Getty Images
دنیا بھر میں بہت سی خواتین اس بارے میں فکر مند ہیں کہ مانع حملکی گولیاں ان کی ذہنی صحت کو کس طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ کیا خواتین کی گولیوں سے وابستہ اس طرح کے خوف کا کوئی ثبوت ہے؟
پاکستان میں کئی طرح کی مانع حمل ادوایات دستیاب ہیں۔ لیکن یہ ادوایات عائشہ شاہ کے لیے مدد کے بجائے نئی پریشانی لے کر آئیں۔ وہ کہتی ہیں 'اوپر تلے دو بچے پیدا ہونے کے بعد میں نے مانع حمل دواؤں کا رخ کیا۔ پہلے انجکیشن لگوائے تو اس سے ماہواری رک گئی، وزن بڑھنے لگا اور چہرے چھائیاں پڑ گئیں۔'
انھوں نے بتایا ’بے چینی اور اضطرابی بڑھنے لگی تو میں انجیکشن سے گولیوں پر منتقل ہوگئی لیکن نتائج قریباً ایک سے تھے۔ سینے میں جلن کی وجہ سے نیند بہت متاثر ہوتی تھی۔۔۔ وزن بڑھنے سے کمر میں درد شروع ہو گیا تھا چلنے پھرنے سے رہ گئی تھی۔۔۔ ٹانگوں اور پاؤں میں درد رہتا تھا۔‘
’ایک پریشانی سے نکلی تو نئے ڈپریشن نے گھیر لیا۔ اور تو اور آئینہ دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ مزاج میں چڑ چڑا پن آ گیا تھا۔ پھر میں نے گولیاں بھر ترک کر دیں۔‘
بی بی بی کی نامہ نگار تابندہ کوکب سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر کے پاس مزید کوئی مدد اس لیے نہیں لی کہ وہ پھر مجھے ہی کسی نئی دوا پر لگا دیتیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے شوہر کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور انھیں کوئی دوا نے لینے دیں۔
دوسری جانب فرح دیبا بھی ایسی خواتین میں شامل ہیں جنھیں مانع حمل گولیوں کے سائیڈ ایفکیٹ جھیلنے پڑے۔
وہ کہتی ہیں ’میرے ہارمون لیولز ڈسٹرب ہو گئے ہیں۔ چہرے کے بال پہلے سے زیادہ آنے لگے ہیں۔ ماہواری بھی بےقاعدگی کا شکار ہو گئی ہے۔ ماہواری کے دن پورے ہونے کے بعد بھی داغ لگتے رہتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں 'میں تو پریشان ہو گئی ہوں، آئے دن میگرین ہو جاتا ہے۔ نیند بہت کم ہو گئی ہے اور پیٹ پھولا رہتا ہے۔'
فرح کہتی ہیں مانع حمل کے اثرات کے خوف سے اب ان کا سیکس کرنے کو دل بھی نہیں کرتا۔
فرح اب شوہر کے ساتھ بیرونِ ملک منتقل ہوگئیں ہیں اور کہتی ہیں کہ وہاں ڈاکٹر کے پاس جانا بہت مہنگا ہے اس لیے وہ دواؤں کے بجائے احتیاط کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
’وہ ہوا جس کے بارے میں سوچا نہیں تھا‘
بہت سی نوجوان خواتین کی طرح، سارہ ای ہل نے اپنی نوعمری اور بیس کی دہائی کا بیشتر حصہ مانع حمل کی گولی پر گزارا۔ جب سارہ نے مانع حملکی گولیوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا، ان کو شروع کرنے کے 12 سال بعد، انھیں ایک ایسی چیز کا احساس ہوا جس کے بارے میں انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
وہ کہتی ہیں 'میری زندگی روشن اور زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی، جیسے میں نے ٹو ڈی بلیک اینڈ وائٹ فلم سے نکل کر ایک رنگین، تھری ڈی بامعنی حقیقت میں قدم رکھا تھا۔'
مانع حملکی گولی لینے کے ان کے تجربات نے انھیں اس کے پیچھے کی سائنس کا مطالعہ کرنے اور پھر 2019 میں اس کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کی ترغیب دی۔
ان کی کتاب کا نام ہے 'ہاؤ دی پِل چینجز ایوری تھنگ' - How the Pill Changes Everything.
