کیا ہم سیارچوں سے دھاتیں نکالنے کے قریب ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 27, 2025

Getty Images

تین عشرے پہلےبی بی سی کے سائنسی پروگرام ’ٹومارو ورلڈ‘ نے پیش گوئیاں کی تھیں کہ 2025 تک دنیا کیسی ہو سکتی ہے۔ ان پیش گوئیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی کا اندازہ لگانا کس قدر مشکل ہے۔

پروگرام میں کہا گیا تھا کہ ہم 2025 میں ایسے مائیکروچِپ امپلانٹس کا استعمال کر رہے ہوں گے جو اے ٹی ایمز کے ساتھلین دین میں مدد دیں گے، ہمارے گھروں میں ہولوگرافک اسسٹنٹس سے بات چیت ممکن ہو گی اور انٹرنیٹ تک رسائی پر فسادات بھی ہو سکتے ہیں۔

اسی پروگرام میں یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ ہم خلا میں موجود سیارچوں سے معدنیات نکال رہے ہوں گے۔ اگرچہ ہم ابھی وہاں نہیں پہنچے مگر کچھ سٹارٹ اپ کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ یہ بھی ممکنات میں سے ہے اوروہ دن دور نہیں جب سیارچوں کی مائننگ شروع ہو جائے گی۔

کیلیفورنیا کی کمپنی ایسٹرو فورج (AstroForge) کے بانیمیٹ جیالچ سمجھتے ہیں کہ ان کی کمپنی یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی کمپنی بنے گی اوروہ اس سمت میں پہلا قدم اُٹھا چکی ہے۔

27 فروری 2025 کو انھوں نے اپنا پہلا بغیر انسان والا خلائی جہاز جس پر 65 لاکھ ڈالر لاگت آئی، فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے سپیس ایکس فالکن نائن راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا۔

تقریباً نو دن بعد ان کا کہنا ہے کہ یہ خلائی جہاز جس کا نام اوڈن رکھا گیا ہے چاند سے آگے نکل کرمنصوبے کے مطابقگہرے خلا میں داخل ہو چکا ہے۔

بدقسمتی سے ایسٹرو فوجن کو اوڈن سےرابطے میں شدید دشواری کا سامنا ہے، جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

تاہم کمپنی کو اُمید ہے کہ اوڈن اب اپنی نو ماہ لمبی پرواز پر رواں دواں ہے جس کا مقصد ایک خاص سیارچے 2022 OB5 کے قریب سے گزرنا ہے جو زمین سے تقریباً 80 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اوڈن کے سینسر اس سیارچے کے مادّے کا تجزیہ کریں گے۔

کمپنی کے بانی میٹ جیالچ اس سب کے باوجود پُرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ سفر آسان نہیں ہوگا اور چاہے اوڈن سے دوبارہ رابطہ نہ ہو سکے اس مشن سے بہت کچھ سیکھا جا چکا ہے۔

وہ کہتے ہیںکہ ’ہاں، ابھی بہت چھوٹے چھوٹے قدم باقی ہیں۔ لیکن ہم نے شروع کر دیا ہے۔ آپ کو کوشش کرنی ہی ہوتی ہے۔‘

آسٹروفورج کے منصوبہ کے اگلے سال ایک اور تجرباتی مشن کے بعد وہ زمین کے قریب موجود سیارچوں سے قیمتی اوردھاتیں نکالنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کرے گا خاص طور پرپلاٹینم دھاتوں پر جو فیول سیلز اور قابلِ تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کے لیے نہایت اہم سمجھی جاتی ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر ان دھاتوں کی مائننگ نہ صرف مالی اعتبار سے بلکہ ماحولیاتی، سماجی اور جغرافیائی سیاسی لحاظ سے بھی بتدریج مہنگی اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

لیکن کچھ ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ خلا سے یہ دھاتیں نکال کر زمین پر لانا واقعی ممکن بھی ہے یا نہیں خاص طور پر مستقبلِ قریب میں اور کیا اس عمل کے اپنے ماحولیاتی نقصانات ہو سکتے ہیں۔

