BBCمدرسہ حدیث میں لڑکیاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ بارہویں جماعت تک سکول کی نصابی کتابیں بھی سیکھتی ہیں
'میں آٹھ سال کی تھی جب میرے دل کی سرجری ہوئی تھی اور یہ آپریشن ایک خاتون ڈاکٹر نے کیا تھا۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔'
بھاری حجاب اور ماسک پہنے بظاہر کمزور نظرآنے والے آمنہ نے مشکل سے ہم سے بات کی۔
آمنہ محمودی نامی اس لڑکی سے ہماری ملاقات جنوری 2025 کے وسط میں کابل میں ہوئی، جہاں ہر طرف اندھیرا اور سخت سردی تھی۔
یہ مذہبی تعلیم کا ایک نجی سکول ہے جسے آمنہ کے بھائی، قاری حامد محمودی نے اپنی بیمار بہن اور دیگر افغان لڑکیوں کے لیے بنایا تھا جو اب بھی سکول میں ہیں۔
افغانستان میں ایک اور تعلیمی سال لڑکیوں کی موجودگی کے بغیر ختم ہو گیا ہے اور چھٹی جماعت سے اوپر کی افغان لڑکیوں کے نئے تعلیمی سال میں اپنی کلاسوں میں جانے کے کوئی واضح آثار نظر نہیں آتے ہیں۔
آمنہ کے بھائی قاری حامد محمودی کہتے ہیں کہ 'جب سکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند ہو گئے تو میری بہن کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا میں وہاں بیٹھ کر جو کچھ کہا جائے اسے قبول نہیں کر سکتا۔'
محمودی کہتے ہیں کہ ان کے 'حدیث مدرسہ' میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ بارہویں جماعت تک درسی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہمارے پاس دائی، ابتدائی طبی امداد اور ٹیلرنگ کی کلاسز بھی ہیں۔ دائی کے کورس نے میری بہن کی ذہنی صحت میں بہت مدد کی۔'
لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ طالبان حکومت نے لڑکیوں کے لیے صحت کی تعلیم کے تمام مراکز پر پابندی کا اعلان کر دیا۔
اس صورتحال نے افغان لڑکیوں کے لیے دینی تعلیم کے مدارس میں بھی ماحول کو 'افسردہ' بنا دیا ہے۔
BBCآمنہ محمودی، اپنے بھائی قاری حامد محمودی کی ایک طالبہ ہیں جو کابل میں حدیث سکول کے بانی ہیں نصاب کیا ہے ؟
اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے کہا ہے کہ طالبان کی سخت پابندیوں سے دس لاکھ سے زائد بچیاں متاثر ہوئی ہیں۔
طالبان کی حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر پابندیاں لگانے کے بعد لڑکیوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے مذہبی سکولوں کا رخ کیا ہے۔
ان میں سے کچھ مدارس مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، جنھوں نے غریب اور کم آمدنی والے خاندانوں کی کافی توجہ حاصل کی ہے۔
وہ خاندان جو اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار کے نجی سکولوں میں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان مدارس سے مطمئن ہیں۔
بی بی سی نے کابل میں لڑکیوں کے دو الگ الگ مدارس کا دورہ کیا، ایک نجی اور ایک این جی او کے تحت چلنے والا۔
ان دینی مدارس میں خواتین اور لڑکیوں میں مذہبی انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان واضح ہے۔
میں کابل میں شیخ عبدالقادر جیلانی مدرسے کے عملے کی کڑی نگرانی میں اس کے مختلف حصوں کا دورہ کرنے میں کامیاب رہی۔
عبدالقادر جیلانی مدرسے کے بانی محمد ابراہیم بارکزئی کہتے ہیں، 'مذہبی مضامین کے علاوہ، ہماری رسمی کلاسوں میں بہت سے جدید مضامین، خاص طور پر خواتین کے لیے، بھی پڑھائے جاتے ہیں۔'
