’افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز‘ کی رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈ لائن ختم: اب کون سے افغان شہری پاکستان میں رہ سکیں گے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 01, 2025

BBCپاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز افغان شہریوں کی رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپسی کی 31 مارچ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی کا عمل شروع کردیا گیا ہے

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز افغان شہریوں کی رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپسی کی 31 مارچ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

اس ضمن میں اسلام آباد پولیس نے دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے متعدد افغان شہریوں کو حراست میں لیا ہے تاکہ انھیں ملک بدری کے لیے بنائے گئے مخصوص کیپموں میں منتقل کیا جا سکے۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے یکم اپریل کی الصبح ترنول، بارہ کہو، غوری ٹاؤن اور راولپنڈی پولیس نے فوجی کالونی کے علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران درجنوں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو حراست میں لیا ہے۔

مارچ کے اوائل میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے حکمنامے میں افغان سٹیزن شپ کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغان باشندوں کو رضاکارانہ طور پر 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایات جاری کی تھی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ ایسا نہ کرنے والے افغان شہریوں کی یکم اپریل سے ملک بدری کا عمل شروع ہو جائے گا۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں بسنے والے 20 لاکھ سے زائد افعان باشندوں کو مرحلہ وار ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایات جاری کی تھیں۔

حکومت نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں سے ان علاقوں میں رہنے والے افغان باشندوں کے اعداد و شمار اور ان کے تازہ ترین سٹیٹس سے متعلق بھی تفصیلات طلب کی تھیں جن پر عملدرآمد کرتے ہوئے پنجاب، سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے اپنی رپورٹس وفاقی وزارت داخلہ کو جمع کروا دیں ہیں۔

اس کے علاوہ متعلقہ صوبائی حکومتوں سے جیلوں کے علاوہ ان ممکنہ مقامات کی نشاندہی کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا تھا جہاں پر پہلے مرحلے میں 31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد پاکستان میں رہ جانے والے افغان باشندوں کو رکھا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افغان شہری مقیم ہیں جن میں سے تقریباً آٹھ لاکھ افغان شہریوں کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ افغان باشندے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیں۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے افغان شہریوں کی بے دخلی کے عمل میں توسیع کی تجویز دی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان نے اکتوبر 2023 میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا تھا جس کے تحت لاکھوں افغان باشندوں کو واپس افغانستان بھجوایا جا چکا ہے۔

پاکستان نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا تھا، جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور اسلام آباد نے اس کا الزام مبینہ طور پر افغانستان سے آپریٹ کرنے والے شدت پسندوں پر لگایا تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

سنہ 2023 میں اس وقت کی نگران حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے فیصلے کے خلاف ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں دائر ہونے والی اس درخواست میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں صرف غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑا جائے گا جبکہ افغان سٹیزن کارڈ اور پی آو آر کارڈ حاصل کرنے والے افراد کو مرحلہ وار واپس بھیجا جائے گا۔

وفاقی کابینہ کے 20 جولائی 2024 کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پروف آف ریزیڈینس (پی او ار ) کارڈ حاصل کرنے والے افغان باشدوں کے قیام میں 30 جون 2025 تک توسیع کر دی۔

افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی اپیلGetty Imagesافغان وزیر برائے پناہ گزین و مہاجرین مولوی عبدالکبیر نے پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری ملک بدری کے عمل کو روکا جائے اور افغان باشندوں کو رضا کارانہ طور پر لوٹنے دیا جائے

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق ( یو این ایچ سی آر) کی نمائندہ فلیپا کانڈلیر نے عید کے موقع پر جاری ایک بیان میں پاکستان حکومت سے افغان باشندوں کی اپنے ملک واپسی کے عمل کو قابل عمل اور مستحکم بنانے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ منصوبہ بنانے کی درخواست کی ہے۔

جبکہ افغان وزیر برائے پناہ گزین و مہاجرین مولوی عبدالکبیر نے پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری ملک بدری کے عمل کو روکا جائے اور افغان باشندوں کو رضا کارانہ طور پر لوٹنے دیا جائے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی پاکستان میں نمائندہ فلیپا کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1979 کے بعد سے تقریباً پانچ دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے اور یہاں سے واپس اپنے وطن گئے ہیں۔