میٹ جیالچ کو اُمید ہے کہ اگلے دس سالوں میں کیے گئے تجرباتی مشنوں کے ذریعے آسٹروفورجسیارچوں سے تھوڑی مقدار میں دھاتیں نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ شروعات چند گرام سے ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ کلوگرام تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ سیارچے چند میٹر سے لے کر آدھے کلومیٹر قطر کے ہوں گے۔ ابتدائی طور پر حاصل کی گئی دھاتیں شاید تجارتی سطح پر نہ بیچی جا سکیں لیکن جیالچ کے مطابق اگر مطلوبہ قیمتی دھاتیں حاصل ہو جائیں، تو یہ راستہ تجارتی کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف ایک کلوگرام روڈیئمدھات کی قیمت اس وقت تقریباً 183,000 ڈالر ہے۔

یہ سب کافی پر امید لگتا ہے لیکن کمپنی کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک وِکٹر ویسکووو جو ایک مہم جو بھی ہیں اور وہ شخص ہیں جنھوں نے 2019 میں دنیا کے پانچوں سمندروں کی تہہ تک پہنچنے والی آبدوز تیار کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف مطلوبہ ’آلات تیار کرنے‘ کا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے ’اگر ہم صرف چند مائیکروگرام دھات واپس لے آئیں تو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ یہ ممکن ہے۔ اس کے بعد اس عمل کو بڑے پیمانے پر کرنا نسبتاً آسان ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’بڑےپیمانے پر ایسٹرائیڈ مائننگ ایک کئی دہائیوں پر محیط منصوبہ ہو سکتا ہے، لیکن بالآخر یہ ایک ریاضیاتی مسئلہ ہے۔‘

NASA

بے شک یہ ایک شاندار انجینئرنگ کا کارنامہ ہوگا لیکن وہ یاد دلاتے ہیں کہ سیارچوں سے نمونے لینا پہلے بھی ہو چکا ہے ۔ جاپان کی کمپینیاں جیکسا اور ہیابوسا اور ناسا سیارچوں سے نمونے حاصل کر چکے ہیں۔

اگرچہ سیارچوں سے معدنیات نکالنے کا تصور بظاہر غیر حقیقی لگتا ہے لیکن وِکٹر ویسکووو کا کہنا ہے کہ بہت سی بڑی تکنیکی کامیابیاں مثلاً رائٹ برادرز کی پہلیپرواز ابتدا میں اسی طرح ناقابلِ یقین سمجھی جاتی تھیں جب تک وہ حقیقت نہ بن گئی۔

ایان لینگ جو کولوراڈو سکول آف مائنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ فی الحال ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ ایسٹرائیڈ مائننگ میں کون سی تکنیکی رکاوٹیں پیش آئیں گی۔

ان کے مطابق کسی خلائی جہاز کا کسی سیارچے سے جا ملنا شاید دوسرے خلائی جہاز سے جا ملنے سے کچھ زیادہ مشکل نہ ہو لیکن اصل چیلنج تو اس جگہ بغیر کششِ ثقل کے وسائل نکالنے کا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’مائننگ یعنی مٹی سے دھات الگ کرنا تو نسبتاً آسان عمل ہے لیکن اس کے بعد جو کیمیکل عمل درکار ہوتا ہے اور جس میں کششِ ثقل کا کردار اہم ہوتا ہےوہ خلا میں انجام دینا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ہم زمین پر استعمال ہونے طریقے خلا میں بھی استعمال کر سکیں گے یا اس مقصد کے لیے نئے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔‘

ایان لینگ کے مطابق سیارچوں سے معدنیات نکالنے کا خیال زیادہ تر تعلیمی تصور تھا جب تک کہ 1980 کی دہائی میں ناسا نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع نہیں کیا۔ 1990 کی دہائی میں ماحولیاتی خدشات میں اضافے کے ساتھ یہ خیال مزید مقبول ہوا۔

تب سے کئی نجی کمپنیاںجیسے مون ایکسپریس، پلینٹری رویسورسز اور ڈیپ سپیس انڈسٹریز اس میدان میں آئیں، لیکن زیادہ تر کو زیادہ لاگت کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