لیکن ریاضی، کیمسٹری، جغرافیہ اور پشتو کی چند پرانی اور فرسودہ کتابوں سے آگے ہمیں 'جدید مضامین' کی کوئی کتاب سمجھ نہیں آئی۔ لیکن یہاں آنے والے تمام طلبا کو دینی تعلیم کی کتابوں تک رسائی حاصل تھی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی مدرسے کے ذمہ داروں نے ہمیں وہاں پڑھائے جانے والے دینی مضامین کی ایک طویل فہرست بتائی، جن میں قرآن، تجوید، قضا، حدیث، فقہ، عربی، سرف، نحض، کنز الدقائق، ریاض الصالحین، قدوری، فقہ الاکبر، نور المسیرا، ابوہریرہ، ابوہریرہ وغیرہ احادیث، اصول حدیث اور دیگر شامل ہیں۔
اس مدرسہ کو عطیہ کی گئی تمام کتابیں مذہبی کتابیں ہیں۔
افغانستان میں لاکھوں لڑکیوں کے بغیر نئے تعلیمی سال کا آغاز: ’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خواب کسی گڑھے میں دفنا دیے گئے ہوں‘افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند: ’طالبان نہیں بدلے‘افغانستان میں طالبان نے خواتین پر کب کون سی پابندیاں عائد کیں؟ وہ افغان خواتین جو خاموش رہنے کو تیار نہیں: ’آپ ایک ہاتھ سے زندگی کیسے چلا سکتے ہیں‘BBCکابل کے شیخ عبدالقادر جیلانی سکول میں قرآن اور سلائی کی کلاسز
ہر سکول دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک رسمی اور دوسرا غیر رسمی۔ مدرسے کا رسمی حصہ باقاعدہ سکولوں اور تعلیمی نظام الاوقات سے کچھ مماثلت رکھتا ہے اور معیاری تعلیمی مضامین پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
تاہم مدارس کا ایک اور حصہ بنیادی طور پر مذہبی تعلیم اور زندگی کے کچھ دوسرے فنون پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جیسے کہ ٹیلرنگ۔
قابل ذکر یہ ہے کہ مدارس کے غیر رسمی حصوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
صرف مارچ 2024 میں شیخ عبدالقادر جیلانی کے مدرسے سے 250 سے زائد لڑکیاں فارغ التحصیل ہوئیں۔
ان میں سے 18 لڑکیاں دسمبر 2024 میں 12ویں جماعت سے فارغ التحصیل ہوئیں، جنہوں نے مذہبی مضامین کے علاوہ جدید نصاب کا مطالعہ بھی کیا۔
بیس سالہ ہادیہ داوری، جو حال ہی میں شیخ عبدالقادر جیلانی مدرسہ کی بارہویں جماعت سے فارغ التحصیل ہوئیں،کہتی ہیں کہ 'میں نے تقریباً چار سال قبل اس مدرسے میں شمولیت اختیار کی اور ایک ماہ قبل اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئی، اب میں اس مدرسے میں دیگر طلبہ کو قرآن پڑھاتی ہوں۔'
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے دوسرے مضامین بھی پڑھے جو اس وقت سکول میں پڑھائے جاتے ہیں، جیسے کہ ریاضی، طبیعیات، کیمسٹری اور جغرافیہ اور وہ کیمسٹری اور فزکس میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ لیکن اب وہ قرآن کی ٹیچر ہیں۔
الہدیٰ مدرسہ کی پشتو ٹیچر بیس سالہ صفیہ نیازی نے بھی ہم سے گفتگو میں اصرار کیا کہ لڑکیوں کو 'اصلاح کے مقصد سے' دینی مدارس میں جانا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں'مثال کے طور پر، غسل، وضو، مردوں اور عورتوں کے سجدوں میں فرق، اور نماز کی شرائط جیسی چیزوں کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔'
BBC20 سالہ صفیہ نیازی حدیث سکول میں پشتو زبان کی ٹیچر ہیں دینی مدارس کی ساخت اور حیثیت
شیخ عبدالقادر جیلانی مدرسہ تین منزلہ عمارت میں بنایا گیا ہے۔ بعض کلاس رومز کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
ایک نسبتاً بڑے کمرے میں ایک ہی وقت میں تین کلاسیں پڑھائی جاتی تھیں، جن میں دو الگ الگ سطح کے قرآنی مطالعہ کی کلاسیں ہوتی تھیں، جبکہ لڑکیوں کو سلائی کا کام سکھایا جاتا تھا۔