حالیہ برسوں میں، بہت سی خواتین نے گولی کے مضر اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے - خاص طور پر ان کے مزاج اور دماغی صحت پر۔
درحقیقت، اب اس پر ردعمل بڑھ رہا ہے، سب سے زیادہ واضح سوشل میڈیا پر جہاں #quittingbirthcontrol جیسے ہیش ٹیگز کو لاکھوں بار دیکھا جا رہا ہے۔
بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اب ان گولیوں کے لیے طبی مشورے میں کمی آئی ہے۔ جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات انگلینڈ نے رپورٹ کیا کہ زبانی مانع حمل گولیوں کا استعمال 2020-2021 میں 39 فیصد سے کم ہو کر 2021-2022 میں 27 فیصد رہ گیا ہے۔
دریں اثنا، امریکہ میں ایسی گولیاں استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 2002 میں 31 فیصد سے کم ہو کر 2017 اور 2019 کے درمیان 24 فیصد رہ گئی۔
جبکہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے رپورٹ کیا کہ گولیوں کا استعمال بالترتیب 2006-2016 اور 2008-2016 میں 23فیصد سے کم ہو کر 11فیصد ہو گیا۔
جائز خدشات پر بات کرنے کے علاوہ، سوشل میڈیا پر برتھ کنٹرول گولیوں کے دماغی اور جسمانی دونوں طرح کے مضر اثرات کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔
ایسے انفلواینسرزکو طبی تجربہ بھی نہیں ہوتا اور پھر بھی وہ خواتین کو مانع حملکی گولیوں کو مکمل طور پر چھوڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
Getty Imagesدنیا بھر میں تقریباً 15 کروڑ خواتین استعمال کرتی ہیں
لیکن کیا ایسی گولیاں واقعی کسی کی شخصیت اور زندگی کے نقطہ نظر کو بدل سکتی ہیں؟
کیا یہ تشویش اور ڈپریشن جیسی سنگین ذہنی صحت کی حالتوں کا سبب بن سکتا ہے، یا انتہائی صورتوں میں خودکشی کا باعث بھی بن سکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ اس سوال کا جواب ابھی تک واضح نہیں ہے۔
جب یہ گولی پہلی بار 1960 میں امریکہ میں آئی تو دو سالوں میں اس کے 12 لاکھ صارفین تھے۔
یہ چھوٹی گولیاں مانع حملکے لیے ایک مؤثر آپشن کے طور پر سامنے آئیں۔ خواتین نے بھی ان کی بہت تعریف کی کیونکہ یہ گولیاں انھیں ان چاہے حمل سے محفوظ رکھتی ہیں اور ان کے کیریئر یا ملازمت پر توجہ مرکوز کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
آج دنیا بھر میں تقریباً 15 کروڑ خواتین یہ گولیاں لینا پسند کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی جو مانع حمل ادویات استعمال کرتی ہیں ان کو کھانے والی گولیاں زیادہ موزوں لگتی ہیں۔
ان گولیوں کی ناکامی کی شرح صرف 1فیصد ہے (ایسی صورتوں میں جہاں خواتین کبھی کبھار اپنی خوراک لینا بھول جاتی ہیں، ناکامی کی شرح 9 فیصد ہے)۔
مانع حمل ادویات دماغ کو کیسے متاثر کر سکتی ہیںخاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط فہمیاں: ’بچوں میں وقفے کے لیے آپ صرف کنڈوم پر انحصار نہیں کر سکتے‘صدیوں پہلے استعمال ہونے والے مانع حمل کے ’تکلیف دہ‘ طریقے آج سے کتنے مختلف تھے؟حمل روکنے کے لیے فرٹیلیٹی ایپس کیا مانع حمل ادویات سے زیادہ مؤثر ہیں؟مانع حملوالی گولیوں کی کتنی اقسام ہیں؟
مانع حملکی دو قسم کی گولیاں ہیں اور دونوں مصنوعی جنسی ہارمونز سے بنی ہیں۔
پہلی اور سب سے زیادہ مقبول گولی ہے جس میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کے مصنوعی ورژن ہوتے ہیں۔