2010 کی دہائی کے اختتام پر ان میں سے کئی کمپنیاں خرید لی گئیں اور انھیں دیگر منصوبوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اسی لیے لینگ کا ماننا ہے کہ کاروباری اور تکنیکی چیلنجز کی مشترکہ شدت دیکھتے ہوئے ایسٹرائیڈ مائننگ کا خواب ابھی کم از کم تیس سال دُور ہے۔

لیکن ویسکووو کے خیال میں اصل گیم چینجر پچھلے دس سالوں کی تیز رفتار تکنیکی ترقی رہی ہے۔ جیسے چلی میں تقریباً مکمل ہونے والی ویرا سی روبن آوبزویٹری سیارچوں کی بہتر نگرانی ممکن بنائیں گی۔

آپٹکس اور سپیکٹروگرافی کی مدد سے ایسے سیارچوں کی شناخت آسان ہو گئی ہے جن سے معدنیات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی صحیح تعداد پر اب بھی بحث جاری ہے۔ طاقتور کمپیوٹنگ اب وسیع پیمانے پر دستیاب ہے اور خلائی جہاز بنانے کے لیے کم قیمت، تیار شدہ پرزے مارکیٹ میں موجود ہیں۔

جوئل سرسل، جو لاس اینجلس میں قائم کمپنی ٹرانس آسٹرا کے بانی ہیں، کہتے ہیں: ’کچھ عرصہ پہلے تک صرف حکومتیں ہی اس طرح کے منصوبے کر سکتی تھیں یا ان کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہوتی تھی اور وہ بھی اکثر مؤثر انداز میں استعمال نہیں کی جاتی تھی۔‘

ان کی کمپنی اس سال بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر اپنے انفلیٹ ایبل کیپچر بیگ ٹیکنالوجی کی آزمائش کرے گی جو خلائی کچرے کو جمع کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب ایک متحرک نجی خلائی صنعت موجود ہے جو آسٹرویڈ مائننگ کو اس سے کہیں جلد ممکن بنا دے گی جتنا لوگ سوچتے ہیں۔‘

اس پورے شعبے میں سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ خلا میں سامان بھیجنے کا خرچ پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہو گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ نجی خلائی صنعت کا عروج اور دوسری باراستعمال ہونے والے راکٹس کی موجودگی ہے۔

ویسکووو کے مطابق ’پندرہ سال پہلے ایک پاؤنڈ وزن خلا میں بھیجنے کی لاگت 10,000 ڈالر تھی جبکہ اب یہ صرف چند ہزار ڈالر ہے۔ سپیس ایکس کے سٹار شپ جیسے راکٹوں کے ساتھ یہ خرچ مستقبل میں صرف چند سو ڈالر رہ جائے گا۔‘

ماہرِ فلکیات نیل ڈی گراس ٹائسن کا کہنا ہے کہ دنیا کا پہلا کھرب پتی سیارچوں سے معدنیات نکالنے کے ذریعے بنے گا۔

لیکن وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسٹرائیڈ مائننگ زمین پر دھاتوں کی کان کنی سے ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے انتہائی ضروری ثابت ہوگی۔

دوسری طرف ایان لینگ آسٹروفورج کے منصوبوں سے زیادہ متاثر نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تکنیکی طور پر تو سیارچوں سے معدنیات نکالنا ممکن ہو جائے گا لیکن وہ آسٹروفورجکے پلاٹینم دھاتوں کے بزنس ماڈل کو غیر یقینی قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’جب تک زمین پر یہ دھاتیں موجود ہیں چاہے سمندر کی تہہ میں ہی کیوں نہ ہوں تب تک ہمارے پاس ان تک رسائی کے بہت سے آسان راستے موجود ہیں، جو خلا سے انھیں جمع کرنے کے مقابلے میں کہیں سستے اور آسان ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم ان کو نکالنے کی اجازت دیں۔‘

یونیورسٹی آف لنکاسٹر میں ماحولیاتی سائنسدان کیتھرین ملر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سیارچوں سے معدنیات نکالنا ماحولیاتی لحاظ سے گہرے سمندر کی کان کنی سے کہیں بہتر انتخاب ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’زمین پر مائننگ ویسے بھی ماحول کے لیے اچھی نہیں ہے۔ قدرتی رہائش گاہوں کی تباہی، سماجی انصاف کے مسائل اور بہت کچھ۔ لیکن سمندر کی تہہ سے کوبالٹ اور کاپر کو نکالنا صرف مٹی ہٹانے کا معاملہ نہیں بلکہ پورے سمندری فرش کو تباہ کر دینے جیسا ہے۔‘

