اردو نیوز سے منسلک صحافی وحید مراد گھر سے ’اغوا‘، اہل خانہ

اردو نیوز  |  Mar 26, 2025

اردو نیوز سے منسلک صحافی وحید مراد کو، ان کے اہل خانہ کے مطابق، منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے ’کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے اغوا‘ کر لیا۔

صحافی وحید مراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی ہے۔

وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’کراچی کمپنی تھانے میں درخواست دی لیکن اس کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوا، مغوی کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے۔‘

وحید مراد کی اہلیہ شنزا نواز نے، جو خود بھی پیشے کے اعتبار سے صحافی اور اس وقت کینیڈا میں ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ رات دو بجے کے قریب گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ’متعدد نقاب پوش افراد آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور میرے شوہر کو کہنے لگے کہ آپ افغان ہیں، دروازہ کھولیں۔ اس دوران شور سے میری والدہ اٹھ گئیں۔‘ 

شنزا کے مطابق ان کی والدہ علاج کے سلسلے میں پاکستان آئی ہوئی ہیں اور ان کے گھر پر مقیم ہیں جبکہ وہ اپنے خاندان کے پاس کینیڈا میں ہیں۔

شنزا نواز کے کہا کہ ’میرے شوہر نے کہا کہ کیا آپ کے ساتھ خاتون پولیس اہلکار ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں والدہ ہیں۔‘واقعے کے وقت گھر پر موجود شنزا کی والدہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ان افراد نے کہا کہ آپ دروازہ کھولیں، ورنہ دروازہ توڑ کر اندر آ جائیں گے۔ جس پر وحید نے کہا کہ وہ افغان نہیں ہیں۔ میں نے انہیں (وحید کو) باہر جانے نہیں دیا۔ وحید نے دروازے کے نیچے سے ہی شناختی کارڈ سرکا دیا تاکہ انہیں بتائیں کہ وہ افغان نہیں ہیں۔‘

شنزا کی والدہ نے بتایا کہ ’ان افراد نے دروازہ توڑا اور کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد وحید کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ یہ افراد ایک پولیس کی گاڑی اور دو ویگو ڈالوں میں آئے تھے۔‘

شنزا نواز کا کہنا تھا کہ ’میری والدہ دل اور جوڑوں کے درد کی مریضہ ہیں، ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور انہیں دھکے دیے گئے۔ ان سے اور وحید سے ان کا موبائل فون چھین لیا گیا، جس کے بعد انہیں باہر گاڑی میں بٹھایا اور لے کر چلے گئے جبکہ ان میں سے کچھ افراد واپس گھر  میں آئے اور اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا کر لے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پولیس کو متعدد مرتبہ کال کی گئی جس کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ وحید کے دوست تھانے میں موجود ہیں اور دو گھنٹے گزرنے کے بعد کچا پرچا کاٹا گیا ہے۔‘

شنزا نے سوال اٹھایا کہ ’اگر یہ پولیس چھاپہ تھا تو ان کے پاس وارنٹ موجود کیوں نہیں تھا؟ ان افراد نے نقاب کیا ہوا تھا۔ وحید کے جس کولیگ نے ان کا پیچھا کیا، اسے اتنا مارا گیا ہے۔ اس ملک میں کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟‘

اردو نیوز سے وابستہ وحید مراد اپنی ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں اور کئی میڈیا اداروں سے منسلک رہے ہیں (فوٹو: وحید مراد فیس بک)انہوں نے کہا کہ ’پولیس کچھ نہیں بتا رہی کہ کس نے میرے شوہر کو اٹھایا ہے۔ مجھے پتہ چلنا چاہیے کہ میرا شوہر کس کے پاس ہے اور اسے کس قانون کے تحت کون اٹھا کر لے گیا ہے۔‘

وحید مراد اس سے قبل ’نیوز ون‘ اور روزنامہ ’اوصاف‘ کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے۔ وہ ’پاکستان 24‘ کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی فعال ہیں۔

جس وقت وحید مراد کو ان کے گھر سے گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو ان کے دفتر کے ایک ساتھی ثوبان راجہ یہ واقعہ دیکھ رہے تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر شئیر کی گئی ویڈیو میں ثوبان نے بتایا کہ ’انہیں جیسے ہی اس واقعے کا پتہ چلا تو وہ فوراً وحید کے گھر کے باہر پہنچ گئے اور واقعے کی ویڈیوز ریکارڈ کرنے لگے۔‘

بعد ازاں جب گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں تو ثوبان نے ان کا پیچھا کیا۔ ان افراد کو معلوم ہونے پر ان کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری گئی اور بعد ازاں ان کے موبائل فون چھین کر ان پر تشدد شروع ہو گیا۔

ویڈیو میں بتایا گیا کہ جب ثوبان نے ان افراد سے ان کی شناخت کے متعلق سوال کیا کہ وہ کون ہیں تو ان میں سے ایک فرد نے کہا کہ ’تمہیں نہیں پتہ ہم کون ہیں؟‘

اس معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان شریف اللہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ واقعہ ان کے نوٹس میں نہیں ہے۔ چیک کر کے بتا سکتا ہوں،‘ لیکن بعد ازاں انہوں نے دوسرے ترجمان کا رابطہ نمبر فراہم کر دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد پولیس کے دوسرے ترجمان تقی جواد سے اس معاملے کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی، تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More