دوسری صرف پروجسٹوجن گولی یا ’منی پِل‘ ہے۔
دونوں گولیاں کئی طریقوں سے حمل کو روکنے کے لیے کام کرتی ہیں، جن میں بیضہ دانی کو دبانا اور سروائیکل سیال کو گاڑھا کرنا، سپرم کے لیے انڈے تک پہنچنا اور گھسنا مشکل بناتا ہے۔
تاہم خوردہ مانع حمل ادویات میں شامل ہارمونز نہ صرف جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ یہ عورت کے دماغ پر بھی بڑا اثر ڈال سکتے ہیں۔
Getty Imagesدماغی صحت کا مسئلہ
ماہر امراض نسواں اور سوئٹزرلینڈ کے یونیورسٹی ہسپتال باسل کے ماہر نفسیات جوہانس بٹزر کہتے ہیں 'دماغ پر ہارمونز کے اثرات پیچیدہ ہیں۔'
وہ کہتے ہیں، 'کچھ افراد کے لیے، گولی دماغی صحت پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔ جب کہ دوسروں میں، یہ بے چینی اور پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔"
گولی کے بارے میں طبی انتباہات اس کی 65 سالہ تاریخ میں نایاب ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں کچھ جنسی صحت فراہم کرنے والے اپنی ویب سائٹس پر گولی کے ذہنی مضر اثرات کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔
بٹزر، جو تقریباً 40 سال سے اس شعبے میں ہیں، کہتے ہیں، 'میرے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہامراضِ نسواں کی تربیت میں دماغی صحت کوئی موضوع نہیں ہے۔ یہ نفسیاتی ماہرین کے لیے ہے۔'
ان کے مطابق، 'چیزیں آہستہ آہستہ بدل رہی ہیں لیکن اس سے پہلے جب ہم گولی پر بات کرتے تھے، تو ہم نے تھرومبوسس، کینسر، بے قاعدہ خون بہنے، وزن میں اضافہ وغیرہ کے بارے میں بات کی تھی۔ ذہنی صحت کا مسئلہ نہ ہونے کے مترادف تھا۔'
گولی کے ممکنہ ذہنی ضمنی اثرات پر بھی محققین نے بڑے پیمانے پر تحقیق نہیں کی ہے۔ لیکن بٹزر کا کہنا ہے کہ تبدیلی 2016 میں شروع ہوئی، جب ڈنمارک کے ایک گروپ نے اس موضوع پر ایک تاریخی مقالہ شائع کیا، جس نے اس کے بعد کے سالوں میں مزید تحقیق کی حوصلہ افزائی کی۔
اصل ڈینش مطالعے میں محققین نے 14 سال کے عرصے میں 15 سے 34 سال کی عمر کی 10 لاکھ سے زائد خواتین کی ذہنی صحت کا پتہ لگانے کے لیے ملک کے قومی صحت کے ڈیٹا بیس کو کھنگالا۔
انھوں نے پایا کہ جن خواتین نے گولی لینا شروع کی تھی انھیں چھ ماہ کے بعد اینٹی ڈپریسنٹس تجویز کیے جانے کا امکان 70 فیصد زیادہ تھا، جب کہ جنہوں نے ایسی گولیاں نہیں لی تھیں ان میں ایسا ہونے کا امکان بہت کم تھا۔
اسی طرح، جن خواتین نے منی گولی لینا شروع کی، ان کے لیے یہ خطرہ 80 فیصد تھا۔
سنہ 2023 میں محققین کے ایک مختلف گروپ نے برطانیہ کے بائیو بینک میں ایک چوتھائی ملین خواتین کے صحت کے ریکارڈ کا تجزیہ کرتے وقت اسی طرح کے نتائج پائے، جو جینیاتی اور طبی معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔
انھوں نے پایا کہ دو سال بعد جن خواتین نے گولی استعمال کی تھی، ان میں ڈپریشن کا امکان ان خواتین کے مقابلے میں 71 فیصد زیادہ تھا جنہوں نے کبھی گولی استعمال نہیں کی تھی۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی میں زچگی اور امراض نسواں کے ماہر اور طبی وبائی امراض کے ماہ اوجونڈ لیڈگارڈ نے اس ڈینش مطالعہ کی قیادت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ان مصنوعات کا استعمال شروع کرنے اور پھر ڈپریشن کی علامات پیدا ہونے کے درمیان ایک مضبوط وقتی تعلق ہے۔'