یقیناً، خلا میں راکٹ بھیجنا اور واپس لانا بھی بہت زیادہ آلودگی پھیلاتا ہے اور توانائی کا بھاری خرچ مانگتا ہے مگر مائننگ بھی کچھ کم تباہ کن نہیں۔

وہ پرانی ٹیکنالوجی جو خلائی مشنوں کو زندہ رکھے ہوئے ہےخلائی مخلوق کی دنیا میں آمد سے جُڑے نظریات اور ان کی حقیقت کیا ہے؟خلا میں جانے والی خواتین ماہواری ہونے پر کیا کرتی ہیں؟کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش جو اب ’کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے‘

یونیورسٹی آف پیرس ساکلے کے 2018 کے ایک مطالعے میں زمین پرپلاٹینم نکالنے کے عمل کو سیارچوں سے پلاٹینم نکالنے کے مجوزہ طریقے سے موازنہ کیا گیا۔

نتائج کے مطابق، سیارچے سے ہر 1 کلوگرام پلاٹینم نکالنے پر تقریباً 150 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، زمین پر موجودہ طریقوں سے 1 کلوگرام پلاٹینم تیار کرنے پر 40,000 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ پلاٹینم کی زمین پر انتہائی کمیاب مقدار ہے۔

ڈیانن کرُل، جو ایسٹرائیڈ مائننگ کمپنی کارمن پلس کے بانی ہیں، سمجھتے ہیں کہ ایسٹرائیڈ مائننگ کا مستقبل زمین کے لیے وسائل جمع کرنے میں نہیں بلکہ خلا میں معیشت قائم کرنے میں ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2035 تک سپیس اکانومی کی مالیت 1.8 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈیگنیت پائکووسکی، جو جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سپیس پالیسی انسٹیوٹ سے وابستہ ہیں اور سپیس مائننگ کی سیاست پر تحقیق کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ ایسٹرائیڈ مائننگ عالمی طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔

ان کے مطابق، خلا میں وسائل نکالنے کے قابل ترقی یافتہ ممالک اور زمینی معدنیات سے مالا مال ترقی پذیر ممالک کے درمیان نیا تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'خلا میں وسائل نکالنا اورانھیں وہیں استعمال کرنا ایک بات ہےاور اس وقت جو خلائی طاقتیں سرگرم ہیں، ان کی ترجیح بھی یہی لگتی ہے کہ خلا میں انسانی موجودگی کو مستقل بنایا جائے اس لیے مقامی وسائل کا استعمال منطقی ہے۔

لیکن جب ان وسائل کو زمین پر واپس لانے کی بات آتی ہےاور انھیں زمین کی معیشت میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر بہت سے فریقین متاثر ہوں گے، اور اس کے اثرات بہت گہرے اور پیچیدہ ہوں گے۔'

ڈیانن کرُل کا کہنا ہے کہ جب سیارچوں سے معدنیات نکالنے کی بات آتی ہے تو پلاٹینم سے جڑے معدنیاتسب سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ریئر ارتھ اورہیلیئم تھری جیسے وسائل بھی جو نیوکلیئر فیوژن کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں پانی کی تلاش کو بھی اہمیت دینی چاہیے کیونکہ پانی سے نہ صرف زندگی کے لیے درکار آکسیجن حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ راکٹ ایندھن کے لیے ہائیڈروجن بھی۔

یا پھر مٹی سے تھری ڈیپرنٹ شدہ سیرامکس بنائی جا سکتی ہے جو خلا میں رہائش گاہوں یا سولر کلیکٹرز جیسے ڈھانچوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے ’یہ چیزیں اگر ہم زمین سے خلا میں لے کر جائیں، تو اس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ اگر انھیں وہیں سے حاصل کر لیا جائے، تو یہ خرچ بچایا جا سکتا ہے۔‘

کرُل کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی کارمن پلیس زمین پر واپس لانے کے لیے معدنیات نکالنے پر شکوک رکھتی ہے۔ انھیں اس میں معاشی اور عملی امکانات غیر واضح لگتے ہیں۔