حجاب پہنے ہوئے، چہروں کو ماسک سے چھپائے لڑکیاں زمین پر بیٹھ کر پڑھتی ہیں۔
وہ طلباء جو مدارس کے باضابطہ حصے میں داخل ہیں اور دینی علوم کے علاوہ سکول کے باقاعدہ پروگرام بھی پڑھ رہے ہیں، انھیں موسم سرما کی چھٹیاں دی گئی تھیں اور ہم نے صرف ایسی لڑکیوں کو دیکھا جو مذہبی کلاسوں یا ٹیلرنگ کی کلاسوں میں موجود تھیں۔
مدرسے کی تیسری منزل پر تین چھوٹے کلاس رومز میں مختلف عمر کی لڑکیاں دینی علوم اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھیں۔
جنوری میں کابل میں بہت سردی تھی لیکن اس بڑے مدرسے میں صرف ایک ہی ہیٹر تھا۔ یہ چھوٹا سا بجلی کا چولہا اس مدرسے کی دوسری منزل پر انتظامیہ کے کمرے میں تھا جہاں مدرسے کے بانی اور ڈائریکٹربارکزئی بیٹھتے ہیں۔
جو نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اس سکول میں پڑھاتی ہیں یا کام کرتی ہیں وہ سب ان کی باتوں اور ہدایات کو قبول کرتی ہیں۔
الحدیث نامی ایک اور سکول تمام بنیادی اور اہم سہولیات سے محروم نظر آیا۔ اس سکول میں دو چھوٹے، ٹھنڈے اور تاریک کلاس روم ہیں۔ اس کے بانی قاری محمودی کے مطابق اس سکول میں مختلف عمروں کی تقریباً 280 لڑکیاں مختلف اوقات میں زیر تعلیم ہیں۔
یہ مدرسہ تاریک اور سرد ہے۔ اسے لکڑی کے تختوں سے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے دو کلاس روم ہیں اور ایک انتظامیہ کی عمارت ہے۔
جس دن ہم نے مدرسہ کا دورہ کیا تقریباً 30 لڑکیاں اور خواتین دو الگ الگ کلاس رومز میں پڑھ رہی تھیں، جن میں سے کچھ دینی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور کچھ ٹیلرنگ سیکھ رہی تھیں۔
طلبا کو متعلقہ کلاسوں میں ان کی صلاحیت کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے، عمر کی نہیں۔
ابھی دس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ شدید سردی سے میرے ہاتھ پاؤں تقریباً سُن ہو گئے اور میرا سارا جسم سردی سے کانپ گیا۔
BBCکابل میں ایک سکول میں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے دینی مدارس میں طلبا کا لباس
افغانستان میں خواتین کے حجاب میں سیاسی تبدیلیوں اور حالات کے ساتھ ہمیشہ تبدیلی آتی رہی ہے لیکن اس بار اس حوالے سے غیر معمولی تبدیلی نظر آئی ہے۔
ان دینی مدارس میں سب سے زیادہ زور مکمل اسلامی حجاب' اور مذہبی تعلیم پر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مدارس کے لیے تعلیم اور سہولیات فراہم کرنا ترجیح نہیں ہے۔
تمام لڑکیوں اور خواتین کے لباس اور حجاب تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تمام لڑکیاں اور خواتین عرب ممالک کی طرح حجاب پہنتی ہیں، حالانکہ سعودی عرب نے 2018 میں جبری حجاب کے قانون کو ختم کر دیا تھا اور اب وہاں خواتین کی لباس کی آزادی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں دینی مدارس کی تمام طالبات سیاہ حجاب پہنتی ہیں۔ وہ لباس، نقاب اور ماسک بھی استعمال کرتی ہیں۔
مدرسہ حدیث کی ایک معلمہ صفیہ نیازی نے ہمیں بتایا کہ 'خواتین پر حجاب فرض ہے۔ خواتین کو سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو ڈھانپنا چاہیے۔ اللہ نے قرآن میں خواتین پر حجاب کو فرض کیا ہے۔ اگر خواتین خود کو مسلمان کہتی ہیں تو انھیں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔'