تاہم، یہ دونوں مطالعات 'کوہورٹ سٹڈیز' تھیں، جن میں خواتین کے بڑے گروپوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور خوردہمانع حمل ادویات لینے والی خواتین کے دماغی صحت کے نتائج کا موازنہ ان خواتین کے ساتھ کیا گیا جو گولی نہیں لے رہی تھیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس دان یہ شناخت کرنے میں کامیاب رہے کہ آیا ان دونوں چیزوں کے درمیان کوئی تعلق ہے، لیکن وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس کی وجہ اور اثر کیا ہے۔
مثال کے طور پر، خواتین کے گروپوں کے درمیان کچھ پہلے سے موجود اختلافات ہوسکتے ہیں جو نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔
Getty Imagesمختلف نتائج
کچھ مطالعات دماغی صحت کی کچھ حالتوں اور خوردہ مانع حمل کے استعمال کے درمیان تعلق کی تردید بھی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، جب اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے گذشتہ 26 مطالعات کا جائزہ لیا، تو انھیں صرف 'کم از کم' پروجسٹوجن مانع حمل طریقوں اور تناؤ کے درمیان تعلق ملا۔
اس کے علاوہ، سویڈن میں دو کلینیکل ٹرائلز کیے گئے، جن میں بالترتیب 200 اور 340 خواتین شامل تھیں۔ دریں اثنا، محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عام برتھ کنٹرول گولی کا تناؤ یا موڈ کے بدلاؤ کی حالت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ تحقیق کے مطابق خوردہ مانع حمل ادویات سے 'بریک' لینا جیسے کئی قسم کی گولیاں لیتے وقت انھیں ہر مہینے سات دن تک لینا بند کرنا موڈ کو خراب کر سکتا ہے۔
سنہ 2023 میں آسٹریا میں کی گئی ایک تحقیق میں گولی لینے والی 120 خواتین شامل تھیں، جن میں سے کچھ طویل عرصے سے گولی کھا رہی تھیں۔
دریں اثنا، کچھ خواتین شرکا نے گولی روکنے کے دوران اضطراب میں 7 فیصد اضافہ دیکھا، ساتھ ہی منفی جذبات اور دماغی صحت کی علامات میں بالترتیب 13 فیصد اور 24 فیصد اضافہ ہوا۔
بیلنڈا پلیٹزر یونیورسٹی آف سالزبرگ میں ایک علمی نیورو سائنسدان ہیں اور خواتین کے دماغوں پر ہارمونل مانع حمل ادویات کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے یورپی یونین کے فنڈ سے چلنے والے پروجیکٹ کی قیادت کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ذہنی صحت کے نقطہ نظر سے، اس کا مسلسل استعمال مانع حمل استعمال کرنے والوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔‘
تاہم، پلیٹزر اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ کچھ خواتین ایسی گولی لینے کے بعد ذہنی طور پر مزید خراب محسوس کرتی ہیں اور ان علامات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
لیکن وہ کہتے ہیں ’یہ خواتین کا ایک چھوٹا تناسب ہے۔‘
سویڈن میں سٹاک ہوم کے قریب ڈینڈریڈ ہسپتال میں ماہر امراضِ نسواں ہیلینا کوپ کلونر کہتی ہیں کہ ذہنی صحت کی حالت کو اکثر انفرادی طور پر ماپا جاتا ہے اور اس کا مطالعہ کرنا بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ، گولیوں کی بہت سی مختلف قسمیں ہیں 30 سے زائد برانڈز موجود ہیں اس لیے سائنس دان دو مختلف اقسام کا موازنہ کر رہے ہوں گے۔
اس کے علاوہ مختلف مطالعات میں مختلف طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں۔
