بی بی سی کی تحقیقات کے نتیجے میں برطانیہ سے چلنے والے ایک روسی جاسوسی نیٹ ورک میں شامل دو خواتین کی شناخٹ پہلی بار سامنے آئی ہے۔
بلغاریہ کے شہری سٹیلینا جینچیفا اور تسویتانکا ڈونچیوا اس جاسوسی نیٹ ورک کا حصہ تھیں جس نے وسیع پیمانے پر لوگوں کی نگرانی کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔
دونوں خواتین نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے جانے والے سواات کا جواب نہیں دیا ہے۔
جب بی بی سی نے فون پر جینچیفا سے رابطہ کیا تو انھیں نے فون منقطع کر دیا۔ بعد ازاں ان سے بذریعہ خط اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے خط کا جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب جب ڈونچیوا سے آسٹریا کے شہر ویانا میں واقع ان کے گھر کے نزدیک ان سے رجوع کیا گیا تو وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ وہ ڈونچیوا نہیں ہیں۔
بلغاریہ کے چھ دیگر شہری اس وقت برطانیہ میں جاسوسی کے اس نیٹ ورک میں اپنے کردار کے لیے سزا کے منتظر ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ جاسوسی کا نیٹ ورک بہت چالاکی سے چلایا جا رہا تھا اور اس کے نتیجے میں کئی افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوا۔
ان میں سے تین افراد نے اعتراف کیا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ روس کے لیے کام کر رہے تھے جبکہ دیگر تین افراد جیوری کو اس بات کا یقین دلانے میں ناکام رہے کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں تھا۔
اس جاسوسی سیل کو بیرون ملک سے جان مارسالک نامی ایک آسٹرین شخص چلا رہا تھا۔ مارسالک جرمنی میں بزنس ایگزیکٹیو تھے جو روسی انٹیلیجنس کے لیے کام کر رہے تھے۔
اس جاسوسی نیٹ ورک نے جب افراد کو نشانہ بنایا ان میں روسی جاسوسی مہمات کی تفتیش کرنے والے صحافی بھی شامل تھے۔
صحافی رومن ڈوبراکوٹوف نے ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اس سارے آپریشن کا حکم بذاتِ خود روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دیا تھا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ان چھ ملزمان کے علاوہ دو خواتین بھی تھیں جنھوں نے یورپ میں لوگوں کی نگرانی کے کام میں حصہ لیا تھا۔
بی بی سی نے اوپن سورس ڈیجیٹل ریسرچ اور ذرائع سے بات کرکے دونوں خواتین کی شناخت کا سراغ لگایا اور ان کی تصدیق کی۔
پر اسرار ایئر پورٹ ملازم
سٹیلینا جینچیفا بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیا میں رہتی ہیں اور انھوں نے ایئر لائن انڈسٹری میں اپنی نوکری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جاسوسی سیل کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے افراد کی پرواز کے متعلق تفصیلات حاصل کیں۔
جاسوسوں نے لوگوں کا جہازوں تک پیچھا کیا اور پروازوں پر ان کے نزدیکی سیٹیں بک کروانے میں کامیاب رہے۔ اکثر وہ اپنے اہداف کے اتنے نزدیک پہنچنے مِں کامیاب ہو جاتے کہ وہ یہ بھی دیکھ پاتے کہ ان کا ہدف اپنے موبائل فون پر کیا لکھ رہا ہے۔ ایک موقع پر جاسوس صحافی رومن ڈوبراکوٹوف کے فون کا پن کوڈ بھی معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
جینچیفا اس ٹیم کا حصہ تھیں جسے ڈوبراکوٹوف کی جاسوسی کے لیے برلن بھیجا گیا تھا۔
آڈرے ہیپ برن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ جنھوں نے نازیوں کے خلاف جاسوسی کی’مردِ آہن‘ سمجھا جانے والا روسی ’جیمز بونڈ‘: افریقی ملک میں گرفتار ہونے والا یہ ایجنٹ کون ہے؟سابق برطانوی فوجی پر جاسوسی کا الزام: ’میں برطانیہ میں ایرانی انٹیلیجنس کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا‘نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاں
وہ ایک ایسے چیٹ گروپ کا بھی حصہ تھیں جس میں اس جاسوسی سیل کے لیڈر اورلن روسیف، بیسر زمبازوف اور کترین ایوانوا بھی شامل تھے۔ ان تینوں افراد پر برطانیہ میں جاسوسی کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ چیٹ گروپس جاسوسی کے کام کے کوآرڈینیشن کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔
جینچیفا پر الزام ہے کہ انھوں نے صحافی کرسٹو گروزیو کی فلائیٹ کی تفصیلات مہیا کیں۔ اس کے علاوہ انھیں روسی مخالف کرل کاچر کی زیادہ سے زیادہ سفری معلومات حاصل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
برطانیہ میں ٹرائل کے دوران پر اسرار ایئر لائن ورکر کو ’سٹیکا‘ اور ’سویتی‘ کے نام سے پکارا گیا۔
بی بی سی نے جینچیفا کو ان کی سوشل میڈیا پروفائلز سے پہچانا۔ انھوں نے فیسبک پر بیسر زمبازوف اور کترین ایوانوا سے رابطے کیے تھے۔
اس کے بعد بی بی سی کو معلوم ہوا کہ وہ ایئر لائن ملازم ہیں۔
ان کی لنکڈ ان پروفائل کے مطابق وہ مختلف ٹریول کمپنیوں میں ٹکٹوں کی فروخت کے عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ بلغاریہ کی کمپنی فائلنگ کے مطابق وہ انٹرنیشنل ایوی ایشن کنسلٹ کی واحد مالک ہیں۔
جاسوسی سیل کے لیڈر روسو کی ہارڈ ڈرائیو پر پائے جانے والے سفری ڈیٹا کے سکرین شاٹس ہوا بازی کی صنعت میں میں استعمال ہونے والے سافٹ ویئر ’مادیوس‘ کے تھے۔
اپنی لنکڈ ان پروفائل میں جینچیفا نے لکھا ہے کہ انھیں اس سافٹ ویئر میں مہارت حاصل ہے۔
بی بی سی کی تحقیق میں جینچیفا کی شناخت کے بعد، ایک ذریعے نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ بلغاریہ کی سکیورٹی سروسز کو اس بارے میں جانتی ہیں کہ وہ اس جاسوسی نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ تاہم ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔
بی بی سی نے جینچیفا سے ان کے بلغاریہ کے اس نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی جو وہ ریئل سٹیٹ کے کام کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ انھیں کال بی بی سی نیوز کی جانب سے کی جا رہی ہے اور کال ریکارڈ کی جا رہی ہے تو انھوں نے بنا کوئی بات سنے فون رکھ دیا۔
انھوں نے بلغاریہ زبان میں لکھتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ انگریزی اچھی طرح نہیں بول سکتیں۔ تاہم، انھوں نے اپنی لنکڈ ان پروفائل پر لکھا ہے کہ انگریزی پر ’مکمل پیشہ ورانہ مہارت‘ حاصل ہے۔ ان کی پروفائل کے مطابق انھوں نے ڈگری لیول تک انگریزی میں تعلیم حاصل کی ہے۔
ویانا میں موجود خاتون
ڈونچیوا نے ویانا میں تفتیشی صحافی کرسٹو گروزیو کی جاسوسی میں مدد کی اور اس فلیٹ کے سامنے ایک کمرہ کرائے پر لیا اور وہاں سے کیمرے سے اس کے گھر کی تصاویر لیں۔
ڈونچیوا کو یوکرین مخالف پروپیگنڈہ مہم چلانے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔ ان پروپگینڈوں میں ویانا میں سوویت جنگ کی یادگار سمیت مختلف مقامات پر سٹیکرز لگانا شامل تھا، جس کا مقصد یوکرین کے حامیوں کو نیو نازیوں کے طور پر پیش کرنا تھا۔
اولڈ بیلی کے مقدمے کے بعد بی بی سی نے ڈونچیوا کی ان کے سوشل میڈیا پروفائلز کے ذریعے شناخت کی۔ مقدمے کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے سیل کے ساتھ کوئی ’ٹسویٹی‘ تھیں۔ اس کے بعد آسٹریا میں ذرائع نے ان کی شناخت کی تصدیق کی۔
ویانا میں انھوں نے برطانیہ کے جاسوسی کے مقدمے میں سزا یافتہ کم از کم تین افراد وانیا گیبرووا، بیسر زمبازوف اور کیٹرن ایوانوا سے ملاقات کی۔
ڈونچیوا نے آسٹریا کی سیکرٹ سروس کے سربراہ عمر ہزاوی- پرشنر کے ساتھ ساتھ آسٹریا کے سینئیر اہلکاروں اور آسٹریا کی تفتیشی صحافی اینا تلہامر کو بھی جاسوسی کے لیے منتخب کیا تھا۔ اینا نے روسی جاسوسی کے بارے میں لکھا ہے۔
