کیا کچرے کے ڈھیر اور پھٹے ہوئے پلاسٹک کے تھیلوں کو دیکھ کر کبھی سوچا ہے کہ یہ فضول چیزیں کسی کے خوابوں کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں؟ شاید ہی کسی کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو کہ ایک گھر سے نکلنے والا خشک کوڑا، دودھ کے خالی ڈبے، پرانے اخبارات، پلاسٹک کی بوتلیں، وغیرہ جو ردی کی ٹوکری میں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں، دراصل کسی غریب بچے کے سکول کی کتابوں، یونیفارم، یا دوپہر کے کھانے کے بندوبست کے کام آسکتی ہیں۔ 23 سال قبل جب ہم کوڑے کو محض کچرا سمجھ کر پھینک دیتے تھے، کوئی اسے تعلیم کی کرن میں بدلنے کا فارمولا ایجاد کر رہا تھا۔ 23 سال پہلے جب آبرو ایجوکیشنل ویلفیئر آرگنائزیشن کا آغاز گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ہوا تھا تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ روزمرہ کا خشک کچرا جو ہم بے دریغ پھینک دیتے ہیں، ہزاروں بچوں کی تعلیم کا سہارا بن جائے گا، لیکن لاہور کی روبینہ شکیل نے اسی کوڑے سے ہیرا نکالنے کا عزم کیا اور آج وہ لوگوں سے کوڑا مانگ مانگ کر ہزاروں بچوں کو مفت تعلیم دلوا رہی ہیں۔ اور یہ بتاتی ہیں ’ہمیں کوڑا دیں، ہم اس سے ہیرا نکال کے دیں گے۔‘اس عزم کا آغاز 23 سال قبل محض 32 روپے کے کوڑے سے ہوا جب روبینہ شکیل نے 32 روپے کا کوڑا جمع کر کے فروخت کیا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔انہوں نے اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا جس کا بنیادی مقصد ان پسماندہ بچوں کو تعلیم دینا تھا جو تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ روبینہ شکیل لاہور میں آبرو ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ارگنائزیشن چلا رہی ہیں تاہم وہ خود کو اس آرگنائزیشن کی خدمتگار کہتی ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سفر چھوٹے سے اقدام سے شروع ہوا تھا لیکن تئیس سالوں میں اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ شروع میں ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ ان بچوں کو پڑھانے کے لیے انہیں خوراک اور طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ جیسے جیسے یہ بچے ترقی کرتے گئے، وہ بڑے خواب دیکھنے لگے اور انہوں نے دوسروں سے مقابلہ کرنا شروع کیا۔ یوں ہم نے انہیں مفت کتابیں، کاپیاں، پنسلیں اور دوپہر کا کھانا فراہم کرنا شروع کیا۔‘ روبینہ نے ان بچوں کو پڑھانے کا بیڑا اٹھایا تھا جو جھگیوں میں رہتے ہیں یا سڑک کنارے بھیک مانگتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے عطیات مانگنے کی بجائے کوڑا جمع کر کے اس میں سے اشیاء نکالنے کو کیوں ترجیح دی؟ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بڑا کام تھا، تاہم غیرمتوقع ملکی حالات کی وجہ سے ہمارے ڈونرز کے حالات بدل گئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ صرف عطیات پر انحصار کرنا پائیدار نہیں تھا۔ ہمیں ایک ایسا پروگرام بنانے کی ضرورت تھی جو بیرونی مدد سے قطع نظر ہمارے کام کے تسلسل کو یقینی بنائے۔ لہٰذا ہم نے کوڑا جمع کرنا شروع کیا اور اسے آبرو سالیڈ ویسٹ مینجمنٹ اینڈ ری سائیکلنگ کا نام دیا۔‘اس انوکھے تصور کے تحت جو روزمرہ کا کوڑا بے دلی سے پھینک دیا جاتا تھا، ایک ذمہ دار معاشرے کی تعمیر کا سنگ بنیاد بن گیا جس سے یہ ثابت کرنا آسان ہوگیا کہ خشک کوڑے میں چمک دار پیکنگ والے خراب ڈبے، پرانی کاپیوں کے پھٹے ورق، یا کھلونوں کے ٹوٹے ہوئے پرزے، یہ سب کچھ جب ایک مخصوص مقصد کے ساتھ اکٹھا کیا جائے تو اس سے نہ صرف ماحول کو صاف رکھا جا سکتا ہے بلکہ معصوم ذہنوں کو روشن کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اپنے اس خیال سے متعلق روبینہ شکیل بتاتی ہیں ’ہم لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں، بیداری پیدا کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے روزمرہ کا خشک کوڑا گھر میں جمع کریں اور پھر ہمارے حوالہ کریں۔ ہمارا نعرہ ہے کہ ایک گھر میں ایک ماہ کا خشک کوڑا ایک ماہ کے لیے بچے کی تعلیم کے لیے فنڈ دے سکتا ہے۔‘32 روپے سے ایک کروڑ کے اخراجات تکاس پوری سرگرمی میں خواتین کے لیے مثبت پہلو تلاش کرتے ہوئے روبینہ شکیل بتاتی ہیں ’گھریلو خواتین اکثر سماجی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہیں، اب ان کے پاس بھی بہترین موقع ہے۔ دودھ کے کارٹن، پانی کی بوتلیں، روٹی، کپڑے، اور دیگر ری سائیکل ہونے والا مواد جمع کریں اور ہمیں دیں، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ کوڑا ایک بچے کی تعلیم کے اخراجات پورے کرے گا۔‘ان کے بقول ’میں سب کو بتاتی رہتی ہوں کہ میں ان کی جیبوں یا پرس کو نہیں دیکھ رہی بلکہ میں ان کے گھروں میں روزانہ پیدا ہونے والے کچرے کو دیکھتی ہوں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم آپ کا کوڑا ہیرا بنا سکتے ہیں۔‘روبینہ شکیل کے مطابق وہ ماہانہ 40 ٹن کوڑا جمع کر رہی ہیں جسے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے روہی نالہ کے پاس سکول اور پیش ہوم کے ساتھ ایک بڑا ہال کوڑے کے لیے مختص کر رکھا ہے جہاں روزانہ کے حساب سے مزدور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں مختلف پوائنٹس سے کوڑا جمع کر کے لایا جاتا ہے اور پھر مزدور ان میں سے کاٹن، لوہا، پیتل، شیشہ وغیرہ الگ کرتے ہیں۔ ان کے سکولوں اور دفتروں میں انہوں نے اسی کوڑے میں سے کام کی اشیاء نکال کر تزئین و آرائش کی چیزیں بھی بنائی ہیں۔ روبینہ شکیل بتاتی ہیں کہ ’ہمارے پاس 40 ٹن کوڑا آتا ہے۔ اس میں سے بڑی مقدار میں مواد سکولوں کو بھیجا جاتا ہے جہاں وہ یا تو بچوں کے استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے یا پھر سکولوں میں استعمال کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقی ماندہ کوڑا مزید پروسیسنگ کے لیے فیکٹریوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جہاں یہ ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔‘ان کے سکولوں اور دیگر سرگرمیوں پر سالانہ ایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جن میں سے 70 فیصد کوڑے سے ادا کیا جاتا ہے۔ ’اگر بتیس روپے سے شروع ہونے والا منصوبہ بتیس لاکھ تک بڑھ سکتا ہے اور پانچ ہزار بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جا سکتی ہے تو پانچ لاکھ یا پانچ کروڑ تک پہنچنا بھی ممکن ہے۔‘'روبینہ شکیل اس وقت ایسے 11 سکول چلا رہی ہیں جنہیں کوڑے کی مدد سے فنڈ کیا جا رہا ہے۔ ان سکولوں میں پانچ ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے ’گزشتہ 23 سالوں میں ہم نے مختلف طریقوں سے 30 لاکھ سے زائد بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھائے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک وقت میں پانچ ہزار بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں خوشی یہ ہے کہ اب وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں۔‘کوڑا اکٹھا کر کے صاف گوشت اور دیسی گھی بنانے کا منصوبہتعلیم کے علاوہ روبینہ شکیل دیگر شعبہ جات میں بھی سرگرم ہیں۔ یہ بتاتی ہیں ’ہم فی الحال آٹھ پراجیکٹس چلا رہے ہیں جن میں سکول ، طبی مراکز ، صنعتی گھر، بیوٹی سیلون اور دیگر شامل ہیں۔ ہمارے پاس ڈسکاؤنٹ مارٹ بھی ہے جو مقامی لوگوں کو سستی قیمتوں پر ضروری سامان مہیا کرتا ہے جس میں آسان قسطوں میں ادائیگی کا آپشن بھی ہوتا ہے۔‘اس کے علاوہ وہ ایک مربوط کاشتکاری کا منصوبہ بھی چلا رہی ہیں جس کے ذریعے یہ چاول، گندم اور دیگر فصلوں کے ساتھ ساتھ صاف گوشت، دودھ، انڈے اور دیسی گھی وغیرہ تیار کرتے ہیں۔ ’ہم نے انتہائی کم بجٹ سے یہ قدم اٹھایا تھا۔ اس وقت 32 روپے تھے لیکن آج یہ کام لاکھوں بچوں تک پہنچ رہا ہے، یہ کئی غریب گھرانوں کا سہارا بن چکا ہے اور متعدد بچوں کے خواب کی تعبیر ہے۔‘