Getty Images
پاکستان میں محکمہ موسمیات کی جانب سے گذشتہ دنوں ملک کے تین صوبوں میں خشک سالی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے الرٹ جاری کیا گیا ہے جس کی وجہ ملک میں بارشوں کا کم ہونا ہے۔
محمکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کیے گئے الرٹ میں کہا گیا ہے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے زیریں میدانی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ محمکے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک کے جنوبی حصوں میں خشک موسم کا دورانیہ دو سو دنوں سے بھی زیادہ رہا اور مارچ کے مہینے میں ملک کے جنوبی حصے میں درجہ حرارت معمول سے دو تین سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔
ادارے کے مطابق ملک کے وسطی اور بالائی علاقوں میں حالیہ ہفتوں میں بارش ہوئی تاہم ستمبر سے لے کر مارچ کے تیسرے ہفتے تک یہ بارشیں معمول سے چالیس فیصد کم رہیں جس کی وجہ سے منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد بہت کم ہے جب کہ دریاوں میں بھی پانی کی سطح کافی کم ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
محمکہ موسمیات کی جانب سے جاری کیے گئے الرٹ کے بعد پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی یعنی ارسا نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اپریل کے مہینے میں صرف پینے کے لیے پانی کی تقسیم کی جائے گی اور اس کے بعد صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔
ارسا کے اعلامیے کے مطابق اپریل کے مہینے میں فراہم کیا جانے والا پانی چالیس فیصد سے کم ہو گا جب کہ مئی کے شروع میں دوبارہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان میں محکمہ موسمیات اور ارسا کے جاری کردہ الرٹس اور فیصلوں کے بعد کیا ملک کے جنوبی حصے کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے؟ بی بی سی اردو نے اس حوالے سے ارسا اور نجی شعبے میں پانی کے ماہرین سے بات کی ہے۔
Getty Imagesپاکستان میں محکمہ موسمیات کی جانب سے گذشتہ دنوں ملک کے تین صوبوں میں خشک سالی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے الرٹ جاری کیا گیا ہے ملک میں اس وقت پانی کی کیا صورتحال ہے؟
پاکستان میں گذشتہ سال کے آخری چار مہینوں اور موجودہ سال کے پہلے دو مہینوں میں معمول سے بہت کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
ملک کے بالائی حصوں میں موسم سرما کے دوران بارش اور برفباری ہوئی۔ ملک کے وسطی حصوں میں بہت کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں جب کہ ملک کے جنوبی حصوں میں تقریباً خشک موسم رہا اور محکمہ موسمیات کے مطابق یہ خشک موسم چھ مہینوں سے زائد عرصے پر محیط رہا۔
ارسا کےمطابق ملک کے دریائی سسٹم میں اس وقت چالیس فیصد سے زائد کمی ہے اور اپریل کے مہینے میں صرف پینے کے لیے پانی کی تقسیم ہو گی جب کہ مئی کے شروع میں صورت حال کا دوبارہ جائزہ لے کر خریف کی فصل کے لیے پانی کی تقسیم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق کم بارشوں کی وجہ سے اس وقت منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر موجود ہے۔ منگلا میں اس وقت پانی کی سطح ایک ہزار ساٹھ فٹ اور تربیلا میں یہ چودہ سو فٹ پر موجود ہے۔
محمکے کے مطابق موسم کی صورتحال اور ماحولیاتی منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امکان ہے کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے حصوں میں خشک سالی بڑھ سکتی ہے۔
تھر کے ’کالے سونے‘ پر چلنے والے پاور پلانٹ یہاں رہنے والوں کی زندگیاں کیسے تاریک کر رہے ہیں؟پاکستان میں تیار کردہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پنجاب میں مصنوعی بارش کیسے برسائی گئی؟پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سفارتکاری کا محور کیوں نہ بن سکے؟’پاکستانی شہریوں کی ماحول میں تبدیلی سے موت کا امکان دوسرے ملکوں کے مقابلے 15 گنا زیادہ ہے‘پانی کی کمی اور خشک سالی کی کیا وجہ ہے؟
پاکستان میں حکومتی اداروں کی جانب سے پانی کی کمی اور اس کی وجہ سے خشک سالی کے بڑھتے ہوئے خدشے کے بارے میں پاکستان کی سابق وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اپنے ایکس اکاونٹ پر ایک پیغام میں لکھا کہ اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ پانی کے انتظام اور اسے محفوظ بنانے کےلیے ناقص نظام ہے۔
انھوں نے کہا اسے اتفاق رائے کے بغیر یکطرفہ واٹر چینل یا نئی نہروں سے مزید خراب نہ کیا جائے۔
پاکستان میں پانی کے شعبے کے ماہر ڈاکٹرحسن عباس اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی کمی سے زیادہ اس کی مینجمنٹ کا ایشو ہے۔
انھوں نے کہا پانی کی کمی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی زیادہ اس کے ناقص انتظام کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہ پونے دو سو سال پرانا دریائی اور نہری سسٹم ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ہے اور جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو ہمیں اس کی شدت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
Getty Imagesارسا کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ پانی کے سٹوریج کے نظام کو بہتر کیا جائے جس میں نئے ڈیم بنانا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے اب یا تو بارشیں کم ہوتی ہیں یا پھر اس کے مقابلےمیں دوسری طرف اتنی زیادہ بارشیں ہوتی ہیں کہ سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا ہمارا سسٹم بوسید ہو چکا ہے اس لیے جب تین مہینے بارش نہیں ہوتی تو خشک سالی کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو سیلاب آجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا پانی کا نظام دونوں صورت میں دباؤ کا شکار رہتا ہے۔