ان کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر 31 مارچ تک سٹیزن کارڈ ہولڈر شہریوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن نے پاکستان میں مقیم بہت افغان گھرانوں کو پریشان کر دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے سنہ 2022 میں افغانستان میں طالبان کے حکومت میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہاں پناہ لینے والے خاندان اس وقت کافی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ’بہت سے ہنرمند افغان نوجوانوں اور لڑکیوں کو واپس اپنے ملک جانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے جہاں ان کے پاس ترقی کے کوئی خاص مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ ان افغان گھرانوں کو ایک بے یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔‘

افغان مہاجرین سے سلوک ناقابل قبول، پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کرے: ذبیح اللہ مجاہدپاکستان آنے والے افغان شہری ’پناہ گزین‘ کیوں نہیں ہیں؟’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ تھا‘: افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کا ملک سے ’فلمی فرار‘’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہوا

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی پاکستان میں نمائندہ فلیپا کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً آٹھ لاکھ ایسے افغان باشندے ہیں جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے۔ ’یہ شہری گزرتے وقت کے ساتھ وہ پاکستان کی معیشت اور سماج کا حصہ بن گئے ہیں۔ کچھ خاندانوں نے یہاں شادیاں کر لیں ہیں۔ ایسے میں ان خاندانوں کا افغانستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے اور سنہ 2023 میں جبری طور پر بھیجے جانے والے بہت سے افغان باشندے دوبارہ پاکستان آ چکے ہیں۔‘

’اس لیے اس مسئلہ پر پاکستان اور افغانستان کی حکومت کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ان شہریوں کو واپسی کو محفوظ اور قابل عمل بنایا جا سکے۔‘

یاد رہے کہ حالیہ چند مہینوں کے دوران ایران اور پاکستان نے ملک میں مقیم افغان شہریوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

افغان رجسٹریشن کارڈ کیا ہے؟Getty Imagesیہ کارڈ ان افغان شہریوں کو نادرا کی جانب سے جاری کیے تھے جو پاکستان میں مقیم تھے۔ اس کارڈ کے اجرا کا مقصد حکومت کے پاس ان افغان شہروں کے تمام کوائف حاصل کرنا تھا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق 31 مارچ کی ڈیڈ لائن تک اور اس کے بعد ان افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہیں۔

یہ کارڈ ان افغان شہریوں کو نادرا کی جانب سے جاری کیے تھے جو پاکستان میں مقیم تھے۔ اس کارڈ کے اجرا کا مقصد حکومت کے پاس ان افغان شہروں کے تمام کوائف حاصل کرنا تھا۔

یہ کارڈ پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کے لیے ایک شناختی دستاویز ہے جو انھیں ملک میں عارضی قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے اور حکومتی سہولیات یا خدمات تک رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم یا ایسے افغان شہریوں جن کے پاس کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں تھی کو یہ کارڈ سنہ 2017 سے جاری کرنا شروع کیا گیا تھا۔

تاہم حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان نے افغان شہریوں کو مرحلہ وار اپنے ملک واپس بھیجنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کو بھی 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر غیر قانونی کیوں؟Getty Imagesوفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بسنے والے افغان باشندوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے جس پالیسی کی منظوری رواں سال جنوری میں دی گئی تھی اسی پالیسی کو ملک بھر میں نافذ کیا گیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بسنے والے افغان باشندوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے جس پالیسی کی منظوری رواں سال جنوری میں دی گئی تھی اسی پالیسی کو ملک بھر میں نافذ کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا تھا کہ جن افغان باشندوں کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ہیں ان کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جن افغان شہریوں کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ہیں ان میں سے 70 فیصد سے زائد ایسے ہیں جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔

واضح رہے کہ سنہ 2017 میں پاکستانی حکومت نے افعان سٹیزن کارڈ کا اجرا شروع کیا تھا اور یہ وہ افغان باشندے ہیں، جنھوں نے پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی ار سے پروف آف رجسٹریشن کارڈ حاصل نہیں کیا تھا۔

اہلکار کے مطابق ان افراد نے اقوام متحدہ کے ادارے میں اس وقت رجسٹریشن نہیں کروائی تھی۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو وہ سہولیات حاصل نہیں جو پروف آف رجسٹریشن کارڈ والے کو حاصل ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کا بھی اس حوالے سے یہی موقف ہے کہ افغان شہریوں کے پاکستان میں رہنے کے حوالے سے پہلے ہی بہت زیادہ نرمی برتی گئی لیکن یہ نرمی غیر معینہ مدت کے لیے نہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق 31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز اب غیر قانونی تصور ہوں گے۔

