رحمانہ طاقت کا استعمال کیا اور بلا اشتعال فائرنگ کی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ سے چار افراد ہلاک اور درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔ان کے بقول درجنوں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوئی ہیں جبکہ ہسپتال میں داخل زخمیوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق مرنے والوں میں صحبت پور کا رہائشی 13 سال کے نعمت اللہ اور کوئٹہ کے علاقے سریاب کا رہائشی حبیب اللہ شامل ہیں جن کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر دھرنا شروع کردیا گیا ہے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن استعمال کیا (فوٹو: بی وائی سی)
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سنیچر کو بلوچستان بھر میں شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی ہے- بولان میڈیکل ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں مظاہرین دو افراد کی لاشیں ہسپتال لے کر آئے تھے۔ان کے مطابق ’یہ لوگ کچھ دیر بعد ہی لاشیں واپس لے کر چلے گئے۔ہسپتال میں لاشوں کی شناخت بتائی گئی اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی کی گئی۔‘اسی طرح کوئٹہ کے سول ہسپتال کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ ہسپتال میں امداد نامی شخص کی لاش لائی گئی جو راہ گیر بتایا جاتا ہے۔ان کے علاوہ سات زخمیوں کو بھی لایا گیا جن میں عدنان احمد ساتکزئی، دانیال محمد حسنی، سمیع اللہ، زین الدین، زوہیب احمد، عبدالرزاق خلجی اور محمد حفیظ شامل ہیں۔بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے قومی شاہراہ بند کرکے عوام کو مشکلات میں دوچار کیا۔ ’پولیس نے روڈ کھلوانے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کی جس پر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔‘ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کے تشدد سے لیڈی کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔
ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق ’کس کی میتیں رکھ کر احتجاج کیا گیا اس کا تعین ہونا باقی ہے‘ (فوٹو: بی وائی سی)
شاہد رند کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کس کی میتیں روڈ پر رکھ کر احتجاج کیا اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ جب تک مرنے والوں کی لاشیں ہسپتال لا کر ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں کی جاتی وجوہات کا تعین ممکن نہیں۔ترجمان نے کہا کہ امن وامان میں خلل ڈال کر افراتفری پھیلائی جا رہی ہے اور کسی کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جسے پورا کیا جائےگا۔یاد رہے کہ کوئٹہ میں دو دنوں سے موبائل فون انٹرنیٹ جزوی طور پر معطل تھا، تاہم اس واقعے کے بعد کوئٹہ میں موبائل فون نیٹ ورک مکمل بند کردیا گیا ہے۔گورنر اور وزیراعلٰی ہاؤس کی طرف جانے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند رکھا گیا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری بھی شہر میں مختلف مقامات پر تعینات ہے۔