ارسا کے ترجمان رانا خالد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس ساری صورتحال کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور ملک پانی کی کمی کا شکار ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ملک کے کچھ حصے آنے والے مہینوں میں خشک سالی کا شکار ہو سکتے ہیں تو ترجمان ارسا کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی کچھ واضح نہیں ہے کہ موسم کا پیٹرن کیا رہے گا۔
انھوں نے کہا یہ خشک سالی کی طرف بھی جا سکتا ہے اور ملک میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
Getty Imagesپانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کا حل کیا ہے؟
پاکستان میں پانی کی کمی کی موجودہ صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والے خشک سالی کے خاتمے کے حل کے بارے میں ارسا ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کا حل تو کوئی نہیں ہے کیونکہ یہ قدرت کی طرف سے ایک آفت ہے۔
اب ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے انتظام کرنا ہے۔
ارسا کے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس کا حل ایک ہے کہ پانی کے سٹوریج کے نظام کو بہتر کیا جائے جس میں نئے ڈیم بنانا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا اگرچہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے تاہم ایک یہی حل ہے کہ پانی کے سٹوریج کے نظام کو بہتر بنا کر جب بارشیں کم ہوں تو پانی کی زراعت کے شعبے میں ضرورت کو پورا کیا جائے۔
انھوں نے کہا جو صورتحال اس وقت درپیش ہے وہ سٹوریج کےنظام میں بہتری کا تقاضا کرتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر بارش نہیں ہوتی تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے اور سخت خشک سالی ملک کے کچھ حصوں کو اپنی زد میں لے سکتی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس تاہم اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے کہ ڈیم بنا کر پانی کی کمی کو پورا کیا جائے۔ ان کے مطابق شارٹ ٹرم حل کی سوچ ہی سارے مسئلے کی جڑ ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی کے بڑھتے ہوئے مسئلے اور اس سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی پالیسی کے بارے میں ڈاکٹر حسن عباس نے بتایا کہ پانی کے نظام میں تین طرح کے پہلو ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو بارشیں اور برف باری ہوتی ہے اس سے ندی نالے اور دریاوں میں پانی آتا ہے۔
Getty Imagesپاکستان میں زراعت اور پانی کے امور کے ماہر محمود نواز شاہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ دریاؤں پر ڈیم اور نہروں کے سلسلے کو تو ختم نہیں کیا جا سکتا اسی طرح نئے ڈیم بھی بن رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی طرح یہ پانی زیر زمین بھی جاتا ہے۔ انھوں نے کہا اگر ملک میں زیر زمین پانی کی سطح کو دیکھا جائے تو یہ پندرہ سو ملین ایکڑ فٹ تک ہے جو کہ محتاط اندازہ ہے لیکن یہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تربیلا ڈیم میں صرف چھ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہمیں اپنے دریاؤں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے اور ان کی گزرگاہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کا پانی ذخیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ جب دریا آزاد طریقے سے بہتے رہیں گے تو ملک میں زیر زمین پانی کا جو بہت بڑا ذخیرہ ہے وہ ’ری چارج‘ ہو گا جو ملک میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
پاکستان میں زراعت اور پانی کے امور کے ماہر محمود نواز شاہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ دریاؤں پر ڈیم اور نہروں کے سلسلے کو تو ختم نہیں کیا جا سکتا اسی طرح نئے ڈیم بھی بن رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے نمٹنے کے لیے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ پالیسی سازوں کو سب سے پہلے یہ احساس کرنا ہوگا کہ ملک میں پانی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اب اس کے لیے طویل مدتی پالیسی میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ زراعت کے شعبے میں اس پانی کا کم استعمال ہو کیونکہ ملک میں زراعت کے شعبے میں 92 فیصد پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ اس سے پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا اس سلسلے میں نئی اور بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کی پالیسی ترک کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ پانی زیادہ استعمال کرنے والی فصلوں جیسے چاول کی کاشت کو بھی روکا جائے۔
’پاکستانی شہریوں کی ماحول میں تبدیلی سے موت کا امکان دوسرے ملکوں کے مقابلے 15 گنا زیادہ ہے‘پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سفارتکاری کا محور کیوں نہ بن سکے؟لاہور اور دلی کی سموگ، الزامات اور حقائق: ’ایسا صرف تب ممکن ہے اگر انڈین پنجاب میزائلوں سے آلودگی بھیجے‘کالی بارش: آسمان سے برسنے والا سیاہ پانی جو برازیل سمیت کئی ملکوں میں گھبراہٹ کا باعث بناماؤنٹ ایورسٹ: کیا دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی اونچائی ایک دریا کی وجہ سے ہر سال بڑھتی جا رہی ہے؟گرمی سے بچنے کے لیے درخت لگائیں لیکن کہاں اور کیسے؟