بٹزر کا کہنا ہے کہ محققین اپنے مطالعے کے اختتام پر جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ان کے نتائج پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، ڈنمارک کی تحقیق میں، ’حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اینٹی ڈپریسنٹس دیے گئے ہیں یہ ضروری نہیں کہ ڈپریشن کے علاج کے لیے ہوں، اس کی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس لیے تحقیق نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ پریشانی کا باعث ہیں۔‘
سویڈن کے گوتھنبرگ میں مقیم ایک ڈاکٹر صوفیہ زیٹرمارک کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مشاہداتی مطالعات سے وجہ اور اثر کے تعلقات کو ثابت کرنا بھی مشکل ہے، کیونکہ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں جیسے جینیات اور ماحولیاتی عوامل جو نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، جب انھوں نے ایک قومی سویڈش رجسٹری میں تقریباً 10 لاکھ خواتین کے صحت کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا، تو انھوں نے پایا کہ کم آمدنی والی اور تارکین وطن کے پس منظر والی خواتین ہارمونل مانع حمل ادویات لینے کے دوران موڈ میں تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ حساس تھیں۔
فائدہ زیادہ اور نقصان کم؟
لیڈگارڈ واضح کرتے ہیں کہ ان کے مطالعے کو ایک وسیع تناظر میں سمجھنا چاہیے۔
لِیڈگارڈ کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ خواتین جو ہارمونل مانع حمل ادویات کا استعمال شروع کرتی ہیں، ان کی ذہنی صحت میں سنگین تبدیلیاں آتی ہیں۔‘
’تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ صرف 7 سے 8 فیصد خواتین کو نفسیاتی مسائل اتنے شدید ہوتے ہیں کہ انھیں اپنی دوائیں لینا بند کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ زیادہ تر خواتین جو یہ دوائیں لے رہی ہیں انھیں کوئی سنگین نفسیاتی تکلیف نہیں ہوتی۔‘
یقیناً کچھ خواتین کے لیے خوردہ مانع حمل ادویات کے نقصانات فوائد سے زیادہ نہیں ہوتے۔ مؤثر مانع حمل فراہم کرنے کے علاوہ اس گولی کے بہت سے دوسرے مثبت جسمانی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
کوپ کالنر کہتے ہیں، ’اگر آپ کو اینڈومیٹرائیوسس، بہت زیادہ خون بہنا یا پی ایم ڈی ڈی (پی ایم ایس کی ایک بہت شدید اور کمزور شکل، قبل از حیض کی خرابی کی شکایت ہے) تو یہ گولی واقعی اس کو بہتر کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔‘
حمل صحت سے متعلق بہت سے مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ دریں اثنا، کئی مطالعات نے ان چاہے حمل اور تناؤ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان تعلق پایا ہے۔
مانع حمل گولیاں، لیکن مردوں کے لیےکونڈوم یا نس بندی، مانع حمل کا کون سا طریقہ کامیاب ہے؟Getty Imagesدماغ کی کیمسٹری میں تبدیلیاں
لیکن جب ذہنی صحت پر اثرات کی بات آتی ہے تو یہ حقیقت میں کیسے چلتا ہے؟
ایسے کئی طریقے ہو سکتے ہیں جن میں مانع حمل گولیاں خواتین کے مزاج کو متاثر کر سکتی ہیں۔
مانع حملوالی گولی کا ایک ضمنی اثر یہ ہے کہ یہ قدرتی ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ہارمونز ہیں جو دماغ میں طاقتور کردار ادا کرتے ہیں۔ اور نیورو پروٹیکٹو اثرات میں بھی شامل ہیں، بشمول خون کے بہاؤ، سوزش، اور دماغ میں سگنل کے استقبال کو منظم کرنا۔