اسی لیے وہ خلا میں وسائل نکال کر خلائی ضروریات میں استعمال کرنے پر کام کر رہے ہیں، مثلاً سیٹلائٹس کی مرمت یا سپیس میں رہائش گاہوں کی تعمیر میں۔

کمپنی نے حال ہی میں 20 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے اور فروری 2027 میں اپنا پہلا خلائی جہاز لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو سیمپل حاصلکرنے کی صلاحیت کو ٹیسٹ کرے گا۔

مگر بہت سے سوال اب بھی باقی ہیں۔

کیا ہم زمین کی آلودگی کو خلا میں منتقل کر رہے ہیں؟

کچھ ماہرین نے سیارچوں سے بچ جانے والے پتھروں کے ملبے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔اگر یہ خلاء میں گردش کرتے رہے یا زمین پر گرنے لگے تو یہ بھی ایک نیا مسئلہ بن سکتا ہے۔

مونیکا گریڈی جو اوپن یونیورسٹی سپیس سائنس کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ ہمیں خلا کو ایک ’صاف ستھرے ماحول کے طور پر برقرار رکھنا چاہیے اور یہ سیکھنا ہوگا کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں، ساتھ ساتھ صفائی بھی کریں۔‘

دوسری طرف گیالچ کا موقف ہے کہ خلا کے وسائل کو زمین کی تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں: ’خلا لامحدود ہے، سیارچوں کی گنتی نہیں، لیکن زمین صرف ایک ہے۔‘

ایک اور اہم سوال بھی ہے، جس کا جواب ابھی باقی ہے:

اگر کوئی کمپنی خلا سے وسائل نکالتی ہے تو کیا وہ واقعی ان کے مالک بن جاتے ہیں؟

یونیورسٹی اف لیسٹر کی روسانا ڈیپلانو میں بین الاقوامی خلائی قانون کی پروفیسر ہیںکہتی ہیں کہ یہ قانونی طور پر اب بھی واضح نہیں۔

1967 کا آؤٹر سپیس ٹریٹی جو خلا سے متعلق سب سے پرانا اور سب سے زیادہ تسلیم شدہ معاہدہ ہے جس پر 115ممالک نے دستخط کر رکھے ہیںکہ خلا کو مشترکہ اثاثہ سمجھا جائے گا لیکن یہ معاہدہ خلا کے وسائل کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔

ڈیپلانو کہتی ہیں ’اس کا مطلب ہے کہ خلا سے معدنیات نکالنا ممنوع تو نہیں ہے۔‘

1979 کا مون ایگریمنٹ کہتا ہے کہ چاند کے قدرتی وسائل کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتےمگر اسے صرف 7 ممالک نے تسلیم کیا ہےاور ان میں سے کسی کے پاس خود کا انسانی خلائی مشن نہیں۔

اقوامِ متحدہ کا ایک خصوصی کمیشن 2027 میں خلا کے وسائل کے استعمال پر غور کرے گا، لیکن جو بھی نتیجہ نکلے گا اسے مانناقانونی طور پر لازم نہیں ہوگا۔

ڈیپلانو کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے مستقبل میں قومی مفادات بین الاقوامی اصولوں پر حاوی ہو جائیں جیسا کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنی وسائل پر بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’اگر سیارچوں سے وسائل نکالنا سائنسی تحقیق کے لیے ہو تو شاید کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن جیسے ہی یہ تجارتی شکل اختیار کرے گا، مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ مختلف ممالک پہلے ہی اپنی قومی تشریحات کی بنیاد پر قانون سازی کر رہے ہیں۔ ’اور یہی چیز کمرشلائزیشن کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ یہ عمل اب رکنے والا نہیں۔‘

کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش جو اب ’کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے‘خلا میں جانے والی خواتین ماہواری ہونے پر کیا کرتی ہیں؟آٹھ دن کے لیے خلا میں جانے والوں کی نو ماہ بعد زمین پر واپسیخلائی مخلوق کی دنیا میں آمد سے جُڑے نظریات اور ان کی حقیقت کیا ہے؟وہ پرانی ٹیکنالوجی جو خلائی مشنوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More