صفیہ نیازی اصرار کرتی ہیں کہ 'خواتین کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے تاکہ وہ پہچان میں نہ آ سکیں اور اگر عورت کا جسم نظر آتا ہے تو اسے حجاب نہیں کہا جا سکتا۔'
BBCکابل کے عبدالقادر جیلانی سکول میں کمرہ جماعت میں زیر تعلیم لڑکیاں افغانستان میں کتنے دینی مدارس ہیں؟
2021 میں طالبان کی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان میں کل 5,000 رجسٹرڈ مذہبی مدارس تھے۔
اب، طالبان حکومت کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ 'پورے افغانستان میں 21,000 سے زیادہ فعال مدارس ہیں' جہاں تقریباً 30 لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔
2025 کے پہلے مہینے میں افغانستان سینٹر فار ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'افغانستان میں طالبان حکومت کے قائم کردہ مدارس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اعلان کیا جا رہا ہے۔'
'طالبان کے دور میں لڑکیوں کے تعلیم کے حق' کے عنوان سے ایک رپورٹ میں فاؤنڈیشن نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے 'اپنے نظریے' کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے مختلف علاقوں میں متعدد مذہبی سکول قائم کیے ہیں۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ 'طالبان نے مذہبی سکولوں کے نصاب میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے بھرے کچھ مضامین شامل کیے ہیں۔'
افغانستان اس وقت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں اور خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
فی الحال بہت سی افغان لڑکیوں کے لیے واحد امید مذہبی سکول ہیں، جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے کے مطابق، 'شدت پسندی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔'
طالبان کے حکومتی عہدیداروں نے بارہا وعدہ کیا ہے کہ بعض مسائل کو حل کرنے کے بعد، جیسے کہ 'نصاب کو اسلامی بنانا'، سکولوں اور یونیورسٹیوں کو لڑکیوں کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے گا لیکن اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اس شعبے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
افغانستان کے انسانی حقوق کے مرکز نے جدید تعلیم اور سکولوں سے لڑکیوں کے اخراج کو معیاری تعلیم سے لڑکیوں اور خواتین کا 'منظم اخراج' قرار دیا ہے۔
الہدیٰ مدرسہ کی معلمہ صفیہ نیازی کہتی ہیں کہ اگرچہ اس سے پہلے افغانستان میں دینی مدارس موجود تھے لیکن وہ اتنے مقبول کبھی نہیں رہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ فی الحال لڑکیوں کے لیے مذہبی سکولوں کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے لیکن 'یہ کبھی بھی سکولوں اور یونیورسٹیوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔'
افغانستان میں طالبان کی حکومت کا ایک سال: 'میں اپنے سکول کی سب سے لائق طالبہ تھی'افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند: ’طالبان نہیں بدلے‘افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند: ’طالبان نہیں بدلے‘افغانستان میں طالبان نے خواتین پر کب کون سی پابندیاں عائد کیں؟ وہ افغان خواتین جو خاموش رہنے کو تیار نہیں: ’آپ ایک ہاتھ سے زندگی کیسے چلا سکتے ہیں‘افغانستان میں لاکھوں لڑکیوں کے بغیر نئے تعلیمی سال کا آغاز: ’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خواب کسی گڑھے میں دفنا دیے گئے ہوں‘