گولیاں اورہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT) میں ان ہارمونز کے مصنوعی ورژن ہوتے ہیں جو ماہواری کے قدرتی بڑھنے میں خلل ڈالتے ہیں۔
اس میں پروجسٹن شامل ہیں، جو مصنوعی پروجسٹوجن ہارمونز کا ایک گروپ ہے جو مختلف طریقوں سے بنائے جا سکتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر ٹیسٹوسٹیرون سے بنائے جاتے ہیں۔ نہ ہی مصنوعی ایسٹروجن اور نہ ہی پروجسٹن قدرتی طور پر جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز جیسے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے کئی نتائج ہیں۔ ایک یہ کہ نیورو ٹرانسمیٹر سیروٹونن میں شامل راستہ جسے اکثر دماغ کا قدرتی 'موڈ بوسٹر' کہا جاتا ہے ، مانع حمل گولیاں لینے والی خواتین میں خلل پڑ سکتا ہے۔
ڈنمارک کے محققین کے ایک گروپ نے ایک تحقیق میں سیروٹونن نظام کی سرگرمی کا اندازہ لگانے کے لیے 53 صحت مند خواتین کے دماغی سکینوں کا تجزیہ کیا۔ ان خواتین میں سے 16 زبانی مانع حمل ادویات لے رہی تھیں۔
انھوں نے پایا کہ ایسی مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین میں ایک مخصوص قسم کے سیروٹونن کی سطح ان خواتین کے مقابلے میں 9-12 فیصد کم ہوتی ہے جو یہ دوائیں نہیں لے رہی تھیں۔
محققین کا قیاس ہے کہ یہ خوردہ مانع حمل ادویات اور تناؤ کے درمیان تعلق کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے۔
اس بات کے کچھ شواہد بھی ہیں کہ مانع حمل گولیوں میں مصنوعی ایسٹروجن اور پروجسٹن ایلوپریگنانولون کی پیداوار میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ ایلوپریگنانولون ایک اور ہارمون ہے جو دماغ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے - خاص طور پر موڈ کو منظم کرنے اور تناؤ پر جسم کے ردعمل میں۔
سنہ 2019 میں اس ہارمون کے ایک فارماسیوٹیکل ورژن کو امریکہ میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے علاج کے لیے منظور کیا گیا تھا۔
جو خواتین مصنوعی جنسی ہارمون نہیں لیتیں، ان میں پروجیسٹرون کو ایلوپریگنانولون میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مانع حمل گولی استعمال کرنے والی خواتین میں اس عمل میں خلل آ جاتا ہے: پروجیسٹرون کو ایلوپریگنانولون میں نہیں توڑا جاتا، یعنی وہ خواتین اس کے کچھ اینٹی اینزائیٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ اثرات سے محروم رہ سکتی ہیں۔
چوہوں پر کی گئی تحقیق میں کیا دریافت ہوا؟
چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ مانع حمل گولیاں کھاتے ہیں ان کے دماغ میں ایلوپریگنانولون کی مقدار کم ہوتی ہے۔
چوہوں پر کی گئی ایک اور تحقیق سے پتا چلا کہ اس کی وجہ سے سماجی رویّے اور جنسی دلچسپی میں کمی واقع ہوئی۔
ان مطالعات کے مصنفین کا خیال ہے کہ یہ تمام ضمنی اثرات خوردہ مانع حمل ادویات لینے والی خواتین سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ضروری نہیں کہ جانوروں کے مطالعے کے نتائج ہمیشہ انسانوں کے لیے ترجمہ ہوں۔