پی او آر کارڈ والے افغان شہری کب تک پاکستان میں رہ سکیں گے؟Getty Images

پاکستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ دستاویز میں تین مراحل پر مشتمل منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے، جس کے مطابق پہلے مرحلے میں اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو ملک بدر کیا جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کو واپس بھیجا جائے گا۔ پاکستان میں مقیم پی او آر کارڈ ہولڈرز افغان شہریوں کو 30 جون 2025 تک قیام کی اجازت دی گئی ہے۔

جبکہ تیسرے مرحلے میں ان افغان شہریوں کی واپسی کا انتظام کیا جائے گا جو کسی تیسرے ملک منتقلی کے منتظر ہیں۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک افغان مہاجرین کو پناہ دی، مگر اب یہ سلسلہ مزید جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق ملک میں پروف آف ریزیڈینس (پی او آر) کارڈ والے افغان باشندوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں مقیم پی او آر کارڈ ہولڈرز پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔ پاکستان میں اپنے نام پر موبائل سم کارڈ حاصل کر سکتے ہیں، انھیں رہائش رکھنے اور کاروبار کرنے کی بھی اجازت ہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق پالیسی کے مطابق پی او آر کی کیٹیگری میں آنے والے افغان باشندوں کو 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے اور اس کے بعد انھیں اپنے وطن واپس جانا ہو گا۔

کسی تیسرے ملک میں جانے کے خواہشمند افغان شہریوں کے ساتھ کیا ہو گا؟Getty Images

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جو افغان شہری افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان آئے تھے اور وہ کسی تیسرے ملک میں جانا چاہتے ہیں ان کی بھی پاکستان میں قیام کی مدت 30 جون تک ہے۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ان کے کسی بیرون ملک جانے کے لیے کاغذات میں تاخیر ہوتی ہیں تو انھیں 30 ستمبر تک ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے گی۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق وزارت خارجہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ پاکستان میں قائم مختلف ملکوں کے سفارت خانوں سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ ایسے افغان باشندوں کے ویزے کا عمل جلد از جلد مکمل کریں۔

اہلکار کے مطابق اگر اس عرصے کے دوران مختلف سفارت خانے ان افغان باشدوں کو ویزے جاری نہیں کرتے تو ایسے افراد کا 30 ستمبر کے بعد پاکستان میں قیام غیر قانونی تصور ہو گا۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق بہت سے ایسے افغان باشندے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے پہلے مختلف سفارت خانوں یا بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے تھے، ان میں سے متعدد مختلف ملکوں میں جا چکے ہیں۔

’سب سے زیادہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز متاثر ہوں گے‘Getty Imagesپاکستان میں اس وقت ایسے افغان باشندوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے جن کے پاس نہ تو افغان سیٹیزن کارڈ ہے اور نہ ہی پناہ گزین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے پروف آف رجسٹریشن یعنی (پی او ار) کارڈ جاری کیا گیا۔

پاکستان میں اس وقت ایسے افغان باشندوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے جن کے پاس نہ تو افغان سٹیزن کارڈ ہے اور نہ ہی پناہ گزین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے پروف آف رجسٹریشن یعنی (پی او ار) کارڈ جاری کیا گیا۔

افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی وہی پالیسی ہے جس پر عملدرآمد نومبر 2023 میں شروع ہوا تھا۔

طاہر خان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دینے سے چند روز قبل افغان وزیر مولوی عبدالکبیر نے افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور سے ملاقات کر کے کچھ مزید وقت مانگا تھا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے سب سے زیادہ افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز متاثر ہوں گے کیونکہ ان میں اکثریت کے پاکستان میں نہ صرف کاروبار ہیں بلکہ ان کے بچے بھی محتلف تعلمیی ادروں میں زیر تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایسے کارڈ کے حامل افراد نے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر جائیدادیں بھی بنا رکھی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کے اعلان کے بعد اب ایسے لوگ شدید پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اتنی جلدی اپنا کاروبار سمیٹ کر افعانستان جائیں گے۔

طاہر خان کا کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت افغانستان میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی، اس لیے پاکستانی حکومت افعان باشندوں کو اپنے ملک واپس بھیجنا چاہتی ہے۔

31 مارچ سے افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی غیرقانونی: اس کے بعد کون سے افغان شہری پاکستان میں رہیں گے؟افغان مہاجرین سے سلوک ناقابل قبول، پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کرے: ذبیح اللہ مجاہدپاکستان آنے والے افغان شہری ’پناہ گزین‘ کیوں نہیں ہیں؟افغان پناہ گزینوں کے پاکستانی ثقافت پر گہرے نقوش’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ تھا‘: افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کا ملک سے ’فلمی فرار‘’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہوا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More