ڈونچیوا کو جب آسٹریا کی پولیس نے دسمبر میں گرفتار کیا تھا تو وہ بے روزگار تھیں۔
آسٹریا کے میگزین ’پروفائل‘ اور ’فالٹر‘ نے پہلے پہل عدالتی دستاویزات پر رپورٹس شائع کیں جنہیں بعد میں بی بی سی نے دیکھا ہے۔ ان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 'ان پر آسٹریا کو نقصان پہنچانے والی جاسوسی کے جرم کے ارتکاب کا قوی شبہ ہے۔‘
ڈونچیوا نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انھوں نے اپنی پرانی دوست وانیا گوبیرووا کے کہنے پر جاسوسی کی تھی۔ واضح رہے کہ وانیا ان چھ بلغاریائی باشندوں میں سے ایک ہیں جنھیں سزا سنائی گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گوبیرووا نے انھیں نام، پتے اور تصاویر کی فہرست فراہم کی تھی۔ ابتدا میں ڈونچیوا نے پولیس کو بتایا کہ انھیں گمراہ کیا گیا کیونکہ انھوں نے پہلے یہ بتایا کہ وہ ایک ’سٹوڈنٹ پروجیکٹ‘ پر کام کر رہے ہیں اور بعد میں بتایا کہ وہ انٹرپول کے لیے کام کرتے ہیں۔
لیکن آسٹریا کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونچیوا کا ایسی ’مشکوک کہانیوں‘ پر یقین کرنا ’ناقابل فہم‘ ہے۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈونچیوا جس انٹیلی جنس سیل میں کام کرتی تھی اسے روسی انٹیلی جنس سروسز کی جانب سے ماسکو سے تعلق رکھنے والے جان مارسلیک کنٹرول کرتے تھے اور تفتیش کاروں کے قبضے میں لیے گئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں مارسلیک اور برطانوی سیل کے رہنما اورلن روسیف نے کام سونپا تھا۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ مارسیلک نے اینا تھلہیمر کو نشانہ بنانے کی ہدایات دی تھیں۔ ڈونچیوا نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے صحافی کی تصاویر لی تھیں اور پھر اس کے دفتر کی تصاویر لی تھیں اور پھر قریبی ریستوران سے اس کی نگرانی کی تھی۔
آسٹریا کے نیوز میگزین ’پروفائل‘ کی ایڈیٹر اینا تھلہیمر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے انھیں پچھلے سال ہی بتایا تھا کہ ان کی جاسوسی کی جا رہی ہے اور اب انھیں معلوم ہوا ہے کہ ان کی کچھ عرصے سے نگرانی کی جا رہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ دفتر کے سامنے ایک اچھے فش ریستوراں میں بیٹھتی تھی۔ میں واقعی اس کی سفارش کر سکتی ہوں۔ اس نے اس ریستوراں کی مہنگائی کی شکایت اور کہا کہ اسے مزید پیسوں کی ضرورت ہے اور اسے پیسے مل گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس خاتون‘ نے ’اعلیٰ عہدوں پر فائز‘کئی لوگوں کی جاسوسی کی۔
اینا تھلہیمر کو نہیں معلوم کہ ان کی نگرانی اور کہاں کہاں کی گئی لیکن ان کے کچھ ذرائع کو نشان زد کیا گیا اور ان کے گھر میں داخل ہونے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ویانا جاسوسوں کا دارالحکومت ہے‘ لیکن اس شہر میں کسی کو جاسوسی کی سزا نہیں دی گئی ہے اور یہ کہ یہاں کا قانون جاسوسوں کے لیے بہت سازگار ہے۔
انھوں نے مزید کہا: ’میں مایوس ہوں اور سچ کہوں تو میں تھوڑی ڈری ہوئی ہوں۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں۔ یہ جان کر اچھا نہیں لگتا کہ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی صحافیوں، سیاستدانوں یا کسی اور کو دھمکی دے رہا ہے۔‘
ڈونچیوا سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی بلی کا بھی ٹک ٹاک اکاؤنٹ ہے۔
انھوں نے فیس بک پر 2022 اور 2023 میں اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس میں وہ ولادیمیر پوتن کی تصویر والی ٹی شرٹ پہنے نظر آرہی ہیں۔