ایک اور چیز جو اس معاملے کو مزید خراب کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی گولی عورت کے تناؤ کے ردعمل کو خراب کر سکتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر عورت کو بے چینی اور ڈپریشن کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ہل نے وضاحت کی ہے کہ ’محققین نے جو کچھ پایا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو تناؤ کے لیے کورٹیسول کے ردعمل میں کمی آتی ہے جس کا سامنا قدرتی طور پر سائیکل چلانے والی خواتین کو ہوتا ہے۔‘
’اگر کورٹیسول نہیں ہے تو کوئی تناؤ نہیں ہے، یہ اچھا لگ سکتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت میں اس طرح کام نہیں کرتا، کورٹیسول خود تناؤ کا سبب نہیں بنتا، اس طرح ہمارا جسم تناؤ سے نمٹنے اور اس سے صحت یاب ہونے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‘
Getty Imagesجو لوگ پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں ان کے لیے کیا خطرہ ہے؟
کوپ کالنر نے خبردار کیا ’اگر آپ پہلے سے ہی تناؤ کا شکار ہیں، اکثر فکر مند رہتے ہیں، یا دماغی صحت کا مسئلہ ہے، تو آپ کو ایسی گولی سے تناؤ پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔‘
کوپ کالنر جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ خود آگاہی کلیدی چیز ہے۔ جب آپ پہلی بار گولی شروع کرتے ہیں تو آپ کو چند مہینوں تک اپنے موڈ کی نگرانی کرنی چاہیے، یا برانڈ تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو اس بارے میں خدشات ہیں کہ آپ کا برتھ کنٹرول آپ کے موڈ کو کیسے متاثر کر رہا ہے تو اپنے ڈاکٹر سے بات کرنے کی کوشش کریں۔
بٹزر کا کہنا ہے کہ پروجسٹن کی بہت سی مختلف قسمیں ہیں اور ان کا مصنوعی ایسٹروجن، مختلف خوراکیں، اور ایسی صورت حال میں آپ کے لیے صحیح گولی کا انتخاب کرنا ’ایک فن ہے۔‘
تاہم، بہت سی دوسری قسم کی مانع حمل ادویات دستیاب ہیں جن میں یا تو ہارمون نہیں ہوتے یا ان میں خوردہ دواؤں سے کم ہوتے ہیں، بشمول مرد اور خواتین کے کنڈوم (جو جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بچانے میں بھی مدد کر سکتے ہیں)، اندام نہانی کی رِنگ ، ہارمونل کوائل اور نس بندی وغیرہ۔
ہل کے مطابق مانع حمل کو تبدیل کرنا ان کے لیے زندگی بدل دینے والا تھا۔
وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ’مانع حمل کے لیے وقت، صبر اور اپنے ساتھ نرمی کے ساتھ ایسا طریقہ نکالیں جو آپ کے لیے کارآمد ہو۔‘
تنبیہ: اس مضمون میں تمام معلومات صرف عام معلومات کے لیے فراہم کی گئی ہیں اور اسے ڈاکٹر یا طبی ماہرین کے مشورے کا متبادل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اگر آپ کسی بھی طرح سے اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں تو ہمیشہ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
کیا مانع حمل گولیوں کا استعمال خواتین میں کسی بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے؟وہ مانع حمل دوا جو پیدائش میں وقفہ تو نہ کروا سکی لیکن لاکھوں زندگیاں بچانے میں مددگار ثابت ہوئیمانع حمل ادویات دماغ کو کیسے متاثر کر سکتی ہیںصدیوں پہلے استعمال ہونے والے مانع حمل کے ’تکلیف دہ‘ طریقے آج سے کتنے مختلف تھے؟خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط فہمیاں: ’بچوں میں وقفے کے لیے آپ صرف کنڈوم پر انحصار نہیں کر سکتے‘حمل روکنے کے لیے فرٹیلیٹی ایپس کیا مانع حمل ادویات سے زیادہ مؤثر ہیں؟