جب کسی نے تبصرہ کیا کہ روس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو پوتن کے بچے کی ماں بننا چاہتی ہیں تو ڈونچیوا نے اس پر ’جی للچانے والا‘ ایموجی بھی پوسٹ کیا۔
جب بی بی سی نے ویانا میں ڈونچیوا سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ ڈونچیوا ہیں۔ انھوں نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن ہمیں پتہ چلا کہ وہ ڈونچیوا ہی تھیں۔
جب ہم نے اس سے وہاں رابطہ کیا تو انھوں نے وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہی چیزیں پہنی ہوئی تھیں جو ان کی سوشل میڈیا پر تصاویر میں نظر آرہی تھیں۔ انھوں ایک منفرد نیلے رنگ کا ٹریک سوٹ اور چشمہ پہن رکھا تھا اور ان کے پاس پیٹرن والا موبائل فون کیس بھی تھا۔
ہم نے ڈونچیوا کو اپنی شناخت سے انکار کرنے کے صرف 20 منٹ بعد ہی اسے اپنے گھر جاتے ہوئے دیکھا گیا جو ان کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔
جب ہم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جن دو خواتین نے چھ بلغاریائی باشندوں کے ساتھ کام کیا انھیں روس کے لیے جاسوسی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
برطانیہ میں پولیس نے روسیف اور مارسلیک کے درمیان تقریباً 80,000 ٹیلی گرام پیغامات کی جانچ کی ہے۔ ان پیغامات سے معلوم ہوا کہ جاسوسی نیٹ ورک نے فروری 2023 سے پہلے کئی کارروائیاں کیں۔ اس کے بعد ہی پولیس کو ان کی سرگرمیوں پر شبہ ہوا۔
برطانیہ میں موجود ان جاسوسوں نے ان یوکرینی فوجیوں کو بھی نشانہ بنایا جن کے بارے میں یہ گمان تھا کہ انھیں امریکہ جرمنی میں تربیت دے رہا ہے۔
روسیف اور مارسلیک نے صحافی کرسٹو گروزیف اور رومن ڈوبروکوتوف کے اغوا اور قتل کے متعلق بات کی تھی۔
برطانیہ میں سزا پانے والے چھ جاسوسوں کے برعکس ڈونچیوا اور گینچیوا حراست میں نہیں ہیں اور انھیں کسی بھی جرم میں سزا نہیں ہوئی ہے۔
آسٹریا کے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے ڈونچیوا کی مقدمے سے پہلے حراست میں لیے جانے کی درخواست مسترد کر دی گئی اور انھیں رہا کر دیا گیا۔
آسٹریا کی عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ڈونچیوا کے فرار ہونے کا ’کوئی خطرہ نہیں‘ کیونکہ وہ ملک میں ’سماجی طور پر مربوط‘ ہیں اور اپنی ماں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں مجرمانہ کارروائی کا کوئی خاص خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ملوث دیگر افراد پہلے ہی برطانیہ میں مجرم گردانے جا چکے ہیں۔
تھلہیمر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی ہیں کہ ان کی جاسوسی کرنے والے شخص کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو جاسوس کی ہر بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان کے مطابق آسٹرین سیکرٹ سروس کا خیال ہے کہ جاسوسی کے دوسرے نیٹ ورک بھی ہیں اور برطانیہ میں گرفتاریوں کے بعد بھی ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
گینچیوا بلغاریہ میں آزادانہ گھوم رہی ہیں۔ وہ خود کو ایک تجربہ کار ایئر لائن اور ٹریول انڈسٹری پروفیشنل کے طور پر پیش کرتی ہے۔
بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے بعد گینچیوا نے فیس بک اور لنکڈ ان پر اپنا پروفائل نام تبدیل کر لیا ہے۔ وہ اب بھی امیڈیس ایئرلائن کے سافٹ ویئر پر اپنی صلاحیتوں کو درج کرا رکھا ہے۔
’مردِ آہن‘ سمجھا جانے والا روسی ’جیمز بونڈ‘: افریقی ملک میں گرفتار ہونے والا یہ ایجنٹ کون ہے؟روس کے ’جاسوس جہاز‘ جو کشیدگی کی صورت میں بحیرہ شمالی میں ’تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں‘یونائیٹڈ فرنٹ: چین کا ’جادوئی ہتھیار‘ اور عالمی جاسوسی کے الزامات